لوگ کہتے ہیں کہ پاکستانی لوگ اپنے ملک میں ٹریفک قوانین توڑتے ہیں، عوامی مقامات پر تھوکتے اور گندگی پھیلاتے ہیں۔ مگر جب یہی لوگ ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں جاتے ہیں، مثلاً متحدہ عرب امارات اور مغربی ممالک تو وہاں نہ صرف قانون کی پاسداری کرتے ہیں بلکہ مہذب بھی بن جاتے ہیں۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ایک انتہائی بدعنوان اور بدنام ادارہ ہوا کرتا تھا۔ کراچی کے میئر وسیم اختر کی شہرت، متحدہ قومی موومنٹ کے مقامی رہنما کی حیثیت سے بے حد خراب تھی۔ مگر اب؟ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور میئر وسیم اختر شہر کراچی کے مسیحا کے روپ میں سامنے آئے ہیں۔ شہر کراچی کو قانون شکنی، چوری اور غنڈہ گردی کا سرطان لگا ہوا تھا۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ کراچی کی کیمو اور ریڈیو تھیراپی شروع ہوچکی ہے۔ شاہراہیں اور رہائشی علاقے جو ایک بے ہنگم طوفان بدتمیزی کا منظر پیش کیا کرتے تھے، اب منظم اور صاف ستھرے ہونے لگے ہیں۔ تاجروں اور دکان داروں نے شہر کراچی کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی تھی۔ 5 فٹ کی دکان، 8 فٹ مزید آگے بڑھا کے نہ صرف فٹ پاتھوں پر قبضہ کیا ہوا تھا، بلکہ لب سڑک بھی ہضم کرچکے تھے۔
کوئی ان سے پوچھے کیا یہ چوری نہیں؟ کیا یہ ڈاکہ نہیں؟ لمبی ڈاڑھی، اونچی ٹوپی کے اوپر مدنی کا بورڈ، اور کام سرکار مدینہ ﷺ کے خلاف۔
اب آپ بازار نکلیں تو ان کی ہیئت دیکھ کر ہنسی بھی آتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے کہ انسان کتنا بے حس ہوگیا ہے۔ خوف خدا، درد انسانیت سب ختم ہوچکا ہے۔ پیشہ ور بھکاریوں کو خیراتیں دے کر، رمضان کے روزے، عمرہ و حج کر کے ہم سمجھتے ہیں کہ فرض ادا ہوگیا۔ اب ہر چوری اور ہر ڈاکہ حلال ہوگیا ہے۔
میں تہہ دل سے پاکستان کے حقیقی حکمران جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاکستان کے حقیقی وزیراعظم، جسٹس ثاقب نثار کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میں نے اس فورم پر جمہوریت کے حق میں بڑے دلائل دیے ہیں، فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت زبان استعمال کی ہے۔ لیکن حالات و واقعات کا گہرا مشاہدہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جمہوریت پاکستان جیسے ملک کے لیے ٹھیک نہیں۔ جمہوریت اگر ہو تو کنٹرولڈ ہو۔
کیوں کہ یہی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی تھی، یہی وسیم اختر تھے، مگر جمہوری اداروں اور سیاسی جماعتوں نے ان سے اچھے اور فلاح ملت کے کام نہیں لیے، الٹا ان کو کرپٹ اور بد عنوان بنایا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور مرکز میں پاکستان مسلم لیگ (نون) ناکام ہوئی۔
آج پاکستان تحریک انصاف بھی ناکام ہے۔ کامیاب ہوتی تو جسٹس ثاقب نثار اور ان کی عدلیہ فلاح ملت کے کام نہ کروا رہی ہوتی۔
جو کام جمہوری حکومتوں کے کرنے کے ہوتے ہیں، ان کو جوڈیشل مارشل لاء کے ذریعے، پاکستان کے سپہ سالار کے اشارے پر کروایا جارہا ہے۔
میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے متعلق اپنے خیالات تبدیل کرچکا ہوں، تاہم اگر ان کےکسی عمل کو میں آئین و قانون اور ملکی مفاد کے خلاف دیکھوں تو تنقید کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ایک انتہائی بدعنوان اور بدنام ادارہ ہوا کرتا تھا۔ کراچی کے میئر وسیم اختر کی شہرت، متحدہ قومی موومنٹ کے مقامی رہنما کی حیثیت سے بے حد خراب تھی۔ مگر اب؟ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور میئر وسیم اختر شہر کراچی کے مسیحا کے روپ میں سامنے آئے ہیں۔ شہر کراچی کو قانون شکنی، چوری اور غنڈہ گردی کا سرطان لگا ہوا تھا۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ کراچی کی کیمو اور ریڈیو تھیراپی شروع ہوچکی ہے۔ شاہراہیں اور رہائشی علاقے جو ایک بے ہنگم طوفان بدتمیزی کا منظر پیش کیا کرتے تھے، اب منظم اور صاف ستھرے ہونے لگے ہیں۔ تاجروں اور دکان داروں نے شہر کراچی کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی تھی۔ 5 فٹ کی دکان، 8 فٹ مزید آگے بڑھا کے نہ صرف فٹ پاتھوں پر قبضہ کیا ہوا تھا، بلکہ لب سڑک بھی ہضم کرچکے تھے۔
کوئی ان سے پوچھے کیا یہ چوری نہیں؟ کیا یہ ڈاکہ نہیں؟ لمبی ڈاڑھی، اونچی ٹوپی کے اوپر مدنی کا بورڈ، اور کام سرکار مدینہ ﷺ کے خلاف۔
اب آپ بازار نکلیں تو ان کی ہیئت دیکھ کر ہنسی بھی آتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے کہ انسان کتنا بے حس ہوگیا ہے۔ خوف خدا، درد انسانیت سب ختم ہوچکا ہے۔ پیشہ ور بھکاریوں کو خیراتیں دے کر، رمضان کے روزے، عمرہ و حج کر کے ہم سمجھتے ہیں کہ فرض ادا ہوگیا۔ اب ہر چوری اور ہر ڈاکہ حلال ہوگیا ہے۔
میں تہہ دل سے پاکستان کے حقیقی حکمران جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاکستان کے حقیقی وزیراعظم، جسٹس ثاقب نثار کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میں نے اس فورم پر جمہوریت کے حق میں بڑے دلائل دیے ہیں، فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت زبان استعمال کی ہے۔ لیکن حالات و واقعات کا گہرا مشاہدہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جمہوریت پاکستان جیسے ملک کے لیے ٹھیک نہیں۔ جمہوریت اگر ہو تو کنٹرولڈ ہو۔
کیوں کہ یہی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی تھی، یہی وسیم اختر تھے، مگر جمہوری اداروں اور سیاسی جماعتوں نے ان سے اچھے اور فلاح ملت کے کام نہیں لیے، الٹا ان کو کرپٹ اور بد عنوان بنایا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور مرکز میں پاکستان مسلم لیگ (نون) ناکام ہوئی۔
آج پاکستان تحریک انصاف بھی ناکام ہے۔ کامیاب ہوتی تو جسٹس ثاقب نثار اور ان کی عدلیہ فلاح ملت کے کام نہ کروا رہی ہوتی۔
جو کام جمہوری حکومتوں کے کرنے کے ہوتے ہیں، ان کو جوڈیشل مارشل لاء کے ذریعے، پاکستان کے سپہ سالار کے اشارے پر کروایا جارہا ہے۔
میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے متعلق اپنے خیالات تبدیل کرچکا ہوں، تاہم اگر ان کےکسی عمل کو میں آئین و قانون اور ملکی مفاد کے خلاف دیکھوں تو تنقید کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔
- Featured Thumbs
- https://pbs.twimg.com/media/Dmu_GvsXoAYsuPO.jpg