اے میرے رب! آج تو کرم فرما اور ہمیں ایک بھائی عطا فرما اور اگر ایسا ممکن نہیں تو ایک اور بہن کی آنکھ کھلنے سے پہلے ہماری آنکھوں کو بند فرما دے
یہ کہنا بہت مشکل تھا کہ گھر میں خوشی کا سماں تھا یا غم کا۔ جس طرح کچی آبادی میں بنے اس مکان کی اپنی کوئی شناخت نہیں تھی بالکل اسی طرح گھر میں موجود چاروں بیٹیوں کی بھی ان کے باپ کی نظر میں کوئی شناخت نہیں تھی۔
دو دو سال کے فرق سے پیدا ہونے والی حرا، ماریہ، ذکیہ اور انیلا صحن میں لگے پیپل کے درخت کی نیچے بچھی بوسیدہ سی چادر پہ بیٹھی اپنے نرم و نازک ہاتھوں کو اٹھائے اس وقت سے دعا گو تھی جس وقت سے شہزاد محلے کی دائی نسیمہ کو بلا کر لایا تھا۔ اپنے نخوت بھرے چہرے کے ساتھ ٹوٹی ہوئی کرسی پر نیم دراز شہزاد اپنی بیٹیوں کے سر پر کچھ اس طرح نازل تھا جس طرح محلے کی مسجد میں ایک قاری بچوں کے سروں پر نازل رہتا ہے اور وہ بچے اس قاری کے ڈر سے محبت کرنے والے اللہ کو یاد کررہے ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح چاروں بیٹیاں بھی اپنے باپ کے ڈر سے اپنے رب کے حضور دعا گو تھیں۔
’’اے میرے رب! ماں کہتی ہے کہ بیٹی تو رحمت ہوتی ہے، اللہ نے اپنے محبوب نبی (صلی اللہ علیہ وآل وسلم) کو بھی بیٹیوں سے نوازا تھا۔ لیکن میرے رب! کیا رحمت کے ساتھ بھی ایسا سلوک کیا جاتا ہے؟ ایسی کون سی گالی ہے جو میرے کانوں نے نہ سنی ہو، شاید ہی جسم کا کوئی حصہ ہو جس پر نشان نہ ہو، جب سے ہوش سنبھالا ہے کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب ماں کو باپ نے مارا نہ ہو جیسے کہ بیٹیاں پیدا کرنا ماں کے اختیار میں ہے۔
اے میرے رب! آج تو کرم فرما اور ہمیں ایک بھائی عطا فرما اور اگر ایسا ممکن نہیں تو ایک اور بہن کی آنکھ کھلنے سے پہلے ہماری آنکھوں کو بند فرما دے۔
اے اللہ! بھائی دے دے، بھائی دے دے۔ ‘‘
نو سالہ حرا نہ جانے کتنی دیر تک آخری جملہ دہراتی رہی کہ دائی نسیمہ کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ اس کو اپنے کانوں پہ یقین ہی نہ آیا، ایک لمحے کے لیے وہ تو کیا اس وقت صحن میں موجود تینوں بہنیں اور اس کے باپ شہزاد کو بھی دائی نسیمہ کے لفظوں پر یقین ہی نہ آیا۔ حرا کو اس وقت ہوش آیا جب باپ کی پھینکی ہوئی کرسی اس کے چہرے پر لگی۔ تینوں چھوٹی بہنیں ڈر کے مارے حرا کے پیچھے چھپ گئیں۔ وہ تو شکر ہے کہ دائی نسیمہ موجود تھیں ورنہ شہزاد کا بس چلتا تو نومولود بیٹی اور اپنی بیوی سکینہ کو جان سے مار ڈالتا۔ بالآخر مغلظات بکتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔
عالیہ کو پیدا ہوئے آج بارہواں دن تھا لیکن شہزاد نے نہ اس کا چہرہ دیکھنا تو دور کی بات، گھر آنا بھی گوارا نہ کیا۔ بارہویں دن سکینہ ہمت کرکے مالکن کے گھر پہنچی تاکہ روٹی کا کچھ بندوبست ہوسکے۔ مالکن، سکینہ اور نومولود عالیہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور جب تک سکینہ کام کرتی رہی، مالکن سکینہ کو گود میں لیے اس کے ساتھ دل بہلاتی رہیں کیونکہ پندرہ سال گزرنے کے بعد بھی وہ اولاد جیسی نعمت سے محروم تھیں۔ جاتے وقت مالکن نے کچھ پیسے اور ضرورت کا سامان سکینہ کے حوالے کردیا۔ گھر واپس آتے آتے سکینہ فیصلہ کر چکی تھی اور گھر واپسی پر اپنا فیصلہ حرا کو بتایا تو پہلے تو وہ نہ مانی مگر پھر ماں کی بات ماننے میں ہی خیر سمجھی لیکن دونوں ماں بیٹیاں رات کا انتظار کرنے لگیں۔
اگلے دن سکینہ اپنی بیٹی حرا کے ساتھ تیز تیز قدموں کے ساتھ مالکن کے گھر کی جانب گامزن تھی۔ کام کے دوران سکینہ کی نظریں مسلسل کچھ تلاش کرتی رہیں۔ اتنی دیر میں مالکن کی ایک دوست آگئی اور سکینہ ان کو ڈرائنگ روم میں بٹھا کر خود ان کے لیے چائے بنانے میں مشغول ہو گئی۔ جیسے ہی سکینہ چائے لے کر ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو مالکن اپنی دوست سے مخاطب تھی۔
ان الفاط کا سننا تھا کہ سکینہ وہی پر ڈھیر ہوگئی اور معصوم سی حرا اس سوچ میں گم ہوگئی کہ ظالم کون؟
Source
یہ کہنا بہت مشکل تھا کہ گھر میں خوشی کا سماں تھا یا غم کا۔ جس طرح کچی آبادی میں بنے اس مکان کی اپنی کوئی شناخت نہیں تھی بالکل اسی طرح گھر میں موجود چاروں بیٹیوں کی بھی ان کے باپ کی نظر میں کوئی شناخت نہیں تھی۔
دو دو سال کے فرق سے پیدا ہونے والی حرا، ماریہ، ذکیہ اور انیلا صحن میں لگے پیپل کے درخت کی نیچے بچھی بوسیدہ سی چادر پہ بیٹھی اپنے نرم و نازک ہاتھوں کو اٹھائے اس وقت سے دعا گو تھی جس وقت سے شہزاد محلے کی دائی نسیمہ کو بلا کر لایا تھا۔ اپنے نخوت بھرے چہرے کے ساتھ ٹوٹی ہوئی کرسی پر نیم دراز شہزاد اپنی بیٹیوں کے سر پر کچھ اس طرح نازل تھا جس طرح محلے کی مسجد میں ایک قاری بچوں کے سروں پر نازل رہتا ہے اور وہ بچے اس قاری کے ڈر سے محبت کرنے والے اللہ کو یاد کررہے ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح چاروں بیٹیاں بھی اپنے باپ کے ڈر سے اپنے رب کے حضور دعا گو تھیں۔
’’اے میرے رب! ماں کہتی ہے کہ بیٹی تو رحمت ہوتی ہے، اللہ نے اپنے محبوب نبی (صلی اللہ علیہ وآل وسلم) کو بھی بیٹیوں سے نوازا تھا۔ لیکن میرے رب! کیا رحمت کے ساتھ بھی ایسا سلوک کیا جاتا ہے؟ ایسی کون سی گالی ہے جو میرے کانوں نے نہ سنی ہو، شاید ہی جسم کا کوئی حصہ ہو جس پر نشان نہ ہو، جب سے ہوش سنبھالا ہے کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب ماں کو باپ نے مارا نہ ہو جیسے کہ بیٹیاں پیدا کرنا ماں کے اختیار میں ہے۔
اے میرے رب! آج تو کرم فرما اور ہمیں ایک بھائی عطا فرما اور اگر ایسا ممکن نہیں تو ایک اور بہن کی آنکھ کھلنے سے پہلے ہماری آنکھوں کو بند فرما دے۔
اے اللہ! بھائی دے دے، بھائی دے دے۔ ‘‘
نو سالہ حرا نہ جانے کتنی دیر تک آخری جملہ دہراتی رہی کہ دائی نسیمہ کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ اس کو اپنے کانوں پہ یقین ہی نہ آیا، ایک لمحے کے لیے وہ تو کیا اس وقت صحن میں موجود تینوں بہنیں اور اس کے باپ شہزاد کو بھی دائی نسیمہ کے لفظوں پر یقین ہی نہ آیا۔ حرا کو اس وقت ہوش آیا جب باپ کی پھینکی ہوئی کرسی اس کے چہرے پر لگی۔ تینوں چھوٹی بہنیں ڈر کے مارے حرا کے پیچھے چھپ گئیں۔ وہ تو شکر ہے کہ دائی نسیمہ موجود تھیں ورنہ شہزاد کا بس چلتا تو نومولود بیٹی اور اپنی بیوی سکینہ کو جان سے مار ڈالتا۔ بالآخر مغلظات بکتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔
عالیہ کو پیدا ہوئے آج بارہواں دن تھا لیکن شہزاد نے نہ اس کا چہرہ دیکھنا تو دور کی بات، گھر آنا بھی گوارا نہ کیا۔ بارہویں دن سکینہ ہمت کرکے مالکن کے گھر پہنچی تاکہ روٹی کا کچھ بندوبست ہوسکے۔ مالکن، سکینہ اور نومولود عالیہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور جب تک سکینہ کام کرتی رہی، مالکن سکینہ کو گود میں لیے اس کے ساتھ دل بہلاتی رہیں کیونکہ پندرہ سال گزرنے کے بعد بھی وہ اولاد جیسی نعمت سے محروم تھیں۔ جاتے وقت مالکن نے کچھ پیسے اور ضرورت کا سامان سکینہ کے حوالے کردیا۔ گھر واپس آتے آتے سکینہ فیصلہ کر چکی تھی اور گھر واپسی پر اپنا فیصلہ حرا کو بتایا تو پہلے تو وہ نہ مانی مگر پھر ماں کی بات ماننے میں ہی خیر سمجھی لیکن دونوں ماں بیٹیاں رات کا انتظار کرنے لگیں۔
اگلے دن سکینہ اپنی بیٹی حرا کے ساتھ تیز تیز قدموں کے ساتھ مالکن کے گھر کی جانب گامزن تھی۔ کام کے دوران سکینہ کی نظریں مسلسل کچھ تلاش کرتی رہیں۔ اتنی دیر میں مالکن کی ایک دوست آگئی اور سکینہ ان کو ڈرائنگ روم میں بٹھا کر خود ان کے لیے چائے بنانے میں مشغول ہو گئی۔ جیسے ہی سکینہ چائے لے کر ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو مالکن اپنی دوست سے مخاطب تھی۔
’’لوگ کتنے ظالم ہوگئے ہیں، کل رات کوئی اپنی بیٹی کو گھر کے دروازے کے باہر چھوڑ گیا اور علاقے کے آوارہ کتوں نے اس معصوم کو چیر پھاڑ دیا۔ ‘‘
ان الفاط کا سننا تھا کہ سکینہ وہی پر ڈھیر ہوگئی اور معصوم سی حرا اس سوچ میں گم ہوگئی کہ ظالم کون؟
Source