Onlypakistan
Chief Minister (5k+ posts)
PTI KI KAMYABI K BAD TO YE CHARIYA APNI AUR NOOREY KI JAN KO RO RA HO GA . AB IS CHOR SAE SUPREM COURT KO AWAM KA PASSA WAPIS LAENA CHAEYE.
Viagra to hogi, lekin viagra kha ke jis farari ko driver kerta tha yeh, police ne woh farari zabt kerke adiala jail mai muntaqil ker di hai..... Ab uss farari ko sirf head constables drive kerte hain...yea gändu abhi bhi lik raha hai ? viagra khatam ho gaye hai kya ?
Is se ek ek viagra ka hisab hoga.....yeh pareshan hokay judge ko bolayga ke qasam se viagra khana to duur ki baat mai apna kaat ke pehnk doonga takay viagra khanay ki zaroorat hi pesh na aye.بوکسر کتے جیسی شکال والے تیار ھو جا تیرا کچھا اترنے والا ھے تیری موٹی پٹڑی پر لتر پڑنے والے ھیں صرف الیکشن کا انتظا تھا۔کسی دریائی گھوڑے کی نسل۔تجھے بھی حساب دینا ھو گا۔۔
!پھر اتنا شور مچانے کی کیا ضرورت ہےاس دفعہ فرق یہ ہے کہ ان قوتوں نے ایک جماعت کو جتوانے کے لئے انتخابات سے پہلے کھل کر اپنا کردار ادا کیا جبکہ یہ کام پہلے پردہ داری سے کیا جاتا تھا
Anni da. Whenever I went to Heathrow to pick or drop my mother, he was there on a wheel chair. Just co incident every time. But his face is full of khabasat. Trust me. Give back our money and go to heck![]()
شکست و فتح کے سب فیصلے ہوئے کہیں اور؟
عطا ء الحق قاسمی
یہ کالم الیکشن والے دن تاخیر سے موصول ہوا تھا مگر تاخیر کی وجہ سے آج پیش خدمت ہے۔
میں نے پہلے سوچا کہ آج کالم نہ ہی لکھوں کیونکہ صبح انتخابات کے نتائج اور پوری تفصیل اخبارات میں شائع ہوئی ہو گی اور یوں میرا کالم ’’ضائع‘‘ ہو جائے گا، مگر پھر میں نے سوچا کہ آج صبح گیارہ
بجے تک ای ایم ای سوسائٹی لاہور میں پولنگ کا آنکھوں دیکھا حال تو بیان کروں۔ یہاں پولنگ ایک اسکول میں ہو رہی تھی جو ایک پرائیویٹ مہنگا اسکول ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ یہاں کچھ باتیں بہت اچھی لگیں مثلاً سینئرز کو ووٹ ڈالنے کے لئے بہت سہولت فراہم کی گئی تھی۔ انہیں قطار میں لگنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور اگر کوئی سینئر ووٹر کار میں ہوتا تو اس کے لئے اسکول کا مین گیٹ کھول دیا جاتا اور اسے پورے سکون اور احترام سے حق رائے دہی کا موقع دیا جاتا۔
مجھے سب سے اچھی بات یہ لگی کہ ایک تو ووٹرز ناشتہ کرتے ہی پولنگ اسٹیشن پہنچ گئے تھے اور دوسری بلکہ اصل حیرت انگیز بات یہ تھی کہ خواتین کی تعداد مرد ووٹروں سے کم سے کم دوگنا زیادہ تھی۔ تیسری اہم بات یہ کہ اس بار میں نے کسی جماعت کے ووٹر کو اپنی پارٹی کی شرٹ، کیپ یا بیج لگائے نہ دیکھا، چنانچہ یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا کہ کس پارٹی کو زیادہ ووٹ پڑ رہے ہیں۔ اس کا اندازہ چار بجے کے بعد ہی ہو سکے گا لیکن
خوش آئند بات یہ ہے کہ سب جماعتوں کے لوگ بہت بڑی تعداد میں ووٹنگ کے لئے نکلے ہیں۔ میرے خیال میں اس کا کریڈٹ ہمارے میڈیا اور سوشل میڈیا کو جاتا ہے جنہوں نے بحث مباحثوں اور اپنی اپنی جماعتوں کی بہتری اور برتری کی مہم پورے زور و شور سے چلائی جس سے رائے دہندگان کے دلوں میں اپنے ووٹ کی اہمیت کا احساس پیدا ہوا اور یہ خطرہ کہ کہیں ان کی ’’غیر حاضری‘‘ سے ان کی جماعت ہار نہ جائے۔ ایک اور بات جو میں نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ ووٹروں کے ایک دوسرے کے ساتھ رویے اور برتائو سے یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا کہ اس کا تعلق آپ کی پارٹی سے ہے یا آپ کی مخالف پارٹی سے۔ سب ایک دوسرے سے بیگانوں کی طرح مل رہے تھے اور اپنے ووٹ کی حفاظت دل میں ہی کر رہے تھے۔
جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا میں ووٹ ڈال کر آ چکا ہوں، اب کالم لکھ کر لنچ کروں گا اور بیٹے کے ساتھ شہر کے مختلف حصوں کا جائزہ لے کر پھر ہی کوئی رائے قائم کرنے کے قابل ہو سکوں گا۔ فی الحال تشویشناک بات یہ ہے کہ میڈیا کے ایک بڑے حصے نے بلکہ آج بھی سلیم صافی کے کالم میں الیکشن سے پہلے کی دھاندلیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ انتخابات میں روایتی قوتوں کا کبھی کوئی کردار نہیں رہا تو یہ بات شاید حقیقت کے منافی ہو گی۔ اس دفعہ فرق یہ ہے کہ ان قوتوں نے ایک جماعت کو جتوانے کے لئے انتخابات سے پہلے کھل کر اپنا کردار ادا کیا جبکہ یہ کام پہلے پردہ داری سے کیا جاتا تھا مگر اس دفعہ ایک پنجابی محاورے کے مطابق انہوں نے ’’لوہی لا‘‘ دی،کسی پردہ داری کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ اوپر سے نگران حکومت نے جو کردار ادا کیا، اُس سے کیسے کیسے ’’معزز‘‘ نگران بے نقاب ہو کر سامنے آگئے۔ ان کی وجہ سے نجم سیٹھی بہت یاد آیا جن کی نگرانی میں 2013کے انتخابات کے شفاف ہونے کی گواہی غیر ملکی میڈیا نے بھی دی تھی۔
مجھے امریکہ سے میرے صحافی دوست آفاق خیالی جو ’’پاکستان پوسٹ‘‘ کے ایڈیٹر ہیں، نے کے پی کا ایک ویڈیو کلپ بھیجا ہے جہاں ایک ووٹر پولنگ اسٹیشن کے باہر کھڑا چلا رہا ہے کہ ان کی جماعت کے لوگوں کو اندر نہیں جانے دیا جا رہا۔ اللہ جانے صورت حال کیا ہے لیکن ایک انتہائی افسوسناک صورت حال جو ابھی سامنے آئی ہے، وہ کوئٹہ میں خودکش دھماکہ اور الیکشن کمپین ختم ہونے کے کئی گھنٹے بعد بھی بعض سیاسی رہنمائوں نے ٹی وی چینلز سے میڈیا ٹاک کی جو کہ الیکشن کمیشن کے بنائے ہوئے اصول و ضوابط کی سراسر خلاف ورزی تھی، الیکشن کمیشن نے ان رہنمائوں کو اس خلاف ورزی پر صرف نوٹس بھیجے ہیں۔
اب میں لنچ کر کے نکلنے لگا ہوں اور دیکھنا چاہوں گا کہ لاڈلے کے تمام لاڈ پیار اور مسلم لیگ (ن) کی جیت میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے باوجود شہر کی صورت حال کیا ہے۔ بس جاتے جاتے
آخر میں افتخار عارف کا ایک شعر سنتے جایئے؎
شکست و فتح کے سب فیصلے ہوئے کہیں اور
مثالِ مالِ غنیمت لٹا دیئے گئے ہم لوگ
پس نوشت:مگر سب چالوں کے باوجود بازی الٹ بھی سکتی ہے۔
https://jang.com.pk/news/526359
سیم بھائی آپ کی پوسٹ پڑھ کر وہ لطیفہ یاد آ گیا ایک ہیجڑے نے غلطی سے ویاگرا خالی تو فورا اس کے اندر سے آواز ای آپ کو مطلوبہ سہولت میسر نہیں یہ ہزار گز کے منہ والے کا بھی یہی مسلہ ہےاسکو ویاگرا کھلا کر مریم کہ ساتھ کمرے میں بند کر دیا جائے
© Copyrights 2008 - 2025 Siasat.pk - All Rights Reserved. Privacy Policy | Disclaimer|