کراچی(اسٹاف رپورٹر) حالیہ ماہ رمضان میں جیوکی تاریخ ساز نشریات”امان رمضان “کواختتام پذیرہوئے اگرچہ دوہفتے سے زائدہوچکے ہیں لیکن ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے دلکش اندازمیزبانی کے انمٹ نقوش آج بھی لوگوں کے ذہنوں پر قائم ہیں اور عالمی میڈیامیں بھی اس کے چرچے ابھی تک سنے جارہے ہیں۔دنیا کے صف اوّل کے نشریاتی ادارے این بی سی نیوز نے ڈاکٹر عامرلیاقت حسین کو بلاشرکت غیرے میڈیاانڈسٹر ی کاسپراسٹار قراردیتے ہوئے لکھا ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین پاکستان ٹیلی ویژن کا ایک بہت بڑا نام ہیں اورحالیہ ماہ رمضان میں اُن کی پیش کردہ ”امان رمضان“ نشریات نے ریکارڈ سازریٹنگ کی بدولت مقبولیت کی انتہاوٴں کو چھوا۔
معروف عالمی نشریاتی ادارے نے اس نشریات کومیڈیاکاایک غیرمعمولی سنگ میل قرار دیتے ہوئے اپنی خصوصی رپورٹ میں بتایاہے کہ ماہ رمضان میں متواتر تیس روزتک صبح و شام 14 گھنٹے مسلسل نشر ہونے والی یہ ٹرانسمیشن با لآخر اپنے اختتام کو پہنچی مگر مقبولیت کے کئی انمٹ نقوش لوگوں کے ذہنوں پر قائم کرگئی جنہیں فراموش کرنامشکل ہے۔این بی سی نیوز کاکہناہے کہ تاریخ ساز نشریات کے دوران بے اولاد جوڑوں کواولاد کی نعمت دینے پر ڈاکٹرعامر لیاقت حسین کے بعض مخالفین اُن پر طرح طرح کے الزامات بھی عائد کرتے رہے تاہم ان کی غیر معمولی کارکردگی اورعوامی حلقوں میں اُن کی والہانہ مقبولیت نے تمام الزامات کو دھندلا کر رکھ دیا ہے۔این بی سی نیوز کے نمائندے سے اپنی گفتگو میں انہوں نے اس حوالے سے لگائے گئے تمام الزامات کو ٹھوس اندازمیں رد کرتے ہوئے اسے خدمت خلق اوراسلام کااصل چہرہ قرار دیاہے اوراب یہ بات بالکل واضح ہوچکی ہے کہ وہ پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کے ایک ایسے ہردلعزیزسپراسٹار ہیں جن سے لوگ بے پناہ محبت کرتے ہیں۔
عالمی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں میزبان کے دل آویز اندازگفتگواور منفردطرزمیزبانی کونشریات کی مقبولیت کااصل سبب قرار دیتے ہوئے بتایاہے کہ ڈاکٹرعامر لیاقت حسین کے علمائے کرام سے تبادلہ خیال کے دوران ناظرین کی جانب سے بھی سوالات پوچھنے کاسلسلہ جاری رہتاہے اورنشریات کے اختتام سے قبل ذہنی آزمائش کے مقبول ترین انعامی سلسلے کے دوران جب وہ سبک رفتاری سے سیڑھیوں پر چڑھتے اترتے حاضرین سے سوالات پوچھتے ہیں تواُس وقت شرکاء کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل ہوتا ہے اورہرشخص اُن کے پوچھے گئے سوال کادرست جواب دے کر انعامات جیتنے کا متمنی ہوتا ہے جس پر کار،موٹر سائیکلز، واشنگ مشینز، سیل فونز اور قیمتی ملبوسات بطور انعام دیے جاتے ہیں ۔این بی سی نیوز کے نامہ نگار کاکہناہے کہ جس روز اُس نے نشریات میں شرکت کی اُس روز ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے اپنی نشریات میں باوردی پولیس اہلکاروں کو مدعو کرکے ان سے بھی سوالات پوچھے تھے جن میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ کراچی سینٹرل جیل کہاں واقع ہے؟ جس کے درست جواب پر اہلکار کو موبائل فون کا انعام دیاگیا جس پر حاضرین نے قہقہے بھی بلند کیے۔
نامہ نگار کاکہناہے کہ ڈاکٹرعامر لیاقت حسین کے نزدیک یہی اسلام کی اصل تصویر ہے کہ دکھی لوگوں کے چہروں پرمسکراہٹیں بکھیری جائیں اوریہ اُن کے تصورات کے مطابق ایک ایسی نشریات ہے جس میں مسرت بھی ہے، ہلکی پھلکی گفتگو بھی ہے، سنجیدہ موضوعات پر بحث بھی ہے، انعامی سلسلہ بھی ہے، بچوں کے ساتھ شفقت اور کھانا پکانا بھی شامل ہے اور یہ سب رمضان میں لوگوں کے مختلف طبقات کو خوشیوں میں شریک کرنے کاایک طریقہ ہے۔امریکاکے معروف نشریاتی ادارے نے اپنی خصوصی رپورٹ میں کہاہے کہ بے اولادوں کو بچوں کی حوالگی پربعض حلقوں کی جانب سے تنقیدکا نشانہ بنانے والوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ڈاکٹر عامر لیاقت نے بتایا کہ اس حوالے سے اُن پر تنقید کرنے والے انسانی جذبات سے عاری اور اسلامی تعلیمات سے قطعی ناواقف ہیں ،ان کا کہنا تھا کہ یہ نیک عمل ریٹنگ بڑھانے کاطریقہ نہیں بلکہ خدمت خلق ہے، ایسا ہرگز نہیں ہوتا کہ کوئی ہمارے پروگرام میں آئے اور بچے کو بطور انعام جیت کر چلا جائے بلکہ مکمل طریقہ کار اور تحقیق کے بعد بچے کو متعلقہ افراد کے حوالے کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے این بی سی نیوزکامزیدکہناہے کہ جہاں بعض ناقدین نے ان کے اس عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہیں دوسری جانب بعض تجزیہ نگاروں نے اسے مثبت اقدام بھی قرار دیا ہے۔ کالم نگار فاروق پراچہ اس حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کوڑے کے ڈھیرسے برآمد ہونے والے لاوارث بچوں کو بے اولاد جوڑوں کے حوالے کرنا کوئی معیوب بات نہیں، تاہم براہ راست نشریات کے دوران اُن کایہ اقدام تنقید کا باعث بنا۔مقامی فلاحی ادارہ چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن جو بچوں کو بے اولادجوڑوں کے حوالے کرنے کے اس نیک عمل میں ان کا شریک ہے اس کے سربراہ رمضان چھیپا نے این بی سی کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے اس طریقہ کار کی وضاحت کی جو بچوں کو بے اولاد جوڑوں کے حوالگی سے قبل انجام دیا جاتا ہے۔ان کاکہناتھا کہ اس حوالے سے تنقید کے بجائے اس انسانیت سوز پہلو پر توجہ دی جانی چاہیے کہ کوڑے کے ڈھیر پر پڑے ان بچوں کی زندگی کو کس طرح محفوظ بنایا جائے، ہمارے رضا کار مہینے میں ایسے 8 سے 10 بچے کوڑے کے ڈھیر سے اٹھاتے ہیں۔
براہ راست نشریات میں ان بچوں کو بے اولاد جوڑوں کے حوالے کرنے کا مقصد ناظرین کی توجہ اس تلخ حقیقت کی جانب مبذول کرانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قبرستان میں نجانے کتنی ہی قبریں ایسے گمنام بچوں کی ہیں جن پر کوئی نہیں آتا ،جن کا کوئی والی وارث نہیں جو کوڑے کے ڈھیر پر سسکتے ہوئے لقمہٴ اجل بن گئے۔ انہوں نے کہا کہ جو بچی بے اولاد والدین کے حوالے کی گئی وہ دو دن کی بچی تھی جسے بعض ظالموں نے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا تھا اور اسے چند گھنٹے قبل ہی ہمارے رضا کار وہاں سے اٹھا کر لائے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی حوالگی سے قبل اچھی طرح تصدیق کرلی جاتی ہے اور اس حوالے سے کافی متوازن طریقہ کار موجود ہے۔ ہمیں روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں ایسے لوگوں کی درخواستیں موصول ہورہی ہیں جو بے اولاد ہیں جو ان بچوں کو گود لینا چاہتے ہیں۔
عالمی نشریاتی ادارے نے اولاد کی نعمت سے مالامال ہونے والے جوڑے کے جذبات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایاکہ وہ پہلا بے اولاد جوڑا جس نے اولاد کی نعمت حاصل کی وہ ریاض الدین اور بیگم تنظیم ریاض پر مشتمل تھاجنہوں نے گفتگو کے دوران اس بات کی توثیق کی کہ کافی چھان پھٹک کے بعد بچی اُن کے حوالے کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فاطمہ کا حصول ایک نعمت ہے اور ٹی وی اسکرین پر اس بچی کی حوالگی پر انہیں کوئی اعتراض نہیں۔این بی سی نیوز سے گفتگوکرتے ہوئے خوش وخرم جوڑے نے بتایا کہ ہم اپنے جیسے دوسرے بے اولاد بہن بھائیوں کوبھی یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے اور طلاق کی نوبت آنے کے بجائے ایسے بچوں سے اپنی گود بھریں اور اپنی زندگی میں رنگ بھریں جبکہ نوآموز ماں تنظیم ریاض نے کہا کہ 14 برس سے ہم اولاد کی نعمت سے محروم تھے اور اس بچی نے ہماری زندگی کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔
رمضان چھیپا جوروزانہ ہی اس نشریات کا حصہ بنتے تھے،اُن کا کہنا ہے کہ ہم لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی مہم چلا رہے ہیں اور اپیل کر رہے ہیں کہ بچوں کو قتل کرنے کے بجائے ہمارے رضا کاروں کے حوالے کریں۔این بی سی نیوز نے اپنی خصوصی رپورٹ کے اختتام پرڈاکٹرعامرلیاقت حسین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ ماہ رمضان اختتام پذیر ہوا، عامر لیاقت حسین نے دیگر تمام مدمقابل کو بہت پیچھے چھوڑتے ہوئے زبردست ریٹنگ حاصل کی اور کئی ریکارڈز توڑتے ہوئے نئے سنگ میل عبور کیے۔ بلاشبہ حالیہ ماہ رمضان میں کروڑوں ناظرین نے ان کی پیش کردہ نشریات کو دیکھا جو کہ ان کے چینل جیو ٹیلی ویژن کے لیے بھی ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔
معروف عالمی نشریاتی ادارے نے اس نشریات کومیڈیاکاایک غیرمعمولی سنگ میل قرار دیتے ہوئے اپنی خصوصی رپورٹ میں بتایاہے کہ ماہ رمضان میں متواتر تیس روزتک صبح و شام 14 گھنٹے مسلسل نشر ہونے والی یہ ٹرانسمیشن با لآخر اپنے اختتام کو پہنچی مگر مقبولیت کے کئی انمٹ نقوش لوگوں کے ذہنوں پر قائم کرگئی جنہیں فراموش کرنامشکل ہے۔این بی سی نیوز کاکہناہے کہ تاریخ ساز نشریات کے دوران بے اولاد جوڑوں کواولاد کی نعمت دینے پر ڈاکٹرعامر لیاقت حسین کے بعض مخالفین اُن پر طرح طرح کے الزامات بھی عائد کرتے رہے تاہم ان کی غیر معمولی کارکردگی اورعوامی حلقوں میں اُن کی والہانہ مقبولیت نے تمام الزامات کو دھندلا کر رکھ دیا ہے۔این بی سی نیوز کے نمائندے سے اپنی گفتگو میں انہوں نے اس حوالے سے لگائے گئے تمام الزامات کو ٹھوس اندازمیں رد کرتے ہوئے اسے خدمت خلق اوراسلام کااصل چہرہ قرار دیاہے اوراب یہ بات بالکل واضح ہوچکی ہے کہ وہ پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کے ایک ایسے ہردلعزیزسپراسٹار ہیں جن سے لوگ بے پناہ محبت کرتے ہیں۔
عالمی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں میزبان کے دل آویز اندازگفتگواور منفردطرزمیزبانی کونشریات کی مقبولیت کااصل سبب قرار دیتے ہوئے بتایاہے کہ ڈاکٹرعامر لیاقت حسین کے علمائے کرام سے تبادلہ خیال کے دوران ناظرین کی جانب سے بھی سوالات پوچھنے کاسلسلہ جاری رہتاہے اورنشریات کے اختتام سے قبل ذہنی آزمائش کے مقبول ترین انعامی سلسلے کے دوران جب وہ سبک رفتاری سے سیڑھیوں پر چڑھتے اترتے حاضرین سے سوالات پوچھتے ہیں تواُس وقت شرکاء کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل ہوتا ہے اورہرشخص اُن کے پوچھے گئے سوال کادرست جواب دے کر انعامات جیتنے کا متمنی ہوتا ہے جس پر کار،موٹر سائیکلز، واشنگ مشینز، سیل فونز اور قیمتی ملبوسات بطور انعام دیے جاتے ہیں ۔این بی سی نیوز کے نامہ نگار کاکہناہے کہ جس روز اُس نے نشریات میں شرکت کی اُس روز ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے اپنی نشریات میں باوردی پولیس اہلکاروں کو مدعو کرکے ان سے بھی سوالات پوچھے تھے جن میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ کراچی سینٹرل جیل کہاں واقع ہے؟ جس کے درست جواب پر اہلکار کو موبائل فون کا انعام دیاگیا جس پر حاضرین نے قہقہے بھی بلند کیے۔
نامہ نگار کاکہناہے کہ ڈاکٹرعامر لیاقت حسین کے نزدیک یہی اسلام کی اصل تصویر ہے کہ دکھی لوگوں کے چہروں پرمسکراہٹیں بکھیری جائیں اوریہ اُن کے تصورات کے مطابق ایک ایسی نشریات ہے جس میں مسرت بھی ہے، ہلکی پھلکی گفتگو بھی ہے، سنجیدہ موضوعات پر بحث بھی ہے، انعامی سلسلہ بھی ہے، بچوں کے ساتھ شفقت اور کھانا پکانا بھی شامل ہے اور یہ سب رمضان میں لوگوں کے مختلف طبقات کو خوشیوں میں شریک کرنے کاایک طریقہ ہے۔امریکاکے معروف نشریاتی ادارے نے اپنی خصوصی رپورٹ میں کہاہے کہ بے اولادوں کو بچوں کی حوالگی پربعض حلقوں کی جانب سے تنقیدکا نشانہ بنانے والوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ڈاکٹر عامر لیاقت نے بتایا کہ اس حوالے سے اُن پر تنقید کرنے والے انسانی جذبات سے عاری اور اسلامی تعلیمات سے قطعی ناواقف ہیں ،ان کا کہنا تھا کہ یہ نیک عمل ریٹنگ بڑھانے کاطریقہ نہیں بلکہ خدمت خلق ہے، ایسا ہرگز نہیں ہوتا کہ کوئی ہمارے پروگرام میں آئے اور بچے کو بطور انعام جیت کر چلا جائے بلکہ مکمل طریقہ کار اور تحقیق کے بعد بچے کو متعلقہ افراد کے حوالے کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے این بی سی نیوزکامزیدکہناہے کہ جہاں بعض ناقدین نے ان کے اس عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہیں دوسری جانب بعض تجزیہ نگاروں نے اسے مثبت اقدام بھی قرار دیا ہے۔ کالم نگار فاروق پراچہ اس حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کوڑے کے ڈھیرسے برآمد ہونے والے لاوارث بچوں کو بے اولاد جوڑوں کے حوالے کرنا کوئی معیوب بات نہیں، تاہم براہ راست نشریات کے دوران اُن کایہ اقدام تنقید کا باعث بنا۔مقامی فلاحی ادارہ چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن جو بچوں کو بے اولادجوڑوں کے حوالے کرنے کے اس نیک عمل میں ان کا شریک ہے اس کے سربراہ رمضان چھیپا نے این بی سی کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے اس طریقہ کار کی وضاحت کی جو بچوں کو بے اولاد جوڑوں کے حوالگی سے قبل انجام دیا جاتا ہے۔ان کاکہناتھا کہ اس حوالے سے تنقید کے بجائے اس انسانیت سوز پہلو پر توجہ دی جانی چاہیے کہ کوڑے کے ڈھیر پر پڑے ان بچوں کی زندگی کو کس طرح محفوظ بنایا جائے، ہمارے رضا کار مہینے میں ایسے 8 سے 10 بچے کوڑے کے ڈھیر سے اٹھاتے ہیں۔
براہ راست نشریات میں ان بچوں کو بے اولاد جوڑوں کے حوالے کرنے کا مقصد ناظرین کی توجہ اس تلخ حقیقت کی جانب مبذول کرانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قبرستان میں نجانے کتنی ہی قبریں ایسے گمنام بچوں کی ہیں جن پر کوئی نہیں آتا ،جن کا کوئی والی وارث نہیں جو کوڑے کے ڈھیر پر سسکتے ہوئے لقمہٴ اجل بن گئے۔ انہوں نے کہا کہ جو بچی بے اولاد والدین کے حوالے کی گئی وہ دو دن کی بچی تھی جسے بعض ظالموں نے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا تھا اور اسے چند گھنٹے قبل ہی ہمارے رضا کار وہاں سے اٹھا کر لائے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی حوالگی سے قبل اچھی طرح تصدیق کرلی جاتی ہے اور اس حوالے سے کافی متوازن طریقہ کار موجود ہے۔ ہمیں روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں ایسے لوگوں کی درخواستیں موصول ہورہی ہیں جو بے اولاد ہیں جو ان بچوں کو گود لینا چاہتے ہیں۔
عالمی نشریاتی ادارے نے اولاد کی نعمت سے مالامال ہونے والے جوڑے کے جذبات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایاکہ وہ پہلا بے اولاد جوڑا جس نے اولاد کی نعمت حاصل کی وہ ریاض الدین اور بیگم تنظیم ریاض پر مشتمل تھاجنہوں نے گفتگو کے دوران اس بات کی توثیق کی کہ کافی چھان پھٹک کے بعد بچی اُن کے حوالے کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فاطمہ کا حصول ایک نعمت ہے اور ٹی وی اسکرین پر اس بچی کی حوالگی پر انہیں کوئی اعتراض نہیں۔این بی سی نیوز سے گفتگوکرتے ہوئے خوش وخرم جوڑے نے بتایا کہ ہم اپنے جیسے دوسرے بے اولاد بہن بھائیوں کوبھی یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے اور طلاق کی نوبت آنے کے بجائے ایسے بچوں سے اپنی گود بھریں اور اپنی زندگی میں رنگ بھریں جبکہ نوآموز ماں تنظیم ریاض نے کہا کہ 14 برس سے ہم اولاد کی نعمت سے محروم تھے اور اس بچی نے ہماری زندگی کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔
رمضان چھیپا جوروزانہ ہی اس نشریات کا حصہ بنتے تھے،اُن کا کہنا ہے کہ ہم لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی مہم چلا رہے ہیں اور اپیل کر رہے ہیں کہ بچوں کو قتل کرنے کے بجائے ہمارے رضا کاروں کے حوالے کریں۔این بی سی نیوز نے اپنی خصوصی رپورٹ کے اختتام پرڈاکٹرعامرلیاقت حسین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ ماہ رمضان اختتام پذیر ہوا، عامر لیاقت حسین نے دیگر تمام مدمقابل کو بہت پیچھے چھوڑتے ہوئے زبردست ریٹنگ حاصل کی اور کئی ریکارڈز توڑتے ہوئے نئے سنگ میل عبور کیے۔ بلاشبہ حالیہ ماہ رمضان میں کروڑوں ناظرین نے ان کی پیش کردہ نشریات کو دیکھا جو کہ ان کے چینل جیو ٹیلی ویژن کے لیے بھی ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔
Last edited by a moderator: