........صداقت الجھتی ہے جہالت کے ایوانوں میں

Pakeagle

MPA (400+ posts)
alarming-call-3.jpg


09-June-001-580x1941.jpg
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
logo.jpg

لیجیے چارساڑھے چارسال سے انصاف کا بول بالاکرنے والے چیف جسٹس کوبھی اسکینڈلزنے لپیٹ میں لے لیا ان کے بیٹے کا مالی اسکینڈل سامنے آیاہے ۔ارسلان افتخارنے پاکستان کے ایک بڑے مالدارآدمی سے 50 کروڑ روپے وصول کیے ہیں۔ چیف جسٹس نے اس خبرکا فوری نوٹس بھی لے لیاہے اور 3 رکنی بنچ بھی قائم کردیا۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے خود کو اس بنچ سے الگ بھی کرلیا۔ جو اس مقدمے کی سماعت کرے گی یاکررہی ہے۔ جنرل پرویزمشرف کے دورمیں بھی چیف جسٹس کے صاحبزادے کے بارے میں ایک الزام عائد کیاگیاتھااور ایک بارپھروہی صاحبزادے اسکینڈل کی زدمیں آئے ہیں۔ چیف جسٹس کی زیرصدارت سماعت ہوئی جسٹس خلجی عارف حسین نے اس موقع پر یہی کہاکہ ہم اس نبیکے پیروکارہیں جس نے کہا تھا کہ میری بیٹی فاطمہ بھی جرم کرتی تو سزادیتا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا ہے کہ ارسلان کو رقم دینے والے کوئی بھی جرنیل ہوں قرآنی احکامات کے مطابق فیصلہ کریں گے۔بیٹامجرم ثابت ہوا تو سخت کارروائی ہوگی۔چیف جسٹس نے سماعت سے خود کو الگ کرنے سے قبل بحریہ ٹائون کا تمام ریکارڈ طلب کیاہے اورکہاہے کہ الزام میں جو باتیں ہیں ان کی دستاویزلاکر دی جائے مواد نہ آیا تو ملک ریاض کے تمام آفس سیل کردیں گے۔ یہ تھا توایک اسکینڈل اب ذرا رویوںکا فرق ملاحظہ فرمائیں۔ ابھی ارسلان افتخارچوہدری مجرم ثابت نہیں ہواہے۔ ابھی مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی ہے لیکن ارسلان افتخارنے بتایا کہ مقدمہ کا فیصلہ آنے تک مجھے گھرسے نکال دیاگیاہے۔ عدالت میں حاضری عام ملزم کی طرح ہوئی مکمل تلاشی اورشناختی کارڈ دیکھنے کے بعد جانے دیاگیا۔ ارسلان کا دعویٰ ہے کہ وہ بے قصورہیں۔ چیف جسٹس یا ان کے کسی ہمنوا نے ارسلان کے استثناکا معاملہ اٹھاکر معاملے کو موخرکرنے کی کوشش نہیںکی۔ نہ ہی کسی نے یہ کہاکہ ارسلان کو عدالت میں نہیں لایاجاسکتا۔ دوسری طرف حکومت نے تازہ اقدام یہ کیاکہ جس وزیرداخلہ کی رکنیت معطل کی گئی ہے اسے فوری طورپر مشیر داخلہ بنالیاگیا۔وہ پہلے بھی مشیرداخلہ اور اتنے ہی طاقتورتھے۔ لیکن رویوں میں فرق یہ ہے کہ جس شخصیت کے خلاف کیس آیا اس کے بارے میں سب سے پہلے تو استثناکی بات کی گئی پھر جوں ہی مقدمہ میں سزا ہوئی یا مجرم قراردیاگیا اسے فوری طورپر کوئی نیا عہدہ دے دیاجاتاہے۔ کسی کی رکنیت ختم ہوجائے تو اسے بھی ٹکٹ دے کر دوبارہ منتخب کرایاجاتاہے۔ وزیراعظم کو عدالت مجرم قراردے یا سزاسنائے تو وہ جلوس کی قیادت کرتے ہوئے جاتے ہیں اور کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہیں۔ عدالت کے فیصلے کو چیلنج بھی نہیں کرتے اور تسلیم بھی نہیں کرتے۔ اب ذرا یہ دیکھیں کہ ارسلان افتخارکا کیس کیاہے۔ انہیں رقم کس نے دی کیوں دی وہ کس طرح ٹریپ ہوئے یہ خبردوچاردن پرانی نہیں تھی لیکن عین اس وقت جاری کی گئی جب جسٹس افتخارچودھری برطانیہ میں ایوارڈوصول کرنے گئے تھے۔ اب بھی ملک ریاض کا اصرارہے کہ برطانوی اخبارات میں ثبوت شائع کرائوں گا۔ آخربرطانوی ذرائع ابلاغ کا سہاراکیوں لیاجارہاہے۔ پاکستان میں تو قائد اعظم کی جائے پیدائش ان کے پاکستان کو اسلامی یاسیکولربنانے اور اسلامی حدودکے خلاف تک میڈیاکھل کر بات کرلیتاہے تو پھر ایسی کون سی بات ہے جو پاکستانی میڈیا میں نہیں آئے گی اور برطانوی میڈیا میں آجائے گی تو اس کی وقعت بڑھ جائے گی۔جس بڑے صحافی نے نیوزبریک کی ہے اور نیوزمعلوم ہونے کے باوجود چیف جسٹس کے لندن پہنچنے تک روکی وہ پہلے بھی پاکستان اور پاکستانی فوج کے خلاف مہم چلاتے رہے ہیں۔ فوج اورپاکستان کے خلاف خبردینے پر ڈالروں میں ادائیگی کی پیشکش بھی کرتے رہے ہیں۔ اس اسکینڈل کے کیا ممکنہ نتائج ہوسکتے ہیں۔ اس پربھی غورکرلیتے ہیں مثال کے طورپر عدالت میں یہ ثابت ہوجاتاہے کہ ارسلان افتخار چوہدری نے غیرقانونی طورپر رقم وصول کی ہے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوگاکہ ارسلان کو سزاہوجائے گی۔ جوجرمانے اورکچھ پابندیوں سے زیادہ نہیں ہوگی۔ لیکن ارسلان کے مجرم ثابت ہوتے ہی یہ سوال پیدا ہوجائے گا کہ اسے رقم کس نے اورکیوں دی تھی۔ اس کے پاس اتنی رقم کہاں سے آئی ۔ اس رقم کودینے کے مقاصدکیاتھے۔ظاہری بات ہے زیادہ مشکل میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے رقم فراہم کی ہے۔ جس طرح آج تک سیاسی جماعتوں کو رقم فراہم کرنے کے مقدمہ میں کسی سیاسی جماعت کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے رقم تقسیم کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ یہاں بھی سوال یہی پیدا ہوگا کہ ارسلان کو توجرمانہ اورکاروبارسے منع کیاجاسکے گا لیکن رقم دینے والوں کو تو دوہرا حساب دینا ہے اس لیے شاید وہ ارسلان ہی کوبچانے کے لیے کیس ہلکا کرنے کی کوشش کریں۔ بہرحال چیف جسٹس اس امتحان کے پہلے مرحلے میں تو سرخروہوئے ہیں ‘ازخودنوٹس لیاخود بنچ سے الگ ہوئے ‘بیٹے کو گھرسے نکال دیا۔ اب آگے ان کے مزید امتحان ہیں۔ مگر کیا پاکستانی قوم محض ٹی وی پر تماشے ہی دیکھتی رہے گی۔


 
Last edited: