"شاید وہ ہمارا منتظر ہو"

ابابیل

Senator (1k+ posts)
11222643_369037536627806_9042072325384011863_n.jpg



رب کی رحمتوں سے مزین اور مرتب، بیش بہا اور گراں مایہ ایام چہار سو جلوہ کناں ہو چکے، ان سعید لمحات میں من حیث المجموع چلن اور روش یہی اپنائی جاتی ہے کہ عبادات کے لئے مساجد میں جگہ تنگ پڑ جاتی ہے، عبادت اور ریاضت کے لئے یہ کشود اور کشاکش اپنی جگہ قابل تحسین ہے، گناہوں کی پوٹ کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے مساجد میں قیام، ماہِ صیام کا پیام ہے، قرآن کی تفہیم کے لئے تراجم اور تفاسیر کو حرزجاں بنا لینا اس ماہِ مقدس کے مقاصد میں شامل ہے، انسانی زندگی میں ان گنت حوالے اور عنوان ہیں جن کے لئے رمضان، ربّ کا احسان بن کر آتا ہے، یہ ماہِ مبارک زندگیوں میں بہت سی رعنائیاں بکھیرنے کے لئے جلوہ افروز ہوتا ہے مگر لوگوں کی اکثریت دیگر لذتوں سے بہت کم آشنائی اختیار کرتی ہے، تعلقات اور معاملات اسلام کا ایسا حصہ ہیں جن سے دین کے ساتھ گہرا لگاؤ رکھنے والے لوگ بھی گریز پائی اور بے پروائی برتتے ہیں، مجھے کہنے دیجئے کہ اعمال کی سطح مرتفع پر فائز لوگوں کو بھی جب معاملات اور تعلقات درست کرنے کی ترغیب دی جائے تو غچہّ دے جاتے ہیں، دراصل لوگوں کی اکثریت اس کو دین سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں، کوئی کثرت مال کے باعث احساسِ تفاخر میں مبتلا ہے تو کوئی اپنے علم پر نازاں، کوئی اپنے حسب و نسب پر اتراتا ہے تو کوئی عہدے اور مقام پر یوں ریجھ بیٹھتا ہے کہ اسے تعلقات کی حساسیت کا احساس تک نہیں رہتا، اگر تعلقات میں تمازت نہ رہے تو عبادت میں ریاضت مفید اور کارگر نہیں ہواکرتی۔

لاریب آگ برساتے سورج تلے انتہائی تپتے اور گرم ماحول میں روزے رکھنا، قیام اللیل کرنا اور صبح شام کے اذکار سے اپنے لبوں کو شاداب رکھنا رب لم یزل کی خوشنودی حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہیں مگر صوم و صلاۃ میں مشغول کتنے ہی لوگوں کے درمیان شکستہ کہانیاں، رشتوں کو مسموم کر رہی ہیں، کتنے ہی لوگوں کے تعلقات زخمی زخمی اور لہولہان ہیں کہ اگر ان مضمحل داستانوں کو دل زیب حقیقتوں میں نہ بدلا گیا، اگر ان رِستے معاملات کے زخمی لب نہ سیے گئے تو پھر آپ یقین کر لیں کہ آپ کی عبادات لاحاصل ہی تو ہیں، میرا اصل مخاطب اور رُوئے سخن دین شناس طبقہ کی سمت ہے جو ہر معاملے میں حدیث رسولﷺ پیش کرتا ہے مگر جب آپس کے معاملات اور تعلقات کی بات آتی ہے تو دلوں پر کوئی حدیث اثرانداز نہیں ہوتی، وہ رعونت کے مرگھٹ پر دم توڑنے کے لئے تو تیار ہو جاتے ہیں مگرناراضی کو ختم کرنے میں پہل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے، تخیلات کی یہ تاریکی اور سیاہی معلوم نہیں کتنے ہی لوگوں کے دلوں اور ذہنوں پر چھائی ہے، اس کہر اور دھندنے پتا نہیں کتنے لوگوں کے درمیان جدائی ڈال رکھی ہے، حالانکہ تعلقات میں خرابی کا باعث بات ہوتی بھی سطحی اور حقیر سی ہے مگر تپتے احساسات کے ریگزاروں پر آبلہ پائی کرتے کرتے تھکتے ہی نہیں اور یہ صحرا نوردی ہوتی ہی کچھ ایسی ہے کہ بالآخر گمھبیر تضاد کو جنم دے کر عناد اور فساد کی ایسی خارزار جھاڑیاں اگا دیتی ہے کہ جو باہم مؤدت اور محبت کو حرف غلط کی طرح مٹا ڈالتی ہے، یہ حقیقت ہے کہ احادیث رسولﷺ کو ہم اپنی جان و دل سے لگا کر رکھتے ہیں مگر کتنی ہی بار میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ جب کوئی صاحب علم کشیدہ خاطر لوگوں کے مابین تعلقات کو ازسرنو استوار کرنے اور اس سلسلے میں پہل کرنے والے کے لئے اجروثواب کے متعلق احادیث سناتا ہے تو پھر ہر دو شخص یہی کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ کیا یہ احادیث صرف میرے لئے ہی ہیں دوسرا فریق ان پر عمل کیوں نہیں کر لیتا؟ احادیث کے حوالے سے اس وقت لوگوں کا ذہن بالکل ہی متضاد رنگ اختیار کر لیتا ہے، باقی تمام احادیث پر ہم عمل کرنے کے لئے مستعد اور تیار ہوتے ہیں یا کم از کم ہم ان احادیث کو اپنی ذات سے جدا نہیں سمجھتے مگر رنجشوں اور تلخیوں کو ختم کرنے میں پہل کرنے کی احادیث کو ہم دوسروں کے لئے رکھ چھوڑتے ہیں۔

تعلقات کو بگاڑنے اور پھر اس کو آدرش بنا لینے والے ذہنی گراوٹ میں مبتلا لوگوں کے لئے میں نے صرف تین احادیث رسولﷺ کا انتخاب محض اس لئے کیا ہے کہ شاید ایک دوسرے سے نالاں دلوں میں محبت کا کوئی رنگ چھلک اٹھے، شاید دو دلوں کے مابین دم توڑتے تعلقات میں کوئی احساس خفیف سی جھرجھری لے لے، شاید ان احادیث کے مطالعے کے بعد رشتوں ناتوں کی گزرگاہوں پر تاک میں بیٹھے قزاق اور سنگلاخ جذبوں میں نرماہٹ کا کوئی در وا ہو جائے، شاید ان احادیث کو دل کی گہرائیوں اور جذبوں کی سچائیوں سے پڑھنے کے بعد کوئی شخص عناد اور فساد کو ختم کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کردے، ممکن ہے کوئی ایک ہی شخص اپنی اس جھوٹی انا کے خول کو اتار پھینکے جس نے رشتوں کو جھلسا ڈالا ہے۔

نبیﷺ نے فرمایا کسی آدمی کے لئے جائز نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی سے تین راتوں سے زیادہ ناراض رہے کہ دونوں راستے میں اگر مل جائیں تو یہ بھی اعراض کرے اور وہ بھی اعراض کرے، ان میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ (بخاری)
نبی مکرمﷺ نے فرمایا کہ مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے اور اس سے ناراض رہے، پس جس شخص نے تین دن سے زیادہ بائیکاٹ کیا اور وہ اس حال میں مر گیا تو وہ آگ میں داخل ہو گا۔ (الادب المفرد)
نبی رحمتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں کے اعمال ہفتے میں دوبار پیر اور جمعرات کے دن اللہ کے ہاں پیش کئے جاتے ہیں تو ہر مومن بندے کو بخش دیا جاتا ہے سوائے اس شخص کے جس کے درمیان اور اس کے بھائی کے درمیان دشمنی اورناراضی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کو چھوڑیں یہاں تک کہ صلح کر لیں۔ (مسلم: 1988)

رمضان المبارک کی سعید ساعتیں پھر سے ہماری زندگیوں میں آ گئی ہیں، ہم پھر سے اپنے نفس کی قربانی دے کر روزے رکھ رہے ہیں،یقیناًیہ مہینہ صبر اور اجر کا ہے، کیا یہی اچھا ہو کہ ہم اپنے نفس کے ساتھ ساتھ اناؤں کو بھی قربان کر کے دم توڑتی امیدوں میں محبتوں کے ایسے چراغ روشن کر لیں جو حسد، بغض اور عناد کی تاریکیوں کو مٹا ڈالے، جو صرف اور صرف محبتوں سے عبارت ہو، جو صرف اور صرف الفتوں کا داعی ہو اور جو صرف اور صرف چاہتوں کو پروان چڑھائے اس لئے کہ ماہِ صیام میں ہر نیکی کا ثواب ستر گنا سے بھی زیادہ ملتا ہے، پس ہم لوٹ آئیں اپنے بھائی کی طرف جس سے ہم کبھی دل و جان سے محبت کیاکرتے تھے، ہم پہل کر لیں اس کی طرف ہاتھ بڑھانے میں۔۔۔ شاید وہ ہمارا منتظر ہو۔۔۔ شاید وہ ہماری راہ دیکھ رہا ہو۔
 
Last edited by a moderator:

Back
Top