’’حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم کسی غزوہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے۔ فرماتے ہیں : حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے آخری حصہ میں ہمارے ساتھ آرام کے لیے اترے، پس میں رات کے ایک حصے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈتا ہوا آپpbuh کی آرام گاہ کی طرف گیا تو میں نے آپpbuh کو وہاں نہ پایا۔
میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈتا ہوا میدان کی طرف نکل گیا تو ایک اور صحابی کو دیکھا کہ وہ بھی میری طرح آپpbuh کی تلاش میں ہے۔ فرماتے ہیں : ہم اسی حالت میں تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف تشریف لاتے دیکھ کر ہم نے عرض کیا : یارسول اﷲ!pbuh آپpbuh دارالحرب میں ہیں اور ہمیں آپpbuh کی فکر ہے لہذا اگر آپpbuh کو کوئی حاجت پیش آئی تو کیوں نہ آپpbuh نے کسی غلام کو فرمایا کہ وہ آپpbuh کے ساتھ جاتا؟ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے ہوا کی سرسراہٹ یا شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سنی اس اثناء میں میرے رب کی طرف سے آنے والا (جبرائیل وحی لے کر) آیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس نے مجھےpbuh میری تہائی امت (بغير حساب کے) جنت میں داخل کرنے اور شفاعت کے درمیان اختیار دیا؟ تو میںpbuh نے ان کے لیے شفاعت کو اختیار فرما ليا اس لئے کہ مجھےpbuh معلوم ہے کہ وہ ان کے لیے زیادہ وسیع ہے۔ پھر اس نے مجھےpbuh (دوبارہ) میری آدھی امت جنت میں داخل فرمانے اور شفاعت کے درمیان اختیار دیا؟ تو میںpbuh نے ان کے لیے اپنی شفاعت کو اختیار کر ليا اور میںpbuh جانتا ہوں کہ وہ ان کے لیے زیادہ وسعت کی حامل ہے۔ ان دونوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ!pbuh آپ pbuh اﷲ تعالیٰ سے دعاکیجئے کہ وہ ہمیں آپpbuh کی شفاعت کا اہل بنائے۔ آپpbuh نے ان دونوں کے لیے دعا فرمائی پھر انہوں نے (دیگر) صحابہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے بارے میں آگاہ کیا تو وہ آپpbuh کے پاس آنا شروع ہوگئے اور عرض کرنے لگے :
یا رسول اﷲ!pbuh آپpbuh اﷲتعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں آپpbuh کی شفاعت سے نوازے تو آپpbuh نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ جب آپpbuh کے پاس لوگوں کا کثیر جھرمٹ ہوگیا تو آپpbuh صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقیناً وہ شفاعت ہر اس شخص کے لیے ہے جو اس حال میں فوت ہوا کہ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اﷲُ کی گواہی دیتا ہو۔‘‘
اسے امام احمد اور رویانی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 415، الرقم : 19724، والروياني في المسند، 1 / 330، الرقم : 501، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 368.
میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈتا ہوا میدان کی طرف نکل گیا تو ایک اور صحابی کو دیکھا کہ وہ بھی میری طرح آپpbuh کی تلاش میں ہے۔ فرماتے ہیں : ہم اسی حالت میں تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف تشریف لاتے دیکھ کر ہم نے عرض کیا : یارسول اﷲ!pbuh آپpbuh دارالحرب میں ہیں اور ہمیں آپpbuh کی فکر ہے لہذا اگر آپpbuh کو کوئی حاجت پیش آئی تو کیوں نہ آپpbuh نے کسی غلام کو فرمایا کہ وہ آپpbuh کے ساتھ جاتا؟ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے ہوا کی سرسراہٹ یا شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سنی اس اثناء میں میرے رب کی طرف سے آنے والا (جبرائیل وحی لے کر) آیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس نے مجھےpbuh میری تہائی امت (بغير حساب کے) جنت میں داخل کرنے اور شفاعت کے درمیان اختیار دیا؟ تو میںpbuh نے ان کے لیے شفاعت کو اختیار فرما ليا اس لئے کہ مجھےpbuh معلوم ہے کہ وہ ان کے لیے زیادہ وسیع ہے۔ پھر اس نے مجھےpbuh (دوبارہ) میری آدھی امت جنت میں داخل فرمانے اور شفاعت کے درمیان اختیار دیا؟ تو میںpbuh نے ان کے لیے اپنی شفاعت کو اختیار کر ليا اور میںpbuh جانتا ہوں کہ وہ ان کے لیے زیادہ وسعت کی حامل ہے۔ ان دونوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ!pbuh آپ pbuh اﷲ تعالیٰ سے دعاکیجئے کہ وہ ہمیں آپpbuh کی شفاعت کا اہل بنائے۔ آپpbuh نے ان دونوں کے لیے دعا فرمائی پھر انہوں نے (دیگر) صحابہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے بارے میں آگاہ کیا تو وہ آپpbuh کے پاس آنا شروع ہوگئے اور عرض کرنے لگے :
یا رسول اﷲ!pbuh آپpbuh اﷲتعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں آپpbuh کی شفاعت سے نوازے تو آپpbuh نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ جب آپpbuh کے پاس لوگوں کا کثیر جھرمٹ ہوگیا تو آپpbuh صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقیناً وہ شفاعت ہر اس شخص کے لیے ہے جو اس حال میں فوت ہوا کہ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اﷲُ کی گواہی دیتا ہو۔‘‘
اسے امام احمد اور رویانی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 415، الرقم : 19724، والروياني في المسند، 1 / 330، الرقم : 501، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 368.