ضمنی الیکشن کے نتائج کیا بتاتے ہیں؟۔۔۔شاہد خان بلوچ
پاکستان میں شدید سیاسی اور میڈیا پولاریزیشن کی وجہ سے ہر واقعے کی دو مختلف تصویریں پیش کی جاتی ہیں۔ ضمنی انتخابات 2018 کےنتائج کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔
پہلی تصویر مجموعی نتائج کی ہے۔ 2013 کے ضمنی الیکشن میں مجموعی طور پر 41 نشستوں میں سے 16 (39٪) پر حکومتی بنچ کامیاب ہوا جبکہ 23 (56٪) نشستوں پر اپوزیشن کامیاب رہی۔ 2018 کے ضمنی الیکشن میں حکومتی اتحاد 37 میں سے 18 (49٪) نشستوں پر کامیاب رہا جبکہ اپوزیشن اتحاد 16 (43٪) نشستوں پر کامیاب ہو سکا۔ ان نمبرز کے حساب سے موجودہ حکومت ضمنی انتخابات میں پچھلی حکومت سے بہتر کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہی ہے۔
مگر تصویر کا دوسرا رخ زیادہ حقیقی ہے۔ پچھلے انتخابات میں حکومتی اتحاد اپنی جیتی ہوئی تین نشستوں (شہباز شریف کی راجن پور، مولانا فضل الرحمن کی ڈی آئی خان اور فیصل آباد شہر کی ایک نشست) پر ناکام رہا تو 2018 کے الیکشن میں حکومتی اتحاد 5 نشستوں (لاہور اور بنوں سے عمران خان، اٹک سے میجر طاہر صادق، جہلم سے فواد چودھری اور ڈی جی خان سے محمد لغاری) کی جیتی ہوئی نشستیں ہار گیا۔ اس لحاط سے موجودہ حکومت نے پچھلی حکومت کے مقابلے میں دو نشستیں زیادہ گنوائیں۔
ضمنی انتخابات 2013 میں عام انتخابات 2013 کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے ووٹ بنک میں مجموعی طور 2٪ کمی آئی تو 2018 کے ضمنی الیکشن میں 2018 کے عام انتخابات کے مقابلے میں پی ٹی آئی کا ووٹ
بنک 3 فیصد کم ہوا۔
پی ٹی آئی جن جیتی ہوئی نشستوں پر ہاری اس کی وجوہات بہت سادہ اور واضح ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ تجزیہ نگار اسے حکومتی پالیسیوں کی ناکامی سے تعبیر کریں مگر میرے خیال میں اس کی دو وجوہات ہیں۔ اول تو پی ٹی آئی نے ان ضمنی الیکشن میں بطور جماعت سرکاری مشینری(ڈی پی او، ڈی سی او وغیرہ) کا استعمال نہیں کیا اور اسے گراونڈ پر موجود کافی رپورٹرز نے رپورٹ بھی کیا۔ عمران خان یا کوئی بھی وزیر کسی بھی حلقے میں کمپین کرنے نہیں گیا۔ دوسری اور سب سے اہم وجہ پی ٹی آئی کے اندر شدید دھڑے بندی تھی۔ این اے 131 میں ہمایوں اختر اور علیم خان کی چپکلش چل رہی تھی تو اٹک میں میجر طاہر صادق نے امین اسلم کی مخالفت میں اعلانیہ طور پر مسلم لیگ ن کے ایم این اے کو سپورٹ کیا۔
میرے ذاتی تجزئے میں ان انتخابات کے نتائج مجموعی طور پر مسلم لیگ ن کے لئے معمولی فرق سے مثبت جبکہ تحریک انصاف کے لئے معمولی مارجن سے منفی رہے ہیں
ضمنی الیکشن کے نتائج کیا بتاتے ہیں؟۔۔۔شاہد خان بلوچ
پاکستان میں شدید سیاسی اور میڈیا پولاریزیشن کی وجہ سے ہر واقعے کی دو مختلف تصویریں پیش کی جاتی ہیں۔ ضمنی انتخابات 2018 کےنتائج کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔
پہلی تصویر مجموعی نتائج کی ہے۔ 2013 کے ضمنی الیکشن میں مجموعی طور پر 41 نشستوں میں سے 16 (39٪) پر حکومتی بنچ کامیاب ہوا جبکہ 23 (56٪) نشستوں پر اپوزیشن کامیاب رہی۔ 2018 کے ضمنی الیکشن میں حکومتی اتحاد 37 میں سے 18 (49٪) نشستوں پر کامیاب رہا جبکہ اپوزیشن اتحاد 16 (43٪) نشستوں پر کامیاب ہو سکا۔ ان نمبرز کے حساب سے موجودہ حکومت ضمنی انتخابات میں پچھلی حکومت سے بہتر کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہی ہے۔
مگر تصویر کا دوسرا رخ زیادہ حقیقی ہے۔ پچھلے انتخابات میں حکومتی اتحاد اپنی جیتی ہوئی تین نشستوں (شہباز شریف کی راجن پور، مولانا فضل الرحمن کی ڈی آئی خان اور فیصل آباد شہر کی ایک نشست) پر ناکام رہا تو 2018 کے الیکشن میں حکومتی اتحاد 5 نشستوں (لاہور اور بنوں سے عمران خان، اٹک سے میجر طاہر صادق، جہلم سے فواد چودھری اور ڈی جی خان سے محمد لغاری) کی جیتی ہوئی نشستیں ہار گیا۔ اس لحاط سے موجودہ حکومت نے پچھلی حکومت کے مقابلے میں دو نشستیں زیادہ گنوائیں۔
ضمنی انتخابات 2013 میں عام انتخابات 2013 کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے ووٹ بنک میں مجموعی طور 2٪ کمی آئی تو 2018 کے ضمنی الیکشن میں 2018 کے عام انتخابات کے مقابلے میں پی ٹی آئی کا ووٹ
بنک 3 فیصد کم ہوا۔
پی ٹی آئی جن جیتی ہوئی نشستوں پر ہاری اس کی وجوہات بہت سادہ اور واضح ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ تجزیہ نگار اسے حکومتی پالیسیوں کی ناکامی سے تعبیر کریں مگر میرے خیال میں اس کی دو وجوہات ہیں۔ اول تو پی ٹی آئی نے ان ضمنی الیکشن میں بطور جماعت سرکاری مشینری(ڈی پی او، ڈی سی او وغیرہ) کا استعمال نہیں کیا اور اسے گراونڈ پر موجود کافی رپورٹرز نے رپورٹ بھی کیا۔ عمران خان یا کوئی بھی وزیر کسی بھی حلقے میں کمپین کرنے نہیں گیا۔ دوسری اور سب سے اہم وجہ پی ٹی آئی کے اندر شدید دھڑے بندی تھی۔ این اے 131 میں ہمایوں اختر اور علیم خان کی چپکلش چل رہی تھی تو اٹک میں میجر طاہر صادق نے امین اسلم کی مخالفت میں اعلانیہ طور پر مسلم لیگ ن کے ایم این اے کو سپورٹ کیا۔
میرے ذاتی تجزئے میں ان انتخابات کے نتائج مجموعی طور پر مسلم لیگ ن کے لئے معمولی فرق سے مثبت جبکہ تحریک انصاف کے لئے معمولی مارجن سے منفی رہے ہیں