جمہور پسند
Minister (2k+ posts)
جس ملک میں اقلیت عقلیت پر غالب ہو وہاں زرداری ، نواز شریف ، قائم علی شاہ وغیرہ جیسے حکمران ملک پر قابض رہتے ہے . حکمران دنیا کے کرپٹ ترین لیکن آپس میں شیر و شکر ، بھائی بھائی ، غضب کے صابر- روز گالیا ں اور تنقید کے تیر ان کو چیرتے ہے لیکن تس سے مس نہیں ہوتے - غضب مروت والے جق کی بات کرنے والے ان کے ہیرو لیکن بطور حکمران عوام کے حقوق کی پامالی کرنا ان کا شیوہ بھی
طریقہ واردات بھی الگ الگ - زرداری صاحب چونکہ مافیا اور سنیما کے لین دین سے وابستہ ، لہذا اپنا حصہ لینے میں دیر نہیں کرتے - اپنا حصہ نکالنے کا فن ایسا جیسے کوئی مکھن سے بال نکالتا ہو - یار باش انسان ، بڑے بڑے کاروباری لوگوں سے دوستیاں اور وابستگیاں - پیسے کے پجاری - بقول انصار عباسی کروڑوں سے کم بات ان کے لیے توھین - نظریات اور اصولوں سے کوئی سروکار نہیں - پیسے میں تولنا اور پیسے کا بولنا ان کے پسندیدہ مشاغل
زرداری صاحب کی محفل میں ہر دولت مند انسان صاحب عزت اور ہر اصول پسند ایک بوجھ - دوران حکمرانی قوم کو یقین ہو چلا تھا کہ مصوف ملک چلانے نہیں اس سے انتقام لینے آئے ہے - زرداری صاحب کو عزت اور تنقید سے کوئی سروکار نہیں - بس کام چلتا رہنا چاہئیے
میاں صاحبان کاطریقہ واردات تھوڑا مختلف - لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور سانپ بھی نہ مرے - ان کی نظر معاشرے کے ہر صاحب عزت اور صاحب قدرشخص پر ہوتی ہے - ان کو اپنے طرف راغب کرنے کے حتی الامکان کوشش جاری رہتی ہے - یا تو ان کو اپنے احسانات کے بوجھ تلے دبا دیتے ہے - یا رشتہ داری میں باندھ لیتے ہے یا بھلا کے میزبان بن جاتے ہے - بقول سہیل وڑائچ میاں صاحبان کے دسترخوان پر ایک دفعہ کھانا کھا لو تو پھر تنقید کرنے کو دل نہیں کرتا
یہ زرداری کی طرح اس ہاتھ لو اس ہاتھ دو کی لوٹ مار نہیں کرتے بلکہ ان کے دور حکومت میں ہمیشہ میگا پروجیکٹس کے انبار لگ جاتے ہے - انہی پروجیکٹس کی آڑ میں یہ اپنے کاروبار کو توسیغ دیتے جاتے ہے - میٹرو بس کے سیمنٹ ، سریے اور سٹیل کے کنٹریکٹ اٹھا کر دیکھ لیں ، بہت سے سوالات کے جوابات مل جاتے ہیں - یہ اپنے دوستوں کو بڑے بڑے پروجیکٹس سے نواز دیتے ہے - رشتہ داروں کو بڑی پوسٹوں پر- اوراپنے کاروبار کو نئی بلندیوں پر
ان حکمرانوں نے ملک کی حالت ایسے کر دی ہے کہ اب
یہ جرنیلوں کا قبیلہ ہے یا مداریوں کی منڈلی
کہ ان کے کندھوں کے دونوں جانب بچہ جمورا لکھا ہوا ہے۔
نہ دال دلیہ، نہ دودہ لسی، نہ د ین ہے اور نہ روشنی ہے۔
غریب کے پیٹ پر فقط لفظ ایٹمی دھماکہ لکھا ہوا ہے۔
ان سب کھیل تماشوں اور آنکھ مچولی میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جمہوریت کے گھر میں جمہور نا خوش ہو جاتا ہے اور جمہوریت پسند زیر عتاب آجاتےہیں - ٹرکوں اور بینرز پر جرنیلوں کی تصویرں آویزاں کر دی جاتی ہے " کہ تیری یاد آئے " یا " گھر آجا پردیسی تیرا دیس بلائے رے " . اور جموریت کے حق میں بات کرنا حکومت کو بچانے کے مترادف بن جاتی ہے ہے
بس گزارش اتنی سی کہ ہمارے موجودہ حکمران بے حد کرپٹ - لیکن جب یہ قوم ڈنڈا بردار صدور کو کئی کئی سال تمام تر تباہ کن کارناموں سمیت جھیل سکتی ہے اور ان کے سات خون معاف کرسکتی ہے تو ان کو بھی سہے کیونکہ یہی جمہوریت ان کے چہروں کو عیاں کریں گے اور فیس واش ثابت ہو گی
ہم فراز اور جالب کے مرید تو جمہوریت کو گالی دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ بد ترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے - لیکن جمہوریت کے فروغ کے لیے آواز بلند کرنا اپنا فرض سمجھتے ہے
طریقہ واردات بھی الگ الگ - زرداری صاحب چونکہ مافیا اور سنیما کے لین دین سے وابستہ ، لہذا اپنا حصہ لینے میں دیر نہیں کرتے - اپنا حصہ نکالنے کا فن ایسا جیسے کوئی مکھن سے بال نکالتا ہو - یار باش انسان ، بڑے بڑے کاروباری لوگوں سے دوستیاں اور وابستگیاں - پیسے کے پجاری - بقول انصار عباسی کروڑوں سے کم بات ان کے لیے توھین - نظریات اور اصولوں سے کوئی سروکار نہیں - پیسے میں تولنا اور پیسے کا بولنا ان کے پسندیدہ مشاغل
زرداری صاحب کی محفل میں ہر دولت مند انسان صاحب عزت اور ہر اصول پسند ایک بوجھ - دوران حکمرانی قوم کو یقین ہو چلا تھا کہ مصوف ملک چلانے نہیں اس سے انتقام لینے آئے ہے - زرداری صاحب کو عزت اور تنقید سے کوئی سروکار نہیں - بس کام چلتا رہنا چاہئیے
میاں صاحبان کاطریقہ واردات تھوڑا مختلف - لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور سانپ بھی نہ مرے - ان کی نظر معاشرے کے ہر صاحب عزت اور صاحب قدرشخص پر ہوتی ہے - ان کو اپنے طرف راغب کرنے کے حتی الامکان کوشش جاری رہتی ہے - یا تو ان کو اپنے احسانات کے بوجھ تلے دبا دیتے ہے - یا رشتہ داری میں باندھ لیتے ہے یا بھلا کے میزبان بن جاتے ہے - بقول سہیل وڑائچ میاں صاحبان کے دسترخوان پر ایک دفعہ کھانا کھا لو تو پھر تنقید کرنے کو دل نہیں کرتا
یہ زرداری کی طرح اس ہاتھ لو اس ہاتھ دو کی لوٹ مار نہیں کرتے بلکہ ان کے دور حکومت میں ہمیشہ میگا پروجیکٹس کے انبار لگ جاتے ہے - انہی پروجیکٹس کی آڑ میں یہ اپنے کاروبار کو توسیغ دیتے جاتے ہے - میٹرو بس کے سیمنٹ ، سریے اور سٹیل کے کنٹریکٹ اٹھا کر دیکھ لیں ، بہت سے سوالات کے جوابات مل جاتے ہیں - یہ اپنے دوستوں کو بڑے بڑے پروجیکٹس سے نواز دیتے ہے - رشتہ داروں کو بڑی پوسٹوں پر- اوراپنے کاروبار کو نئی بلندیوں پر
ان حکمرانوں نے ملک کی حالت ایسے کر دی ہے کہ اب
یہ جرنیلوں کا قبیلہ ہے یا مداریوں کی منڈلی
کہ ان کے کندھوں کے دونوں جانب بچہ جمورا لکھا ہوا ہے۔
نہ دال دلیہ، نہ دودہ لسی، نہ د ین ہے اور نہ روشنی ہے۔
غریب کے پیٹ پر فقط لفظ ایٹمی دھماکہ لکھا ہوا ہے۔
ان سب کھیل تماشوں اور آنکھ مچولی میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جمہوریت کے گھر میں جمہور نا خوش ہو جاتا ہے اور جمہوریت پسند زیر عتاب آجاتےہیں - ٹرکوں اور بینرز پر جرنیلوں کی تصویرں آویزاں کر دی جاتی ہے " کہ تیری یاد آئے " یا " گھر آجا پردیسی تیرا دیس بلائے رے " . اور جموریت کے حق میں بات کرنا حکومت کو بچانے کے مترادف بن جاتی ہے ہے
بس گزارش اتنی سی کہ ہمارے موجودہ حکمران بے حد کرپٹ - لیکن جب یہ قوم ڈنڈا بردار صدور کو کئی کئی سال تمام تر تباہ کن کارناموں سمیت جھیل سکتی ہے اور ان کے سات خون معاف کرسکتی ہے تو ان کو بھی سہے کیونکہ یہی جمہوریت ان کے چہروں کو عیاں کریں گے اور فیس واش ثابت ہو گی
ہم فراز اور جالب کے مرید تو جمہوریت کو گالی دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ بد ترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے - لیکن جمہوریت کے فروغ کے لیے آواز بلند کرنا اپنا فرض سمجھتے ہے
Last edited: