Afaq Chaudhry
Chief Minister (5k+ posts)
شاہ زیب قتل: معافی فساد فی الارض
اسلام آباد(خبر ایجنسیاں) چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری نے ریمارکس دیے ہیں کہ قتل پر فی سبیل اللہ معافی فساد فی الارض ہے اس کے ذمہ دار ججز بھی ہیں ‘عدالت کا کام ہے کہ وہ فساد فی الارض کو روکے‘ معمولی بات پر لڑائیاں او قتل پر فی سبیل اللہ معافی ہوجاتی ہے‘ سارا کام اسلام کے نام پر کیا جاتا ہے یہ ایک جرم ہے یہ معاشرے میں اصلاح کا ذریعہ اسی وجہ سے ہم پر عذاب نازل ہوتا ہے قرآنی آیات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے فی سبیل اللہ معافی کو رواج نہیں بنانا چاہیے‘ اسلامی تعلیمات کو نافذ کرنا ہے تو پوری طرح کریں اسلامی تعلیمات کا غلط استعمال ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتا ہے‘ عدالت قتل کے بعد صلح کے معاملہ پر بھرپور فیصلہ دے گی۔
عدالتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سمجھوتے پر آنکھیں بند کرکے نہ بیٹھیں‘ عدالت نے شاہدحامد، اٹارنی جنرل اور چاروں صوبوں کے پراسکیوٹر جنرلز کو حکم دیا ہے کہ وہ قتل کے بعد صلح کے معاملہ پر مشترکہ معروضات پیش کریں۔ چیف جسٹس نے یہ ریمارکس منڈی بہائوالدین کے ایک قتل کے مقدمہ میں صلح کے کیس کی سماعت کے دوران دیے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے کہاکہ قتل کیس میں کہا جاتا ہے کہ فی سبیل اللہ معافی دے دی گئی مگر معاملہ ایسا نہیں ہوتا فی سبیل اللہ معافی دینا بڑا کام ہے مگر اس نام کو غلط طورپر استعمال کیا جاتا ہے یہی لوگ قتل کرتے ہیں پھر فی سبیل اللہ معافی کے نام پر چھپ جاتے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسے بہت سارے سوالات ہیں جنہیں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اگر اسلامی تعلیمات کو نافذ کرنا ہے تو پوری کریں اس قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے ایسے بہت سارے سوالات ہیں جن کو دیکھنے کی ضرورت ہے ‘قتل کے بعد فیصلہ کے بعد صلح کے معاملہ پر سپریم کورٹ بھرپور فیصلہ دے گی۔ عدالتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سمجھوتے پر آنکھیں بند کرکے نہ بیٹھے ‘چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسلامی تعلیمات کو نافذ کرنا ہے تو پوری طرح نافذ کریں اسلامی تعلیمات کا غلط استعمال ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا عذاب ناز ہوتا ہے‘ عدالت کا فرض ہے کہ سمجھوتے کے حقیقی ہونے کا تعین کرے۔
شاہد حامد ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ یورپی یونین کادبائو ہے سزائے موت نہ دی جائے سابق صدر کی جانب سے شاہد اس لیے سزائے موت کو معطل کیا گیا ‘جسٹس جوادخواجہ کا کہنا تھا کہ اس سال امریکی ریاست میں 5افراد کو سزائے موت دی گئی ‘ہمارے ہاں معافی کے قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آنکھیں بند کرکے صلح کرنے کے معاملہ پر کیوں نہ عدالت حکم جاری کردے ‘سپریم کورٹ کی سطح
پر معافی کے مقدمات کو معمولی نہیں لینا چاہیے کئی خاندان مجبورہو کر صلح کرلیتے ہیں
جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ قرآنی تعلیمات کا بھی احترام ہونا چاہیے بااثر افراد اپنے ملزمان کو معاف کروالیتے ہیں۔ جسٹس جواد کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں معافی کے قانون کا غلط استعمال ہوا۔ شاہد حامد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ قتل کے مقدمہ میں معافی کے بجائے قید کی سزا ہونی چاہیے۔ عدالت نے قتل میں صلح کے معاملہ پر اٹارنی جنرل سے رائے طلب کرلی جبکہ چاروں صوبائی پراسکیوٹر جنرلز اور شاہد حامد ایڈووکیٹ سے بھی 23 ستمبر تک رائے طلب کرلی۔ عدالت نے تمام افراد کو قتل کے بعد راضی نامہ کے معاملہ پر مشترکہ قانونی معروضات پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
http://jasarat.com/index.php?date=2013-09-14