Arslan
Moderator
امریکی ڈرون حملوں کا تو پتہ نہیں مگر کم از کم بھارت آئندہ 6 ستمبر والے دن پاکستان پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کرے گا کیونکہ صرف اسی دن ہی پاکستانی قوم جذبہ دفاع سے ایسے سرشار ہوتی ہے کہ نہ پوچھیں۔ اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر بیانات‘ تقریروں‘ تصاویروں ‘ خصوصی اشتہارات اور تقریبات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں۔ یہ وہ دن ہے کہ جب دفاعی ناقدین بھی احتراماً اپنی چونچیں بند رکھتے ہیں کہ کہیں غداری کے الزام میں گردن نہ مروڑی جائے۔ اسی لئے یہ کالم بھی دو دن بعد حاضر ہے۔
فاخر قومیں شرمندہ ہونا خوب جانتی ہیں اور فاتح قومیں اپنی ماضی کی شکست سے سیکھتی ہیں۔ پاکستانیوں کو بھی ملکی دفاع کیلئے جان قربان کرنے والے شہیدوں پر فخر ہے اور ان کی داستانیں آئندہ نسلوں تک پہنچانا ہمارا فرض ۔ سال میں کتنے ہی دن ایسے ہوتے ہیں جب ہم اپنی فتوحات اور کامیابیوں کا جشن مناتے ہیں مگر کیا ہماری قوم میں ماضی کی شکست ‘ ناکامیوں اور نالائقیوں کا با مقصد تجزیہ کرنے اور اس کے ذریعے سبق سیکھنے کی جرات ہے ؟ کیا ہم جزا کے لڈو بانٹتے وقت سزا کی کڑوی گولی کھا سکتے ہیں؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بظاہر ہم تلخ ماضی سے کچھ سیکھنا نہیں چاہتے ۔ ہمارے تمام قومی دن با مقصد تحقیق اور مباحثے کی بجائے محض اخباری تصاویر اور ٹی وی کیمروں کے لئے ترتیب دئیے جاتے ہیں۔ سرکاری ملازمین اور طلباء ان قومی دنوں کا محض چھٹی کے لئے انتظار کرتے ہیں، کچھ ادارے تو عوامی ٹیکس کے پیسے سے بڑے بڑے اشتہارات اور خصوصی ضمیمے بھی چھپوانے سے گریز نہیں کرتے جن میں اعلیٰ شخصیات کے وہ با تصویر پیغامات چھپے ہوتے ہیں جو شاید انہوں نے خود بھی نہیں پڑھے ہوتے۔ کسی بھی نظام کے کھوکھلے پن کی اس سے بڑی کیا مثال ہو گی کہ وہ نظام با مقصد بحث اور تجزیوں کی بجائے عوام کو آئینے میں میک اپ زدہ چہرہ دکھا کر ان سے تالیاں بجوائے۔
ہماری سیاسی جماعتیں بھی اپنے قومی دنوں کو عوامی سطح پرمنانے میں ناکام ہیں۔ عوام سے رابطے میں فقدان اور گلی محلے کی سطح پر عدم تنظیم کے باعث یہ جماعتیں اور سیاسی قائدین بھی ڈرائینگ روموں میں بیٹھ کر سرخی پاؤڈر تقریبات میں قومی دن مناتے ہیں۔ ’’ایک جیپ اور دو ٹرکوں‘‘ سے ڈرے ہوئے یہ سیاسی قائدین اپنے پارٹی کے دفاتر میں کیک کاٹ کر تقریب کرتے ہیں۔
نواز شریف صاحب نے بھی ’’یوم دفاع‘‘ کے موقع پر ’’یوم تکبیر‘‘ کی یاد تازہ کرنے کے لئے ایٹمی ہتھیاروں کی نگران اتھارٹی کے اجلاس کی صدارت کی۔ نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے اجلاس کی تقاریر اور تصاویر تو چھپوائی گئی مگر کون نہیں جانتا کہ اس معاملے میں بھی دوسرے معاملات کی طرح کمانڈ اور اتھارٹی کس کی چلتی ہے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری جو افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر بھی ہیں ان کی الوداعی گارڈ آف آنر میں افواج کے سربراہان کی عدم موجودگی ہماری دفاعی کمانڈ کی ’’حرمت‘‘ کا پتہ دیتی ہے۔ ویسے بھی ہماری دفاعی کمانڈ کی زنجیر‘ یعنی ’’چین آف کمانڈ‘‘ کی وقعت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ حکومت یوم دفاع پر پھلجڑیاں ضرور چھوڑے مگر قوم کو یہ بھی بتائے کہ ہماری سر کٹی وزارت دفاع کا کیا کردار رہ گیا ہے اور ملک کا وزیر دفاع کدھر ہے ؟ اگر وزیراعظم وزیر دفاع ہونے کابھی حق رکھتا ہے تو پھر آرمی چیف کو چیف ایگزیکٹو کا عہدہ سنبھالنے کی مخالفت کس اخلاقی دلیل کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔ اگر ایک منتخب حکومت کو کل وقتی اور با اختیار وزیر دفاع تعینات کرنے کی ہمت نہیں پڑتی تو پھر یوم دفاع پر دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے پیغامات کیسے ؟ کاش ہماری حکومتیں بغیر تقاریر و تصاویر کے بھی کوئی سنجیدہ کام کر لیں۔
خودپسندی اور خودنمائی کا مرض ہمارے دفاعی اداروں میں بھی سرایت کرتا جا رہا ہے۔ جس کا علاج اب سی ایم ایچ میں بھی نہیں رہا۔ معمول کی فوجی مشقوں اور فوجی کمانڈروں کے دفاعی مورچوں کے دورے کی تصاویر اور تقاریر بھی ایسے شائع کی جارہی ہیں کہ جیسے ان کمانڈروں کی آئندہ ترقی کا فیصلہ عوامی ووٹ سے ہو گا۔ تینوں افواج کے مابین اپنی اپنی مشتہری ایک قومی کھیل کے مقابلے کی مانند تیز ہوتی جا رہی ہے۔ یوں تو تینوں افواج کا ترجمان محکمہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز یعنی آئی ایس پی آر ہے مگر فضائیہ اور بحریہ نے اس کام کے لئے علیحدہ علیحدہ محکمے بنا رکھے ہیں اور وزارت دفاع ان تمام محکموں سے جاری ہونے والے بیانات و تصاویر سے متعلق غافل ہوتی ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں آئی ایس پی آر نے تو ’’کیری لوگر بل‘‘ پر حکومتی پالیسی کے برخلاف ایک بیان جاری کیا جو فوج کے کور کمانڈروں کے ایک اجلاس میں طے پایا تھا۔ فضائیہ اور بحریہ نے اس بیان پر رائے دینے سے گریز کیا تھا۔ کیا نواز شریف حکومت آزاد عدلیہ کے ساتھ آزاد فوج کے نظریے کو بھی تسلیم کریگی اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنگ کے دنوں میں افواج پاکستان کی باوردی کمانڈ کس کے پاس ہو گی؟
بات ہو رہی تھی معمول کی فوجی مشقوں کی۔ تو جناب جنگ کی ٹیکنالوجی کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم ابھی بھی زمینی جنگ اور ٹینکوں کے حملوں کی مشقیں کرتے ہیں اور ان کی میڈیا میں تشہیر کر کے دشمن پر نہیں تو اپنے عوام پر رعب ضرور ڈال لیتے ہیں۔ یقیناً یہ رعب اور احترام عوام کے لئے غیر مناسب نہیں مگر پھرخودنمائی کے ساتھ ساتھ خود احتسابی بھی عوام کے دل میں اداروں کا رعب اور احترام پیدا کرتی ہے اگر ہم اپنے شہیدوں اور قومی ہیروز سے حقیقی اور غیر اخباری محبت کرتے ہیں تو اپنے ملک اور آئین سے غداری کرنے والوں کو عبرت کا نشان بھی بنانا ہو گا۔ سقوط ڈھاکہ‘ کارگل اور ایبٹ آباد میں امریکی حملے کو روکنے میں ناکامی کے ذمے دار حکام کو کٹہرے میں بھی لانا ہو گا۔ پاکستانی قوم اپنے شہیدوں کی قبروں پر اشک بہاتی ہے‘ پھول رکھتی ہے‘ انہیں دعائیں دیتی ہے اور اپنے غازیوں کے سینوں پر تمغے سجاتی ہے تو کیا یہ قوم دفاع سے غافل افراد کے سینوں پر لگے تمغے چھین نہیں سکتی ؟ اگر نہیں تو پھر قومی دنوں کے نام پر چھٹیاں منانے کا یہ ڈرامہ بند ہونا چاہئے۔ ہر سال ’’تانبے کے ٹکڑوں‘‘ کی تقسیم روکنا ہوگی۔ ان اعزازات اور تمغوں کی حرمت کا تقاضا ہے کہ ان کی بے حرمتی کرنے والوں کا احتساب کیا جائے نہیں تو پھر ڈھول دھمکے جاری رکھیں۔ فدوی عظیم آبادی نے کہا
:…؎
عاشق کا جنازہ ہے بڑی دھوم سے نکلے ۔۔۔ محبوب کی گلیوں سے ذرا جھوم کے نکلے
اسی جذبے کے تحت ’’تعلقات عامہ‘‘ کا شعبہ بھی جھوٹ اور پراپیگنڈہ کا دوسرا نام بن چکا ہے۔ جنگ اور محبت میں تو یہ سب جائز ہے مگر یاد رہے کہ یہ جنگ دشمن کے خلاف لڑی جاتی ہے اپنے عوام کو زمانہ امن میں گمراہ کرنا کوئی سیاسی یا عسکری حکمت عملی کا جواز نہیں۔ ہم دشمنوں پر تو نہیں اپنے عوا م پر ہی رعب ڈال رہے ہیں۔
آئینے کو شفاف رکھنا اچھی بات ہے مگر منہ دھلا نہیں ہو گا تو آئینے کو غدار قرار دے کر توڑ دینا بری بات‘ ویسے بھی آئینہ جتنا دھوئیں گے چہرے کے داغ اتنے واضح ہوں گے۔ اپنے عکس سے لڑائی نہیں کی جاسکتی۔ خودکو بدلنا ہو گا۔ تعلقات عامہ کے ماہرین سے معذرت کے ساتھ اس پنجابی شعر پر بات ختم کرتا ہوں
:
شیشہ دھوویں‘ منہ نہ دھوویں‘ دھوویں کپڑے جُتے ۔۔۔ بوٹی کھاون‘ رولا پاون چودھریاں دے کتے
source
فاخر قومیں شرمندہ ہونا خوب جانتی ہیں اور فاتح قومیں اپنی ماضی کی شکست سے سیکھتی ہیں۔ پاکستانیوں کو بھی ملکی دفاع کیلئے جان قربان کرنے والے شہیدوں پر فخر ہے اور ان کی داستانیں آئندہ نسلوں تک پہنچانا ہمارا فرض ۔ سال میں کتنے ہی دن ایسے ہوتے ہیں جب ہم اپنی فتوحات اور کامیابیوں کا جشن مناتے ہیں مگر کیا ہماری قوم میں ماضی کی شکست ‘ ناکامیوں اور نالائقیوں کا با مقصد تجزیہ کرنے اور اس کے ذریعے سبق سیکھنے کی جرات ہے ؟ کیا ہم جزا کے لڈو بانٹتے وقت سزا کی کڑوی گولی کھا سکتے ہیں؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بظاہر ہم تلخ ماضی سے کچھ سیکھنا نہیں چاہتے ۔ ہمارے تمام قومی دن با مقصد تحقیق اور مباحثے کی بجائے محض اخباری تصاویر اور ٹی وی کیمروں کے لئے ترتیب دئیے جاتے ہیں۔ سرکاری ملازمین اور طلباء ان قومی دنوں کا محض چھٹی کے لئے انتظار کرتے ہیں، کچھ ادارے تو عوامی ٹیکس کے پیسے سے بڑے بڑے اشتہارات اور خصوصی ضمیمے بھی چھپوانے سے گریز نہیں کرتے جن میں اعلیٰ شخصیات کے وہ با تصویر پیغامات چھپے ہوتے ہیں جو شاید انہوں نے خود بھی نہیں پڑھے ہوتے۔ کسی بھی نظام کے کھوکھلے پن کی اس سے بڑی کیا مثال ہو گی کہ وہ نظام با مقصد بحث اور تجزیوں کی بجائے عوام کو آئینے میں میک اپ زدہ چہرہ دکھا کر ان سے تالیاں بجوائے۔
ہماری سیاسی جماعتیں بھی اپنے قومی دنوں کو عوامی سطح پرمنانے میں ناکام ہیں۔ عوام سے رابطے میں فقدان اور گلی محلے کی سطح پر عدم تنظیم کے باعث یہ جماعتیں اور سیاسی قائدین بھی ڈرائینگ روموں میں بیٹھ کر سرخی پاؤڈر تقریبات میں قومی دن مناتے ہیں۔ ’’ایک جیپ اور دو ٹرکوں‘‘ سے ڈرے ہوئے یہ سیاسی قائدین اپنے پارٹی کے دفاتر میں کیک کاٹ کر تقریب کرتے ہیں۔
نواز شریف صاحب نے بھی ’’یوم دفاع‘‘ کے موقع پر ’’یوم تکبیر‘‘ کی یاد تازہ کرنے کے لئے ایٹمی ہتھیاروں کی نگران اتھارٹی کے اجلاس کی صدارت کی۔ نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے اجلاس کی تقاریر اور تصاویر تو چھپوائی گئی مگر کون نہیں جانتا کہ اس معاملے میں بھی دوسرے معاملات کی طرح کمانڈ اور اتھارٹی کس کی چلتی ہے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری جو افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر بھی ہیں ان کی الوداعی گارڈ آف آنر میں افواج کے سربراہان کی عدم موجودگی ہماری دفاعی کمانڈ کی ’’حرمت‘‘ کا پتہ دیتی ہے۔ ویسے بھی ہماری دفاعی کمانڈ کی زنجیر‘ یعنی ’’چین آف کمانڈ‘‘ کی وقعت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ حکومت یوم دفاع پر پھلجڑیاں ضرور چھوڑے مگر قوم کو یہ بھی بتائے کہ ہماری سر کٹی وزارت دفاع کا کیا کردار رہ گیا ہے اور ملک کا وزیر دفاع کدھر ہے ؟ اگر وزیراعظم وزیر دفاع ہونے کابھی حق رکھتا ہے تو پھر آرمی چیف کو چیف ایگزیکٹو کا عہدہ سنبھالنے کی مخالفت کس اخلاقی دلیل کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔ اگر ایک منتخب حکومت کو کل وقتی اور با اختیار وزیر دفاع تعینات کرنے کی ہمت نہیں پڑتی تو پھر یوم دفاع پر دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے پیغامات کیسے ؟ کاش ہماری حکومتیں بغیر تقاریر و تصاویر کے بھی کوئی سنجیدہ کام کر لیں۔
خودپسندی اور خودنمائی کا مرض ہمارے دفاعی اداروں میں بھی سرایت کرتا جا رہا ہے۔ جس کا علاج اب سی ایم ایچ میں بھی نہیں رہا۔ معمول کی فوجی مشقوں اور فوجی کمانڈروں کے دفاعی مورچوں کے دورے کی تصاویر اور تقاریر بھی ایسے شائع کی جارہی ہیں کہ جیسے ان کمانڈروں کی آئندہ ترقی کا فیصلہ عوامی ووٹ سے ہو گا۔ تینوں افواج کے مابین اپنی اپنی مشتہری ایک قومی کھیل کے مقابلے کی مانند تیز ہوتی جا رہی ہے۔ یوں تو تینوں افواج کا ترجمان محکمہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز یعنی آئی ایس پی آر ہے مگر فضائیہ اور بحریہ نے اس کام کے لئے علیحدہ علیحدہ محکمے بنا رکھے ہیں اور وزارت دفاع ان تمام محکموں سے جاری ہونے والے بیانات و تصاویر سے متعلق غافل ہوتی ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں آئی ایس پی آر نے تو ’’کیری لوگر بل‘‘ پر حکومتی پالیسی کے برخلاف ایک بیان جاری کیا جو فوج کے کور کمانڈروں کے ایک اجلاس میں طے پایا تھا۔ فضائیہ اور بحریہ نے اس بیان پر رائے دینے سے گریز کیا تھا۔ کیا نواز شریف حکومت آزاد عدلیہ کے ساتھ آزاد فوج کے نظریے کو بھی تسلیم کریگی اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنگ کے دنوں میں افواج پاکستان کی باوردی کمانڈ کس کے پاس ہو گی؟
بات ہو رہی تھی معمول کی فوجی مشقوں کی۔ تو جناب جنگ کی ٹیکنالوجی کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم ابھی بھی زمینی جنگ اور ٹینکوں کے حملوں کی مشقیں کرتے ہیں اور ان کی میڈیا میں تشہیر کر کے دشمن پر نہیں تو اپنے عوام پر رعب ضرور ڈال لیتے ہیں۔ یقیناً یہ رعب اور احترام عوام کے لئے غیر مناسب نہیں مگر پھرخودنمائی کے ساتھ ساتھ خود احتسابی بھی عوام کے دل میں اداروں کا رعب اور احترام پیدا کرتی ہے اگر ہم اپنے شہیدوں اور قومی ہیروز سے حقیقی اور غیر اخباری محبت کرتے ہیں تو اپنے ملک اور آئین سے غداری کرنے والوں کو عبرت کا نشان بھی بنانا ہو گا۔ سقوط ڈھاکہ‘ کارگل اور ایبٹ آباد میں امریکی حملے کو روکنے میں ناکامی کے ذمے دار حکام کو کٹہرے میں بھی لانا ہو گا۔ پاکستانی قوم اپنے شہیدوں کی قبروں پر اشک بہاتی ہے‘ پھول رکھتی ہے‘ انہیں دعائیں دیتی ہے اور اپنے غازیوں کے سینوں پر تمغے سجاتی ہے تو کیا یہ قوم دفاع سے غافل افراد کے سینوں پر لگے تمغے چھین نہیں سکتی ؟ اگر نہیں تو پھر قومی دنوں کے نام پر چھٹیاں منانے کا یہ ڈرامہ بند ہونا چاہئے۔ ہر سال ’’تانبے کے ٹکڑوں‘‘ کی تقسیم روکنا ہوگی۔ ان اعزازات اور تمغوں کی حرمت کا تقاضا ہے کہ ان کی بے حرمتی کرنے والوں کا احتساب کیا جائے نہیں تو پھر ڈھول دھمکے جاری رکھیں۔ فدوی عظیم آبادی نے کہا
:…؎
عاشق کا جنازہ ہے بڑی دھوم سے نکلے ۔۔۔ محبوب کی گلیوں سے ذرا جھوم کے نکلے
اسی جذبے کے تحت ’’تعلقات عامہ‘‘ کا شعبہ بھی جھوٹ اور پراپیگنڈہ کا دوسرا نام بن چکا ہے۔ جنگ اور محبت میں تو یہ سب جائز ہے مگر یاد رہے کہ یہ جنگ دشمن کے خلاف لڑی جاتی ہے اپنے عوام کو زمانہ امن میں گمراہ کرنا کوئی سیاسی یا عسکری حکمت عملی کا جواز نہیں۔ ہم دشمنوں پر تو نہیں اپنے عوا م پر ہی رعب ڈال رہے ہیں۔
آئینے کو شفاف رکھنا اچھی بات ہے مگر منہ دھلا نہیں ہو گا تو آئینے کو غدار قرار دے کر توڑ دینا بری بات‘ ویسے بھی آئینہ جتنا دھوئیں گے چہرے کے داغ اتنے واضح ہوں گے۔ اپنے عکس سے لڑائی نہیں کی جاسکتی۔ خودکو بدلنا ہو گا۔ تعلقات عامہ کے ماہرین سے معذرت کے ساتھ اس پنجابی شعر پر بات ختم کرتا ہوں
:
شیشہ دھوویں‘ منہ نہ دھوویں‘ دھوویں کپڑے جُتے ۔۔۔ بوٹی کھاون‘ رولا پاون چودھریاں دے کتے
source
Last edited by a moderator: