عرصہ پہلے کہیں پڑھا تھا کہ زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسا وقت آتا ہے جب اللہ آپ کو ہر رشتے ہر تعلق کی اصلیت دکھا کر پوچھتا ہے کہ بتا اب کون ہے تیرا میرے سوا۔ مجھے خوف آتا ہے یہ سوچتے کہ یہ وقت عمران خان کا اور بحیثیتِ قوم ہمارا وہی وقت نہ ہو۔ مگر اس بات کی تسلی بھی ہے کہ اللہ ہے۔
میں نہیں جانتا کسی نے کسی کو دھوکہ دیا یا کسی کے ساتھ دھوکہ ہوا۔ وقت سارے راز کھول دے گا۔ میں جنہیں بہت اچھے سے جانتا تھا وقت بدلنے پر ان میں سے بہت سے، بہت انجان نکلے۔۔ نیتوں کے حال فقط ایک اللہ جانتا ہے، میں کسی کے حق میں ایسا دعوی نہیں کرسکتا۔ ہاں اتنے عرصے کی رفاقت کی بنیاد پر اپنے لیڈر کے متعلق اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ نہ اس نے کبھی اس قوم کا سودا کیا ہے نہ کرے گا۔ وہ اپنے مجرم معاف کردے گا اپنی قوم کے مجرموں کو معاف کرنے والا ہوتا تو آج کال کوٹھری میں نہیں مسند پر ہوتا۔
۴ اکتوبر کے احتجاج سے قبل بھی خان صاحب سے میدان میں اترنے کی اجازت چاہی جواباً یہی معلوم ہوا کہ آپ کے حوالے سے احکامات میں کوئی ردوبدل نہیں ہے۔ مجھے سیاست میراث میں نہیں ملی، میری سیاسی بقا اپنے لوگوں کے درمیان رہنے میں ہے ان کے ساتھ کھڑے رہنے میں ہے، یہ بھی میرا ایمان ہے کہ زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، میری قوم گواہ ہے، خود کو لاحق واضح خطرات کے باجود امن مارچ، جلسوں، عمران خان کی عدالتی پیشیوں، بنی گالہ اور زمان پارک کے کیمپوں میں حاضر رہا ہوں۔ مگر اب جو حکم ہے سو ہے۔ میں اس حکم کی مصلحت سے واقف نہیں نہ ہی میں خود کو اس تحریک کے لیے لازم و ملزوم سمجھتا ہوں۔ مگر ڈسپلن میرے لیڈر سے میری وفاداری کا تقاضہ ہے۔ مجھے جتنا بھی ناگوار ہے، لاکھ جبر سہی مگر میں اپنے عہدِ وفا کا پابند ہوں۔
اسی طرح ایک اور پابندی میں نے خود پر خود لگا رکھی ہے، پارٹی کے اندرونی معاملات پر پبلک فارمز پر بات نہ کرنے کی مگر میرا اپنی قوم سے وعدہ ہے میرا کوئی بھی اصول، کسی بھی شخص سے تعلق آپ سے اور عمران خان سے میرے تعلق سے بڑھ کر نہیں ہے۔ مجھ سے منصوب ہر شخص اس بات پر گواہ ہے کہ عمران خان کا نظریہ اور اس کی قوم میری زندگی میں ہر رشتے سے مقدم ہے۔ جس دن مجھے یہ یقین ہوگیا کہ پارٹی قیادت نے عمران خان سے غداری کی ہے آپ مجھے ہر لحاظ ہر مروت سے آزاد پائیں گے مگر اُس دن تک مجھے اور آپ کو اپنا ذہن تمام امکانات کے لیے کھلا رکھنا ہے۔ بدگمانی گھن کیطرح ہوتی ہے۔ اپنی سوچ کو بدگمانی کے سائے سے محفوظ رکھنا ہے۔ اور عین ممکن ہے یہ ہمارے خلاف بطورِ ہتھیار استعمال ہورہی ہو۔ میں جانتا ہوں کہ طے شدہ حکمت عملی اور خان صاحب کی واضح ہدایات پر عملدرآمد نہیں ہوا مگر میں فی الوقت اسے غفلت گردانوں گا۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں ہم میں سے کوئی بھی عمران خان نہیں ہے، ہم عمران خان بننے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کوشش میں ہم کوتاہیوں کے مرتکب ہوں گے، ان کوتاہیوں کی قیمت کا اندازہ رکھتے ہوئے ذمہ داری کا مظاہرہ لازم ہے، مگر یہ بھی اللہ کی ہی اپنے بندوں کو دی تسلی ہے کہ کیا خبر جس چیز کو تم اپنے لیے برا سمجھو وہی تمہارے حق میں بہتر ہو۔۔
یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ہمیں ہر سہارے، ہر بیساکھی سے آزاد ہوکر، کسی سے اپنی امیدیں وابستہ کیے بغیر اپنے بل بوتے پر لڑنا سکھا رہا ہو۔ اور لڑنا تو ہمیں ہے، بہرطور، بہ ہر صورت۔ کیونکہ یہ مسئلہ کسی اور کا نہیں ہمارا ہے۔ یہ ملک کسی اور کا نہیں ہمارا ہے تو پھر کسی سے گلہ شکوہ کیا۔ ہم اس جنگ میں نہ کسی اور کی خاطر اترے تھے نہ کسی اور کے بھروسے۔ ہمارا اور ہمارے لیڈر کا نظریہ اور رہنما صرف اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور اس بنا پر غلامی سے انکار تھا، ہے اور رہے گا۔ یہی لا الہ ہمارا نظریہ اور یہی لا الہ ہماری مشعل راہ۔
میری قیادت سے بھی درخواست ہے آپ کو خان صاحب نے ڈی چوک احتجاج جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ منگل بدھ کو ملک گیر احتجاج کا پلان دے دیا تھا جس کی تحریری کاپی آفیشلی قوم کے ساتھ شئیر کرکے کال دی جائے۔ اس ضمن میں پارٹی عہدیدار متعلقہ تنظیموں، کارکنان منتخب ممبران سے رابطے کریں۔ خان صاحب کی یہ بھی ہدایت تھی کہ سوشل میڈیا پر پیغام احتجاجی تحریک کے لیے جاری ہوں لیکن عہدیدار، تنظیمیں وغیرہ انفرادی طور پر کارکنان، حلقے کے عوام اور ممبران سے رابطہ کریں۔ سو کارکن اور قیادت ہر سطح پر منظم ہوں۔ اپنا لائحہ عمل طے کریں۔ پلان کریں۔ پر امن رہیں، متحد رہیں، گرفتاریوں سے بچیں۔ گراونڈ کے علاوہ بھی سوشل میڈیا پر اپنا فوکس لامعنی بحثوں پر نہیں اپنے مقاصد پر رکھیں۔ عمران خان، بشری بی بی، دیگر قیادت اور کارکنان کی رہائ۔ آئین و قانون کی بالادستی۔ مینڈیٹ کی واپسی کے علاوہ کوئی اور بحث وقت کا زیاں ہے اور وقت اس وقت ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ وفاداری کا تقاضہ قاعدہ (ڈسپلن) ہے۔ جتنا بھی ناگوار ہو، قائم رکھنا ہے۔ کوئی اور رکھے نہ رکھے، آپ نے رکھنا ہے۔ ۹ مئی کے بعد بھی کوئی مرکزی قیادت منظر عام پر نہیں تھی کیا آپ نے ہار مانی تھی؟ پھر آج مایوسی کا سبب کیا ہے؟ کیا آپ کے لیڈر نے آپ سے غداری کی؟ کیا اس نے آپ کی حمیت کا سودا کیا؟ یا آپ کو اس جدوجہد کے علاوہ اپنی نسلوں کے لیے کوئی اور راستہ سجھائی دے گیا ہے؟
میں نہیں جانتا کسی نے کسی کو دھوکہ دیا یا کسی کے ساتھ دھوکہ ہوا۔ وقت سارے راز کھول دے گا۔ میں جنہیں بہت اچھے سے جانتا تھا وقت بدلنے پر ان میں سے بہت سے، بہت انجان نکلے۔۔ نیتوں کے حال فقط ایک اللہ جانتا ہے، میں کسی کے حق میں ایسا دعوی نہیں کرسکتا۔ ہاں اتنے عرصے کی رفاقت کی بنیاد پر اپنے لیڈر کے متعلق اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ نہ اس نے کبھی اس قوم کا سودا کیا ہے نہ کرے گا۔ وہ اپنے مجرم معاف کردے گا اپنی قوم کے مجرموں کو معاف کرنے والا ہوتا تو آج کال کوٹھری میں نہیں مسند پر ہوتا۔
۴ اکتوبر کے احتجاج سے قبل بھی خان صاحب سے میدان میں اترنے کی اجازت چاہی جواباً یہی معلوم ہوا کہ آپ کے حوالے سے احکامات میں کوئی ردوبدل نہیں ہے۔ مجھے سیاست میراث میں نہیں ملی، میری سیاسی بقا اپنے لوگوں کے درمیان رہنے میں ہے ان کے ساتھ کھڑے رہنے میں ہے، یہ بھی میرا ایمان ہے کہ زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، میری قوم گواہ ہے، خود کو لاحق واضح خطرات کے باجود امن مارچ، جلسوں، عمران خان کی عدالتی پیشیوں، بنی گالہ اور زمان پارک کے کیمپوں میں حاضر رہا ہوں۔ مگر اب جو حکم ہے سو ہے۔ میں اس حکم کی مصلحت سے واقف نہیں نہ ہی میں خود کو اس تحریک کے لیے لازم و ملزوم سمجھتا ہوں۔ مگر ڈسپلن میرے لیڈر سے میری وفاداری کا تقاضہ ہے۔ مجھے جتنا بھی ناگوار ہے، لاکھ جبر سہی مگر میں اپنے عہدِ وفا کا پابند ہوں۔
اسی طرح ایک اور پابندی میں نے خود پر خود لگا رکھی ہے، پارٹی کے اندرونی معاملات پر پبلک فارمز پر بات نہ کرنے کی مگر میرا اپنی قوم سے وعدہ ہے میرا کوئی بھی اصول، کسی بھی شخص سے تعلق آپ سے اور عمران خان سے میرے تعلق سے بڑھ کر نہیں ہے۔ مجھ سے منصوب ہر شخص اس بات پر گواہ ہے کہ عمران خان کا نظریہ اور اس کی قوم میری زندگی میں ہر رشتے سے مقدم ہے۔ جس دن مجھے یہ یقین ہوگیا کہ پارٹی قیادت نے عمران خان سے غداری کی ہے آپ مجھے ہر لحاظ ہر مروت سے آزاد پائیں گے مگر اُس دن تک مجھے اور آپ کو اپنا ذہن تمام امکانات کے لیے کھلا رکھنا ہے۔ بدگمانی گھن کیطرح ہوتی ہے۔ اپنی سوچ کو بدگمانی کے سائے سے محفوظ رکھنا ہے۔ اور عین ممکن ہے یہ ہمارے خلاف بطورِ ہتھیار استعمال ہورہی ہو۔ میں جانتا ہوں کہ طے شدہ حکمت عملی اور خان صاحب کی واضح ہدایات پر عملدرآمد نہیں ہوا مگر میں فی الوقت اسے غفلت گردانوں گا۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں ہم میں سے کوئی بھی عمران خان نہیں ہے، ہم عمران خان بننے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کوشش میں ہم کوتاہیوں کے مرتکب ہوں گے، ان کوتاہیوں کی قیمت کا اندازہ رکھتے ہوئے ذمہ داری کا مظاہرہ لازم ہے، مگر یہ بھی اللہ کی ہی اپنے بندوں کو دی تسلی ہے کہ کیا خبر جس چیز کو تم اپنے لیے برا سمجھو وہی تمہارے حق میں بہتر ہو۔۔
یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ہمیں ہر سہارے، ہر بیساکھی سے آزاد ہوکر، کسی سے اپنی امیدیں وابستہ کیے بغیر اپنے بل بوتے پر لڑنا سکھا رہا ہو۔ اور لڑنا تو ہمیں ہے، بہرطور، بہ ہر صورت۔ کیونکہ یہ مسئلہ کسی اور کا نہیں ہمارا ہے۔ یہ ملک کسی اور کا نہیں ہمارا ہے تو پھر کسی سے گلہ شکوہ کیا۔ ہم اس جنگ میں نہ کسی اور کی خاطر اترے تھے نہ کسی اور کے بھروسے۔ ہمارا اور ہمارے لیڈر کا نظریہ اور رہنما صرف اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور اس بنا پر غلامی سے انکار تھا، ہے اور رہے گا۔ یہی لا الہ ہمارا نظریہ اور یہی لا الہ ہماری مشعل راہ۔
میری قیادت سے بھی درخواست ہے آپ کو خان صاحب نے ڈی چوک احتجاج جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ منگل بدھ کو ملک گیر احتجاج کا پلان دے دیا تھا جس کی تحریری کاپی آفیشلی قوم کے ساتھ شئیر کرکے کال دی جائے۔ اس ضمن میں پارٹی عہدیدار متعلقہ تنظیموں، کارکنان منتخب ممبران سے رابطے کریں۔ خان صاحب کی یہ بھی ہدایت تھی کہ سوشل میڈیا پر پیغام احتجاجی تحریک کے لیے جاری ہوں لیکن عہدیدار، تنظیمیں وغیرہ انفرادی طور پر کارکنان، حلقے کے عوام اور ممبران سے رابطہ کریں۔ سو کارکن اور قیادت ہر سطح پر منظم ہوں۔ اپنا لائحہ عمل طے کریں۔ پلان کریں۔ پر امن رہیں، متحد رہیں، گرفتاریوں سے بچیں۔ گراونڈ کے علاوہ بھی سوشل میڈیا پر اپنا فوکس لامعنی بحثوں پر نہیں اپنے مقاصد پر رکھیں۔ عمران خان، بشری بی بی، دیگر قیادت اور کارکنان کی رہائ۔ آئین و قانون کی بالادستی۔ مینڈیٹ کی واپسی کے علاوہ کوئی اور بحث وقت کا زیاں ہے اور وقت اس وقت ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ وفاداری کا تقاضہ قاعدہ (ڈسپلن) ہے۔ جتنا بھی ناگوار ہو، قائم رکھنا ہے۔ کوئی اور رکھے نہ رکھے، آپ نے رکھنا ہے۔ ۹ مئی کے بعد بھی کوئی مرکزی قیادت منظر عام پر نہیں تھی کیا آپ نے ہار مانی تھی؟ پھر آج مایوسی کا سبب کیا ہے؟ کیا آپ کے لیڈر نے آپ سے غداری کی؟ کیا اس نے آپ کی حمیت کا سودا کیا؟ یا آپ کو اس جدوجہد کے علاوہ اپنی نسلوں کے لیے کوئی اور راستہ سجھائی دے گیا ہے؟