Alishbah
Voter (50+ posts)
دور حاضر کے جدت پسند انسان کی عمومی سوچ و رائے ہے اگر اسلام کی کوئی قسم آج کی دنیا کے ساتھ متابقت رکھتی ہے تو وہ صوفی اسلام ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ صرف اہل مغرب یا غیر مسلم ہی نہیں بلکہ ہر وہ مسلمان جو نہ مکمل لا دینیت کی زندگی گزارنا چاہتا ہے اور نہ ملائیت اور فرقہ پرستی کی آگ میں جلنا چاہتا ہے وہ بھی یہی فکر رکھتا ہے۔اہل مغرب کو تو اسلام کے فلسفہ جہاد سے متعلق کئی کنفیوژنز ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیوں اعتدال پسند مسلمان طبقات بھی یہی سمجھتے ہیں کہ محض صوفی اسلام ہی جدید دور میں قابل تقلید ہے؟ جواب ہے :انکی رائے میں صرف صوفی اسلام ہی اسلام کی غیر متشدد شکل ہے ۔
برصغیر کے تمام صوفیا کی زندگی کا بغور مطالعہ کرنے اور سید سلیمان ندوی کی تحریر کردہ مفصل سیرت النبی ﷺ پڑھنے کے بعد میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ اسلام کی اگر کوئی قسم سب سے بڑھ کہ لچک دار اور قابل تقلید ہے تو وہ صرف اسلام ہے،وہ اسلام جو ہمیں شریعت محمدیہ ﷺ سے حاصل ہوتا ہے۔
یہاں میں برصغیر پاک و ہند کے کثیر المذہبی معاشرے میں محبت و رواداری کا درس دینے والے کسی صوفی بزرگ کی خدمات کی نفی نہیں کر رہی بلکہ صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ سیرت محمد ﷺ بذات خود اس قدر نفیس و نرم ہے کہ کسی انسان کو اس سے خوف کھا کر اسکی کسی شاخ پر تکیہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
قصص اولیا میں ایک واقع درج ہے کہ ایک مرتبہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔وہاں کچھ ملازم پرتھوی راج چوہان کے اونٹ لیکر آگیے اور کہا کہ حضرت وہاں سے اٹھیں کیونکہ وہ راجہ کے اونٹوں کی جگہ ہے۔ ملازموں نے حضرت کو نظر انداز کر کہ وہاں اونٹ بیٹھانے شروع کر دیے جس پر انکو جلال آگیا اور انھوں نے کہا ٹھیک ہے!بیٹھے ہیں تو بیٹھے ہی رہیں گے۔شام کو جب اونٹ اٹھانے کا وقت آیا تو ملازموں نے ہر طریقہ آزما لیا مگر اونٹوں نے ہل کہ نہ دیا۔جس پر پرتھوی راج نےحضرت کو دربار میں بلا کہ ان سے معافی مانگی اور پھر اونٹوں کو اٹھایا گیا۔۔
قصص اولیا میں جا بجا ایسے کئی واقعات درج ہیں جن میں کسی صوفی بزرگ کو کسی بات پر "جلال آگیا" اور اس میں انھوں نے کوئی ایسی بات صادر فرما دی کہ جب تک اگلے انسان نے ان سے معافی نہ مانگ لی اسکی مشکل ختم نہ ہوئی۔مگر یقین کیجیے پوری کی پوری سیرت طیبہﷺ میں کوئی ایک،کوئی ایک بھی ایسا واقع درج نہیں جہاں نبی کریم ﷺ کو "جلال" آگیا ہو اور انھوں نے کسی کو کوئی سزا دی ہو برا بھلا کہا ہو یا کوئی بد دعا ہی دے دی ہو۔
نبی کریم ﷺ کی مکمل زندگی محبت ،ایثار ،عفو درگزر ،مساوات ،بھائی چارے اور بردباری کی ایسی نظیر ہے جسکی مثال نہ تو تاریخ اسلام سے قبل کہیں ملتی ہے اور نہ ہی تا قیامت کوئی شخص انسانیت کی وہ معراج حاصل کر سکتا ہے۔۔
طائف میں اوباش نوجوانوں نے لہولہان کر دیا،جبریل امین نے کہا حکم دیں تو انکا ابھی خاتمہ کر دوں فرمایا نہیں ! جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے،ایک عورت بلاناغہ کوڑا پھینکتی تھی ایک دن نہ پھینکا تو اسکی خیریت معلوم کرنے اسکے گھر چلے گیے اسکی تیمار داری کی،اور تو اور فتح مکہ کے موقع پر اپنی بیٹی کے قاتل تک کو معاف فرما دیا۔۔میرا ماڈرن دنیا کو چیلنج ہے تاریخ انسانی سے کوئی ایک ایسا واقع اخذ کر کی دکھائیں جہاں کوئی شخص خود پر غلاظت پھینکنے والے کی تیمارداری کو جاتا ہو،اختیار ہوتے ہوئے خود پر پتھر برسانے والوں کو ایک لفظ کی بد دعا نہ دیتا ہو،اپنی اولاد کے قاتل کو معاف کر دیتا ہو ۔۔۔۔کوئی ایک واقع ؟؟؟
میرا محض صوفی اسلام کو قابل تقلید کرنے والوں سے بھی سوال ہے رحمت العالمین ﷺ کی حیات مبارکہ میں کوئی ایک واقع ایسا ہو جہاں انکو جلال آگیا ہو اور انھوں نے کوئی ایسی کلمات کہے ہوں جس سے کسی مخلوق کو تکلیف اٹھانی پڑے۔۔
خود اللہ پاک نے قرآن پاک کی سورت حم سجدہ کی آیت نمبر بتیس میں فرمایا!
"اور بھلائی اور برائی برابر نہیں (اگر کوئی برائی کرے تو اسکا) جواب اچھائی سے دو،پھر تیرے اور جس کے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا گویا دوست ہو ناطے والا۔"
نبی کریم ﷺ نے صحابہ اکرام رض کو فرمایا کہ آپس میں ایک دوسرے کو معاف کر دیا کرو اور میرے تک معاملہ نہ لایا کرو کیونکہ میری حیثیت ریاست کی سی ہے میں زیادتی کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔۔
گویا اسلام کے وہ تمام قوانین جنکا تعلق قصاص یا بدلہ لینے سے ہے انکی بنیاد یہ ہے کہ ریاست کی رٹ قائم رہے اور جنگل کا قانون نافذ نہ ہو ،سزا و جزا کے تصور کی وجہ سے معاشرے کی تہذیب قائم رہے ورنہ ذاتی معاملات میں یا فرد کی سطح پر جس حد تک ہو سکے معافی اور عفو در گزر سے کام لینے کا حکم دیا گیا۔
الغرض یہ کہ اگر کوئی عقیدہ سب سے بڑھ کہ غیر متشدد ہے تو وہ دین اسلام ہے اور اگر کوئی انسان سب سے بڑھ کہ محبت کی تمام جہتوں کا مالک ہے تو آپ ﷺ کی ذات اقدس ہے۔
بطور مسلمان ہماری یہ ناکامی ہے کہ بجائے دنیا کی اسلام سے متعلق اس غلط فہمی کو دور کرنے کے ہم میں سے اکثریت خود بھی اس مغالطے میں مبتلا ہے کہ صوفی اسلام کے بغیر اسلام کوئی خوفناک ہیولے کا نام ہے۔۔
سیرت طیبہ ﷺ سے قربت اور ملا کے اسلام سے دوری اختیار کریں گے تو آپ خود بخؤد اسی نتیجے تک پہنچ جائیں گے اور مجھے یقین ہے کہ پھر آپکو خود کو "صرف" اسلام کا پیرو کار کہنے میں کوئی عار و خوف محسوس نہ ہوگا۔۔۔
۔
برصغیر کے تمام صوفیا کی زندگی کا بغور مطالعہ کرنے اور سید سلیمان ندوی کی تحریر کردہ مفصل سیرت النبی ﷺ پڑھنے کے بعد میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ اسلام کی اگر کوئی قسم سب سے بڑھ کہ لچک دار اور قابل تقلید ہے تو وہ صرف اسلام ہے،وہ اسلام جو ہمیں شریعت محمدیہ ﷺ سے حاصل ہوتا ہے۔
یہاں میں برصغیر پاک و ہند کے کثیر المذہبی معاشرے میں محبت و رواداری کا درس دینے والے کسی صوفی بزرگ کی خدمات کی نفی نہیں کر رہی بلکہ صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ سیرت محمد ﷺ بذات خود اس قدر نفیس و نرم ہے کہ کسی انسان کو اس سے خوف کھا کر اسکی کسی شاخ پر تکیہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
قصص اولیا میں ایک واقع درج ہے کہ ایک مرتبہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔وہاں کچھ ملازم پرتھوی راج چوہان کے اونٹ لیکر آگیے اور کہا کہ حضرت وہاں سے اٹھیں کیونکہ وہ راجہ کے اونٹوں کی جگہ ہے۔ ملازموں نے حضرت کو نظر انداز کر کہ وہاں اونٹ بیٹھانے شروع کر دیے جس پر انکو جلال آگیا اور انھوں نے کہا ٹھیک ہے!بیٹھے ہیں تو بیٹھے ہی رہیں گے۔شام کو جب اونٹ اٹھانے کا وقت آیا تو ملازموں نے ہر طریقہ آزما لیا مگر اونٹوں نے ہل کہ نہ دیا۔جس پر پرتھوی راج نےحضرت کو دربار میں بلا کہ ان سے معافی مانگی اور پھر اونٹوں کو اٹھایا گیا۔۔
قصص اولیا میں جا بجا ایسے کئی واقعات درج ہیں جن میں کسی صوفی بزرگ کو کسی بات پر "جلال آگیا" اور اس میں انھوں نے کوئی ایسی بات صادر فرما دی کہ جب تک اگلے انسان نے ان سے معافی نہ مانگ لی اسکی مشکل ختم نہ ہوئی۔مگر یقین کیجیے پوری کی پوری سیرت طیبہﷺ میں کوئی ایک،کوئی ایک بھی ایسا واقع درج نہیں جہاں نبی کریم ﷺ کو "جلال" آگیا ہو اور انھوں نے کسی کو کوئی سزا دی ہو برا بھلا کہا ہو یا کوئی بد دعا ہی دے دی ہو۔
نبی کریم ﷺ کی مکمل زندگی محبت ،ایثار ،عفو درگزر ،مساوات ،بھائی چارے اور بردباری کی ایسی نظیر ہے جسکی مثال نہ تو تاریخ اسلام سے قبل کہیں ملتی ہے اور نہ ہی تا قیامت کوئی شخص انسانیت کی وہ معراج حاصل کر سکتا ہے۔۔
طائف میں اوباش نوجوانوں نے لہولہان کر دیا،جبریل امین نے کہا حکم دیں تو انکا ابھی خاتمہ کر دوں فرمایا نہیں ! جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے،ایک عورت بلاناغہ کوڑا پھینکتی تھی ایک دن نہ پھینکا تو اسکی خیریت معلوم کرنے اسکے گھر چلے گیے اسکی تیمار داری کی،اور تو اور فتح مکہ کے موقع پر اپنی بیٹی کے قاتل تک کو معاف فرما دیا۔۔میرا ماڈرن دنیا کو چیلنج ہے تاریخ انسانی سے کوئی ایک ایسا واقع اخذ کر کی دکھائیں جہاں کوئی شخص خود پر غلاظت پھینکنے والے کی تیمارداری کو جاتا ہو،اختیار ہوتے ہوئے خود پر پتھر برسانے والوں کو ایک لفظ کی بد دعا نہ دیتا ہو،اپنی اولاد کے قاتل کو معاف کر دیتا ہو ۔۔۔۔کوئی ایک واقع ؟؟؟
میرا محض صوفی اسلام کو قابل تقلید کرنے والوں سے بھی سوال ہے رحمت العالمین ﷺ کی حیات مبارکہ میں کوئی ایک واقع ایسا ہو جہاں انکو جلال آگیا ہو اور انھوں نے کوئی ایسی کلمات کہے ہوں جس سے کسی مخلوق کو تکلیف اٹھانی پڑے۔۔
خود اللہ پاک نے قرآن پاک کی سورت حم سجدہ کی آیت نمبر بتیس میں فرمایا!
"اور بھلائی اور برائی برابر نہیں (اگر کوئی برائی کرے تو اسکا) جواب اچھائی سے دو،پھر تیرے اور جس کے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا گویا دوست ہو ناطے والا۔"
نبی کریم ﷺ نے صحابہ اکرام رض کو فرمایا کہ آپس میں ایک دوسرے کو معاف کر دیا کرو اور میرے تک معاملہ نہ لایا کرو کیونکہ میری حیثیت ریاست کی سی ہے میں زیادتی کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔۔
گویا اسلام کے وہ تمام قوانین جنکا تعلق قصاص یا بدلہ لینے سے ہے انکی بنیاد یہ ہے کہ ریاست کی رٹ قائم رہے اور جنگل کا قانون نافذ نہ ہو ،سزا و جزا کے تصور کی وجہ سے معاشرے کی تہذیب قائم رہے ورنہ ذاتی معاملات میں یا فرد کی سطح پر جس حد تک ہو سکے معافی اور عفو در گزر سے کام لینے کا حکم دیا گیا۔
الغرض یہ کہ اگر کوئی عقیدہ سب سے بڑھ کہ غیر متشدد ہے تو وہ دین اسلام ہے اور اگر کوئی انسان سب سے بڑھ کہ محبت کی تمام جہتوں کا مالک ہے تو آپ ﷺ کی ذات اقدس ہے۔
بطور مسلمان ہماری یہ ناکامی ہے کہ بجائے دنیا کی اسلام سے متعلق اس غلط فہمی کو دور کرنے کے ہم میں سے اکثریت خود بھی اس مغالطے میں مبتلا ہے کہ صوفی اسلام کے بغیر اسلام کوئی خوفناک ہیولے کا نام ہے۔۔
سیرت طیبہ ﷺ سے قربت اور ملا کے اسلام سے دوری اختیار کریں گے تو آپ خود بخؤد اسی نتیجے تک پہنچ جائیں گے اور مجھے یقین ہے کہ پھر آپکو خود کو "صرف" اسلام کا پیرو کار کہنے میں کوئی عار و خوف محسوس نہ ہوگا۔۔۔
۔
Last edited by a moderator: