Idrees Chachar
Banned
بھائی جان، عامی کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اپنی چھوٹی بہن کا یہ سوال مجھے چنداں برانہ لگا کہ بار ہا مجھ سے یہ سوال پوچھا گیا تھااور اتنی ہی بار مجھے کترانا پڑا اور کتراتا کیوں نہ ؟ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں،عامی کے لغوی معنی تو عام شخص کے ہیں مگر جب برطانیہ کے عامی اپنی سلطنت کے لئے ،اپنی رضا مندی سے،اپنے لیے ایک دستور کا مطالبہ کرنے لگے تو یہ لفط ان کے لیے گالی بن گیاکیونکہ برطانیہ کے حکمران اورروساء کو اگر کسی کو غیر مہذب اور غیر تعلیم یافتہ بتانا مقصود ہوتا تو اُسے بڑی حقارت سے عامی کہہ کر پکارتے۔ یعنی اُن کی زبان میںCommonerجس کی نہ کوئی عزت ہے اور نہ ہی مان و مرتبہ ۔مگراپنے اسی مان و مرتبہ کے حصول کے لیے برطانیہ کے یہ کمزور اورلاچار عامی اٹھ کھڑے ہوئے۔
جس کے بعد عامیوں کی خونریز جہدو جہد اور قربانیوں کے بعد برطانیہ میں میگنا کارٹا تو تشکیل پا گیا مگر رفتہ رفتہ یہ گالی (عامی) زبان زد وعام ہوتی چلی گئی اور ادھر میرے اباجان میرے نام عامر میں کمی کر کے مجھے بھی عامی کہہ کر پکارنے لگے۔میں اب تک اپنی بہن کو جواب نہ دے سکا تھا،بس ذہن کے طوفان گرد وبار میں کئی چہرے نمود ار ہوتے ،مجھ سے اظہار یک جہتی کرتے اور اسی طوفان گردوبار میں غائب ہوتے چلے جاتے۔ میں مسلسل سوچے چلا جا رہا تھا ،روح کہیں کسی دوسرے سیارے کے سفر پر روانہ ہو چکی تھی ،ایک ایسا سیارہ جو ہے تو اسی زمین پر مگر وہاں انسانوں کے درمیاں امارات اور غربت کی لیکر کھنچی جا چکی ہے۔ جہاں خاص و عام کی تفریق واضح ہے ،جہاں زندگی بھاگتی نہیں ،رینکتی ہے اور اپنے ایک ایک سانس کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔
اب ایک سوال بار بار پیدا ہوتا ہے کہ یہ عامی کیا ہوتا ہے؟ تو دوستوں جو معاشرے کے رائج کردہ فرسودہ اصولوں میں تصحیح کرنے کی جرات کرے اور اسے زہر کا پیالہ پینا پڑے، وہی تو عامی ہے؟زنج کے قبائل میں جو سماجی حقوق کا خاکہ کھینچے اور اُسے مصلوب کر دیا جائے ،وہی تو عامی ہے۔ ایک ترکعان کی کنواری منگیتر کے ہاں کسی بچے کا جنم ہو اور وہ خود کو خدا کا بیٹا کہنے لگے ،وہی تو عامی ہے اور سماجی منظق کے تحت اس کو سولی پر چرھا دینے سے بہتر اور انصاف ہو بھی کیا سکتا ہے؟وہ جو مکے کے سرداروں کو درس انسانیت دے اور تاریخ کے کالے اندھیروں میں ایمان کی روشنی جگانے کی سعی کرے ،اور زمانے کے پتھر اور غلیظ اوجڑیاں اس پر پھینکی جائیں مگر وہ پھر بھی آگے ہی بڑھتا چلا جائے کہ اللہ نے عام لوگوں کی راہنمائی کے لیے ان ہی میں سے انہیں ؐ چنا اور پھر ان کے زریعے عام لوگوں کی یوں راہنمائی کی کہ انہوں نے غلاموں کو عزت کے ان محاسن پر بیٹھایا کہ خاص بلبلا اٹھے اور مکے کی زمین ان کے لیے تنگ کر دی۔
عامی تو ہر عہد میں رہے ہیں اور ہر دور میں خاصانِ زمین کا شکار بھی ہوتے آئے ہیں،سپارٹیکس کو لیجئے، وہ بھی عامی تھا ،1900سے لیکر 1919تک وسطیٰ ایشیا ء میں مرنے اور مارنے والے دونوں طبقات کے لوگ عامی تھے۔ ہند میں برطانوی سامراج سے لڑتے ہوئے جان دینے والے بھی عامی تھے اور ان سے ہاتھ ملا کر جاگیریں بٹورنے والے بھی اُس عہد کے عامی تھے۔شہر کی سڑکوں پر،عدالت کی چوکھٹوں ، ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈوں میں،سرکاری سکول کی خستہ حال عمارتوں میں ،پبلک ٹرانسپورٹ کے اندر،اوپر اور باہر جو بھیڑ سماج کے برہنہ جسم پر لگے ناسوروں میں کیڑوں کی طرح پڑی ہوئی ہے اس کا کوئی بھی چہرہ اٹھا لیجئے آپ فورا پہچان لیں گے کہ ہاں یہی عامی ہے۔ عامی کا کوئی رنگ ،نسل،مذہب ،ذات یا جنس تو ہوتی نہیں ۔ افریقی قبائل سے زنجیروں میں جکڑ کر لائے گئے غلام بھی عامی تھے، نیو یارک کے گلی کوچوں میں سامنے ہیٹ رکھ کر بھیک مانگنے والے بھی، وطن عزیز کے فٹ پاتھ پر اپنا دودھ پیتا بچہ لے کر نیم برہنہ حالت میں ما نگنے والی بھی، مری روڈ راولپنڈی پر چمکیلے ملبوس میں ہونٹوں پر خون رنگ سرخی چپکائے مانگنے والے حضرت مخنث بھی ، سب عامی ہی توہیں ۔ قید خانوں کے اندر اور قبحہ خانوں کی سیڑھیوں اور جھروکوں میں بسنے والے ،درگاہوں پر،مساجد میں،بم دھماکوں میں مرنے والے بھی عامی ہی تو ہیں۔
عامی !۔ خاصان کی دنیا کو دیکھا جائے تو یہ عامیوں کے دم سے ہی چل رہی ہے۔ ایک سیٹی بجنے پر دنیا بھر کے عامی فیکٹریوں میں داخل ہوتے ہیں اور دوسری سیٹی بجنے پر اپنی تمام طاقت ان خاصان کا بینک بیلنس بھر کر اور محض ہاتھ ہلاتے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں جہاں ان کے بچے اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل کا خواب دیکھتے دیکھتے سو چکے ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے برقی و کاغذی اخبار مالکان کا دھندہ بھی یہی عامی چلاتے ہیں۔ خبر آتی ہے کہ سینکڑوں دیہات زیر آب آنے سے درجنوں افراد ہلاک ! یہ درجنوں افراد کون ہیں ؟ کیا ان بڑی بڑی حویلیوں کے خاصان ؟ نہیں،صاحب یہ بھی عامی ہیں۔ بم دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی شناخت کیجئے، یہ بھی عامی ہیں۔ یہ مساجد میں امام کے پیچھے کھڑے ہونے والے، گرجوں میں سر جھکا کر اطاعت کا مجسمہ بنے ہوئے ، ،بیماری میں شفاء کی خاطر دھاگہ باندھنے والے،منتیں ماننے والے ،یہ کشمیر،میانمر، بھارت، بنگلہ دیش، فلسطین،امریکہ،یورپ، شام ، مصر ہر جگہ مرنے والے ،یہ سب عامی ہیں۔انگریزی لغت کے مطابق جاہل،ان پڑھ۔
ارے صاحبوں ! کیا تم نے ،میں نے اِن عامیوں کو گلہ کرتے ہوئے دیکھا اور سنا مگر اپنے حالات تبدیل کرنے کے لیے ان کی جدو جہد کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ اپنے خطے کی طرف دیکھو تو جانو گے کہ
سرکاری عامیوں کو بسوں میں بھر کے سرکاری جلسوں میں لے جایا جاتا ہے مگر واپسی پر تنخواہ نہیں بڑھتی، بڑھے بھی کیوں؟ ۔ اپوزیشن کے جلسوں میں یہی عامی نعرے لگاتے ہیں اور کھانے کی تقسیم کے وقت بھگدڑ مچ جانے کے باعث بیشتر عامی بھوکے ہی گھر وں کولوٹ آتے ہیں،وہ بھی زخمی حالت میں۔ ملاؤں کے اجتماع میں جانے والے جنت کی نوید لہک لہک کر سنتے ہیں اور واپس ایسے گھروں کو لوٹ آتے ہیں جہاں زندگی دوزخ سے بھی بدتر ہوتی ہے۔
وہ بھی تو ایک عامی ہی تھا ،جو سٹریٹ لائٹ میں پڑھتے پڑھتے ملک کا پہلا نوبل انعام یافتہ ہو گیا۔ جس نے گولی کھائی ،ملک کے لیے دوسرا نوبل انعام حاصل کیا مگر خواص کے شر سے بچنے کے لیے دوسری زمین پر آباد ہوئی مگر اپنی زمین کے عامیوں کے لیے جد و جہد میں مصروف ہے۔وہ بھی ایک عامی ہی ہے۔
مگر خیر سے اب خاصان زمین اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ عامیوں کو جس طرح مرضی ہانکو،یہ تابعداروں کا وہ ریوڑ ہے جس کی حفاظت کے لیے جس کو مرضی بیٹھا دو،آواز نہیں اٹھائے گے چاہیے کھا پی لیے جائیں ۔ کس نے بولنا ہے۔ پہلے صرف بھوک ،بیماری اور جہالت کے باعث مر رہے تھے مگر اب یہ عامی دہشت گردوں کے ہاتھوں بھی مریں گے اورجعلی دوائیو ں کے ہاتھوں بھی۔ اب خاصانِ زمین اور جمہوریت عامیوں کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہیں اور انہیں عوام کہتے ہیں ۔ چشم بددور،ترقی تو ہو گئی مگر حقیقت نہیں بدل سکی اور نہ ہی بدل سکے گی کیونکہ ہم نے عامیوں کی ہر جد و جہد کو بھلا دیا ہے ۔اس لیے آج کا عامی روشنی رکھتے ہوئے بھی تاریخ کے تاریک ترین دور سے گزر رہا ہے
Last edited by a moderator: