بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ اسامہ بن لادن رحمۃ اللہ علیہ کا خواب
یہ قصہ مجھے ایک ایسے طالب علم نے سُنایا جس نے ۲۰ برس سے زائد عرصہ علماء کی صحبت میں علم حاصل کیا۔ اُس نے مجھے شیخ اسامہ بن لادن رحمۃ اللہ علیہ کے ایک خواب کے بارے میں بتایا جو انہوں نے ۹ سال کی عمر میں دیکھا تھا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیخ اسامہ بن لادن رحمۃ اللہ علیہ
کو اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی سے اہلِ صلیب کے خلاف معرکوں کے لئے تیار کیا تھا ۔
کو اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی سے اہلِ صلیب کے خلاف معرکوں کے لئے تیار کیا تھا ۔
اُس نے مجھے بتایا کہ ایک دِن ہم ایک ساتھی کے ہمراہ بیٹھے امت کی حالتِ زار پر گفتگو کررہے تھے کہ امت مسلمہ میں رونما ہونے والے تمام واقعات مشیّتِ الٰہی کے مطابق ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ اللہ رب العزت کی نصرت آکر رہے گی اور وہ ہماری اُمت میں کسی ایسے قائد و رہنما کو ضرور بھیجے گا جو ذلت و مسکنت میں جکڑی اس اُمت کو رفعت و سربلندی کے روشن راستے پر گامزن کردے ۔ ہم سوچنے لگے کہ ایسا کون ہوسکتا ہے! اچانک ہمیں شیخ اسامہ بن لادن رحمۃ اللہ علیہ کا خیال آیا کیونکہ اُن کی امت کی خاطر بے شمار قربانیاں ہیں ۔
اِس پر میرا ساتھی مسکرایا اور کہنے لگا کہ میں آپ کو شیخ اسامہ بن لادن رحمۃ اللہ علیہ کا ایک خواب سناتا ہوں جسے سن کر آپ خوش ہوجائیں گے اور مجاہدین سے آپ کی محبت میں مزید اضافہ ہوگا۔
اُس نے بتایا کہ میں مدینہ منوّرہ میں ایک ایسے عالم کے گھر تھا جو مسجدِ نبوی میں درس دیتے تھے۔ ابھی ہمیں وہاں بیٹھے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اُن کا دروازہ بجا اور ایک پُر نور و پُروقار شخصیت کے حامل شیخ کمرے میں داخل ہوئے جس کے عمر ۸۰ سال کے لگ بھگ تھی۔
میزبان نے اُنہیں خوش آمدید کہا اور اُن سے بعض آیاتِ قرآنی کی تفسیر کے لئے اصرار کیا ۔ آنے والے مہمان شیخ نے چند آیات کی تلاوت کی ، ہم خاموشی سے سننے لگے ۔ اس کے بعد اُنہوں نے اِن آیات کی تفسیر بیان کی ۔ واللہ! میں نے متعدد کتبِ تفاسیر کا مطالعہ کیا ہے مگر وہ شیخ تو علم کے سمندر تھے۔ جب اُنہوں نے اپنا درس مکمل کیا تو گھر کے مالک نے اُنہیں کھانے کی دعوت دی مگر اُن شیخ نے معذرت کی جس سے ہمیں پتہ چلا کہ وہ روزے سے ہیں ۔ چنانچہ مہمان نے اجازت چاہی مگر میزبان نے اصرار کیا کہ جب تک آپ ہمیں شیخ اسامہ بن لادن رحمۃ اللہ علیہ کا خواب دوبارہ نہیں سنائیں گے ، آپ کو جانے کی اجازت نہیں ملے گی ۔ شیخ نے مسکرا کر پوچھا کہ وہ خواب ! جو شیخ اسامہ بن لادن رحمۃ اللہ علیہ نے نو سال کی عمر میں دیکھا تھا ؟ میزبان نے کہا کہ جی ہاں! وہی۔
:اُن شیخ نے یہ قصہ کچھ یوں بیان کیا
(میں شیخ اسامہ بن لادن رحمۃ اللہ علیہ کے والد محمد بن لادن کا گہرا دوست تھااور اکثر اُن کے ساتھ رہتا تھا۔ میں تعمیرات کے سلسلے میں اکثر اُن سے ملنے کے لئے اُن کا گھر جاتا تھا۔ دورانِ گفتگو اُن کے بچوں کے کھیل کود کی وجہ سے ہماری بات چیت میں خلل پڑتا تو محمد بن لادن اپنے بچوں سے باہر نکل کر کھیلنے کو کہتے تھے۔
البتہ مجھے تعجب اس بات پر ہوا کہ وہ اپنے ایک بیٹے کو ہمیشہ اپنے پاس ہی بٹھاتے تھے۔ میں نے پوچھا کہ آپ اِسے اِس کے دوسرے بھائیوں کے ساتھ کھیلنے کیوں نہیں بھیجتے ؟ کہیں یہ بیمار تو نہیں!؟ محمد بن لادن مسکرا کر کہنے لگے کہ نہیں! میرا یہ بیٹا تو بڑی شان والا ہے۔ میں نے اُس کا نام پوچھا تو کہنے لگے کہ اِس کا نام اُسامہ ہے اور اس کی عمر ۹ سال ہے۔
میں آپ کو ایک بڑی عجیب بات بتاتا ہوں۔ چند روز پیشتر نمازِ فجر کے کچھ دیر قبل اُسامہ نے مجھے جگاکر کہا کہ ابا جان! میں اپنا ایک خواب آپ کو سُنانا چاہتا ہوں ۔ مجھے خیال آیا کہ شاید اُس نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ لیا ۔ میں نے وضو کیا اور اُسے اپنے ساتھ مسجد لے گیا ۔ راستے میں اُس نے مجھے بتایا کہ میں نے خواب میں خود کو ایک وسیع میدان میں پایا ۔ میں نے دیکھا کہ ایک سفید رنگ کے گھوڑوں کے سوار ایک لشکر میری جانب بڑھ رہاہے ۔ اُن سب نے سیاہ پگڑیاں زیبِ تن کررکھی ہیں ۔ اس لشکر میں سے ایک گھڑ سوار جس کی آنکھیں چمک رہی تھیں ، میرے برابر آکر رُک گیا اور پوچھنے لگا کہ کیا آپ اُسامہ بن محمد بن لادن ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ جی ہاں! اُس نے پھر پوچھا کہ کیا آپ اُسامہ بن محمد بن لادن ہیں ؟ میں نے کہا کہ جی ہاں، میں ہی ہوں! اُس نے تیسری بار پھر پوچھا کہ کیا آپ ہی اُسامہ بن محمد بن لادن ہیں؟ تب میں نے اُسے کہا کہ اللہ کی قسم! میں ہی اُسامہ بن محمد بن لادن ہوں ۔ اُس نے میری طرف ایک جھنڈا بڑھایا اور کہا کہ یہ جھنڈا القدس کے دروازے پر امام مہدی (محمد بن عبداللہ) کو دے دینا ۔ میں نے اُس گھڑ سوار سے وہ پرچم لے لیا اور میں نے دیکھا کہ وہ لشکر میرے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔)
محمد بن لادن کہتے ہیں کہ میں بڑا حیران ہوا مگر دن بھر کام میں مصروف رہنے کی وجہ سے اُس خواب کو بھول گیا ۔ اگلی صبح پھر نمازِ فجر سے ذرا پہلے مجھے جگاکر وہی خواب سُنایا ، تیسری صبح پھر ایسا ہی ہوا۔ اب مجھے اپنے بیٹے کے متعلق تشویش لاحق ہونے لگی۔ میں نے سوچا کہ میں اِسے ساتھ لے کر کسی ایک عالم کے پاس جاتا ہوں جو خوابوں کی تعبیر جانتا ہو۔ چنانچہ میں اُسامہ کو لے کر ایک عالم کے پاس گیا اور اُسے تمام معاملے کے بارے میں آگاہ کیا ۔ اُس نے ہماری طرف حیرانی سے دیکھا اور پوچھا کہ کیا یہ ہے تمہارا وہ بیٹا جسے خواب آیا ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں! یہی ہے۔ وہ اُسامہ کو کچھ دیر بہت غور سے دیکھتا رہا ، میری پریشانی مزید بڑھ گئی ۔ اُس نے مجھے اطمینان دِلایا اور کہا کہ میں چند سوالات آپ سے کرنا چاہوں گا ۔ مجھے اُمید ہے کہ آپ میرے سوالات کا بالکل سچ سچ جواب دیں گے ۔
اُس نے اُسامہ سے پوچھا کہ بیٹے ! تمہیں وہ پرچم یاد ہے جو تمہیں اُس گھڑسوار نے دیا تھا؟ اُسامہ نے کہا کہ جی ! مجھے یاد ہے۔ وہ عالم کہنے لگا کہ ذرا مجھے بتاؤ کہ وہ کیسا تھا؟ اُسامہ نے بتایا کہ تھا تو وہ سعودی عرب کے جھنڈے جیسا ہی ، مگر اس کا رنگ سبز نہیں بلکہ سیاہ تھا اور اُس میں سفید رنگ سے کچھ لکھا بھی ہوا تھا ۔ اُس نے اُسامہ سے اگلا سوال پوچھا کہ کبھی تم نے خود کو بھی لڑتے ہوئے دیکھا ہے ؟ تو اُسامہ نے بتایا کہ اس طرح کے خواب تو میں اکثر دیکھتا ہوں۔ پھر اُس نے اُسامہ سے کہا کہ وہ باہر جائے اور تلاوت کرے ۔
اب وہ عالم محمد بن لادن کی جانب متوجہ ہوا اور پوچھا کہ آپ لوگوں کا آبائی تعلق کہاں سے ہے ؟ میں نے کہا کہ یمن کے علاقے حضرِ موت سے ۔ کہنے لگا کہ اپنے قبیلے کے بارے میں بتائیں ، میں نے جواب دیا کہ ہمارا تعلق قبیلہ شنوءۃ سے ہے جو یمن کا قحطانی قبیلہ ہے ۔ اُس عالم نے زور سے تکبیر بلند کی ۔ پھر اُس نے اُسامہ کو بلایا اور اُسے روتے ہوئے چومنے لگا ۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ قیامت کی نشانیاں قریب آگئی ہیں ۔ اے محمد بن لادن! آپ کا یہ بیٹا امام مہدی کے لئے لشکر تیار کرے گا اور اپنے دین کی حفاظت کی خاطر خطۂ خراسان کی جانب ہجرت کرے گا ۔ اے اُسامہ! مبارک ہے وہ جو آپ کے ساتھ جہاد کرے اور ناکام و نامراد ہو وہ شخص آپ کو تنہا چھوڑ کر آپ کے خلاف لڑے ۔