قانونی جواز وحثیت کا سوال
------------------------------
طالبان کی فتح کے بعد مغربی میڈیا میں جس نکتے پر توانائیاں خرچ کی جا رہی ہیں وہ ان کی ممکنہ حکومت کی قانونی حثیت
(legitimacy)
تسلیم نہ کرنا ہے- اپنی حکومتوں کو یہ تجویز کیا جا رہا ہے کہ اگر طالبان ہماری شرائط پر امور ریاست نہیں چلاتے اور مغربی اصولوں کو نہیں اپناتے، تب تک ان کا سفارتی بائیکاٹ کیا جاۓ
یہ سیریس مسئلہ ہے جو طالبان کی حکومت کو مستقبل میں درپیش ہوگا- 2001ء میں امریکی جارحیت سے قبل بھی وہ محض تین عدد ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر پاۓ تھے- اگرچہ حالات اب ویسے نہیں رہے، عالمی حالات بائی پولر ہو چکے ہیں مگر اب بھی عالمی بساط پر غلبہ مغربی استعماریوں کا ہے
ایک حل تو یہ ہے کہ تمام افغان قیادت کو اعتماد میں لے کر شراکت اقتدار کا فارمولا طے کیا جاۓ- تمام قابل ذکر دھڑوں وقبائل کو نمائندگی دی جاۓ بالخصوص وہ دھڑے جو کٹھ پتلی حکومت کا چہرہ مہرہ رہے- اس سے دو نتائج حاصل ہوں گے- مخالف دھڑوں کے تحفظات کا کسی حد تک مداوا بھی ہو گا اور مغربی حکومتوں کی بلاجواز سیاسی ومعاشی پابندیوں کے آگے بند بھی باندھا جاسکے گا- واضح رہے کہ مغرب کو وار لارڈز اور بدعنوان حکومت قبول ہے مگر سیاسی اسلام (اسلام ازم) کے ایجنڈے والی ہرگز نہیں
حکومت کا جواز محض ووٹ کی پرچی یا پارلیمان نہیں- دنیا کے کئی خطوں میں جمہوریت نہیں مگر عوام آسودہ اور حکومت پر اعتماد کرتی ہے- چین اس کی نمایاں مثال ہے- حکومت کی لیجٹیمیسی اس کی کارکردگی اور عوامی اعتماد سے آتی ہے جمہوریت بھی دیگر نظاموں کی طرح ایک طرزِ گورننس ہے، اگر بنیادی عوامی ضروریات اور یکساں قانون کی رٹ قائم نہیں کرپاتی تو جمہوریت ناکام ہے، بےکار ہے- اور اسی بےثمر جمہوریت کا نہ ہونا بہتر- مغربی ممالک بالخصوص امریکہ میں تو یہ ویسےبھی سرماۓ کی رکھیل بن چکی- یہی کچھ وطن عزیز میں ہو رہا ہے- سرمایہ دار پیسہ لگا کر پارلیمان میں پہنچ جاتے ہیں تو عوام نے ایسی جمہوریت کا کیا کرنا- طالبان چاہے کوئی بھی گورننس کا نظام اپنا لیں، ان کی قانونی حثیت ان کی بہترین عوامی خدمت وکارکردگی سے ناپی جاۓ گا
------------------------------
طالبان کی فتح کے بعد مغربی میڈیا میں جس نکتے پر توانائیاں خرچ کی جا رہی ہیں وہ ان کی ممکنہ حکومت کی قانونی حثیت
(legitimacy)
تسلیم نہ کرنا ہے- اپنی حکومتوں کو یہ تجویز کیا جا رہا ہے کہ اگر طالبان ہماری شرائط پر امور ریاست نہیں چلاتے اور مغربی اصولوں کو نہیں اپناتے، تب تک ان کا سفارتی بائیکاٹ کیا جاۓ
یہ سیریس مسئلہ ہے جو طالبان کی حکومت کو مستقبل میں درپیش ہوگا- 2001ء میں امریکی جارحیت سے قبل بھی وہ محض تین عدد ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر پاۓ تھے- اگرچہ حالات اب ویسے نہیں رہے، عالمی حالات بائی پولر ہو چکے ہیں مگر اب بھی عالمی بساط پر غلبہ مغربی استعماریوں کا ہے
ایک حل تو یہ ہے کہ تمام افغان قیادت کو اعتماد میں لے کر شراکت اقتدار کا فارمولا طے کیا جاۓ- تمام قابل ذکر دھڑوں وقبائل کو نمائندگی دی جاۓ بالخصوص وہ دھڑے جو کٹھ پتلی حکومت کا چہرہ مہرہ رہے- اس سے دو نتائج حاصل ہوں گے- مخالف دھڑوں کے تحفظات کا کسی حد تک مداوا بھی ہو گا اور مغربی حکومتوں کی بلاجواز سیاسی ومعاشی پابندیوں کے آگے بند بھی باندھا جاسکے گا- واضح رہے کہ مغرب کو وار لارڈز اور بدعنوان حکومت قبول ہے مگر سیاسی اسلام (اسلام ازم) کے ایجنڈے والی ہرگز نہیں
حکومت کا جواز محض ووٹ کی پرچی یا پارلیمان نہیں- دنیا کے کئی خطوں میں جمہوریت نہیں مگر عوام آسودہ اور حکومت پر اعتماد کرتی ہے- چین اس کی نمایاں مثال ہے- حکومت کی لیجٹیمیسی اس کی کارکردگی اور عوامی اعتماد سے آتی ہے جمہوریت بھی دیگر نظاموں کی طرح ایک طرزِ گورننس ہے، اگر بنیادی عوامی ضروریات اور یکساں قانون کی رٹ قائم نہیں کرپاتی تو جمہوریت ناکام ہے، بےکار ہے- اور اسی بےثمر جمہوریت کا نہ ہونا بہتر- مغربی ممالک بالخصوص امریکہ میں تو یہ ویسےبھی سرماۓ کی رکھیل بن چکی- یہی کچھ وطن عزیز میں ہو رہا ہے- سرمایہ دار پیسہ لگا کر پارلیمان میں پہنچ جاتے ہیں تو عوام نے ایسی جمہوریت کا کیا کرنا- طالبان چاہے کوئی بھی گورننس کا نظام اپنا لیں، ان کی قانونی حثیت ان کی بہترین عوامی خدمت وکارکردگی سے ناپی جاۓ گا