Bubber Shair
Chief Minister (5k+ posts)
آی ایم ایف نے ڈیڑھ ارب دے دیا اگر ہمارے پاس صرف یہی دو ارب ڈالر ہوتا تو آی ایم ایف کو کہا جاسکتا تھا کہ اب ضرورت نہیں ۔ خیر، اس وقت مجھے بتانا مقصود ہے کہ ملتان اور جنوبی پنجاب کے تمام علاقوں میں آم جیسا جنت کا میوہ اتنا عمدہ ہوتا ہے کہ صرف اس کی ایکسپورٹ سے ہم بیس ارب ڈالر سالانہ کما سکتے ہیں۔ اگر ہم آم کی ایکسپورٹ درست طریق پر کررہے ہوتے تو دو ارب ڈالر تو صرف ایک دو ملکوں سے ہی کما چکے ہوتے
ملتان میں پچھلے سال انتہای بے دردی سے باغات کو ختم کیا گیا اور ساٹھ ہزار پودے صرف دو کالونیاں بنانے کیلئے کاٹ دیے گئے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ کلپرٹس کو پکڑ کر جیلوں میں ڈالا جاتا کالونیاں منسوخ کرکے وہاں دوبارہ آم کے درخت لگاے جاتے اور اس کا سارا خرچہ جرمانے سمیت کلپرٹس سے لیا جاتا مگر یہاں تو ہر بندہ کمای کیلئے پیدا ہوا ہے ملک کا کوی بھی نہیں سوچتا۔
شہروں کے اندر یا انکے قریب جو باغات اور پارکس آجاتے ہیں ان کو کاٹ کر رہائشیں نہیں بنای جاتیں بلکہ آبادیاں ان کے اردگرد سے ہوکر آگے نکل جاتی ہیں کیونکہ ان باغات سے شہر کا ایریا سرسبز اور آکسیجن سے پر رہتا ہے۔
میں نے سنا ہے کہ لندن یا ٹوکیو بھی دنیا کے بڑے شہروں میں ہیں مگر وہاں کوی پیدل چلنا شروع کرے تو ہر پندرہ منٹ بعد وہ کسی چھوٹے یا بڑے پارک میں سے گزر رہا ہوگا
ہمارا تو رقبہ بھی ان ملکوں سے بہت زیادہ ہے پھر کیا وجہ ہے کہ یہاں ہر مگرمچھ کی نظر باغات او پارکس پر رہتی ہے
ابھی کراچی میں ایک پارک میں تعمیر کی گئی مسجد کو ان کے فرقے کی طرف سے زور زبردستی کے بعد گرانے نہیں دیا گیا اور عدالت جو نسلہ ٹاور کو زمین بوس کرواتے ہوے بہت اچھل کود رہی تھی وہ مسجد گرانے پر مکمل خاموش ہوگئی۔
کیا سویلینز کا اس ملک میں کوی بھی مددگار نہیں ؟
کراچی کی انتظامیہ اور عدلیہ جواب دے کہ اگر وہ پارک پر تعمیر کی گئی مسجد ختم نہیں کرواسکتے تھے تو بے چارے لوگوں کے گھر جو نسلہ ٹاور میں تھے کیوں ملیامیٹ کروا دئیے؟
کیا یہ بھڑوا قانون صرف غریب عوام کیلئے رہ گیا ہے۔ جنرل ، مولوی اور سیاستدان اس سے باہر ہیں؟
بات کدھر سے کدھر نکل گئی
حکومت کو چاہئے کہ آم کی سرپرستی کرے اور اس سے اربوں ڈالر کا ریونیو کماے
ملتان میں پچھلے سال انتہای بے دردی سے باغات کو ختم کیا گیا اور ساٹھ ہزار پودے صرف دو کالونیاں بنانے کیلئے کاٹ دیے گئے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ کلپرٹس کو پکڑ کر جیلوں میں ڈالا جاتا کالونیاں منسوخ کرکے وہاں دوبارہ آم کے درخت لگاے جاتے اور اس کا سارا خرچہ جرمانے سمیت کلپرٹس سے لیا جاتا مگر یہاں تو ہر بندہ کمای کیلئے پیدا ہوا ہے ملک کا کوی بھی نہیں سوچتا۔
شہروں کے اندر یا انکے قریب جو باغات اور پارکس آجاتے ہیں ان کو کاٹ کر رہائشیں نہیں بنای جاتیں بلکہ آبادیاں ان کے اردگرد سے ہوکر آگے نکل جاتی ہیں کیونکہ ان باغات سے شہر کا ایریا سرسبز اور آکسیجن سے پر رہتا ہے۔
میں نے سنا ہے کہ لندن یا ٹوکیو بھی دنیا کے بڑے شہروں میں ہیں مگر وہاں کوی پیدل چلنا شروع کرے تو ہر پندرہ منٹ بعد وہ کسی چھوٹے یا بڑے پارک میں سے گزر رہا ہوگا
ہمارا تو رقبہ بھی ان ملکوں سے بہت زیادہ ہے پھر کیا وجہ ہے کہ یہاں ہر مگرمچھ کی نظر باغات او پارکس پر رہتی ہے
ابھی کراچی میں ایک پارک میں تعمیر کی گئی مسجد کو ان کے فرقے کی طرف سے زور زبردستی کے بعد گرانے نہیں دیا گیا اور عدالت جو نسلہ ٹاور کو زمین بوس کرواتے ہوے بہت اچھل کود رہی تھی وہ مسجد گرانے پر مکمل خاموش ہوگئی۔
کیا سویلینز کا اس ملک میں کوی بھی مددگار نہیں ؟
کراچی کی انتظامیہ اور عدلیہ جواب دے کہ اگر وہ پارک پر تعمیر کی گئی مسجد ختم نہیں کرواسکتے تھے تو بے چارے لوگوں کے گھر جو نسلہ ٹاور میں تھے کیوں ملیامیٹ کروا دئیے؟
کیا یہ بھڑوا قانون صرف غریب عوام کیلئے رہ گیا ہے۔ جنرل ، مولوی اور سیاستدان اس سے باہر ہیں؟
بات کدھر سے کدھر نکل گئی
حکومت کو چاہئے کہ آم کی سرپرستی کرے اور اس سے اربوں ڈالر کا ریونیو کماے