Asad Mujtaba
Chief Minister (5k+ posts)
نظام انصاف کا سفر: شاہی محلے سے پورن فلم انڈسٹری تک
تحریر: مطیع اللہ جان
باپ پارٹی کی مثال سے چیف جسٹس فائز عیسی اور جسٹس جمال خان مندوخیل کو گھبراہٹ ہو گئئ کہ جس طرح الیکشن کے بعد اسمبلی کے اندر 2019 میں باپ پارٹی کے قیام کو تسلیم کرتے ہوئے اُسے مخصوص نسشتیں دی گئی تھی اِسی اصول کے تحت پی ٹی آئی (جس نے تو الیکشن بھی لڑا) وہ بھی 2024 کے الیکشن بعد مخصوص نسشتوں کی حقدار ہو جائے گی۔
بنچ کی طرف سے خیبرپختونخوا ایڈوکیٹ جنرل سے مضحکہ خیز سوال کیا گیا جسکے الفاظ کا چناؤ بتاتا ہے کہ ان دو ججز نے پی ٹی آئی کو مخصوص نسشتیں نہ دینے کے لئیے ذہن بنا لیا ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ باپ پارٹی کو ملنے والی نسشتوں پر ججوں کو تجسس ہوتا اور وہ مزید معلومات حاصل کرتے مگر شاید ججز کے دل کی چوری پکڑی گئی اس لئیے پوچھا “آپ نے اُس وقت (2019) میں باپ پارٹی کو ملنے والی نسشتوں کو چیلنج کیوں نہیں کیا؟"
او بھئی معزز ،
پی ٹی آئی تو 2019 میں اس عمل کے حق میں تھی اور آج بھی ہے کہ کسی بھی کمیشن کی تسلیم شدہ سیاسی جماعت کو اگر الیکشن لڑے بغیر بعد میں خصوصی نسشتیں مل سکتی ہیں تو آج پی ٹی آئی کو بھی مل سکتی ہیں، تو ایسے میں وہ باپ پارٹی کو 2019 میں ایسی نسشتیں دینے کو چیلنج کیوں کرتے؟
اور پھر چیف جسٹس کا کہنا کہ باپ پارٹی کی مثال دی تو سینٹ چئیرمین کا الیکشن بھی کھل جائیگا، تو کیا جج صاحب دھمکی لگا رہے ہیں؟ یعنی کہ انہوں نے اپنا ذہن بنا لیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل کو تو باپ پارٹی والی سہولت بلکل ہی نہیں دینی۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن بھی انتہائی بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے باپ پارٹی کو 2019 میں خصوصی نسشتیں دینے کے اپنے فیصلے کو غلط اور غیر قانونی قرار دے کر پشت دکھاتا بھاگ گیا ہے، پھر قاضی صاحب کہتے ہیں الیکشن کمیشن قابل احترام ادارہ ہے۔ ایسے میں سکندر سلطان راجہ اور قاضی فائز عیسی دونوں کا کردار اور سوچ برابر کی قابلِ "احترام" ہے۔
یہ سب کچھ سرِ عام دیکھنے کے بعد خیال آتا ہے کہ عدالتی کاروائی براہ راست دکھائے جانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، کاروائی تو کاروائی ہوتی ہے، اسی طرح لاہور کے شاہی محلے کی چادر اور چاردیواری اور پورن فلم انڈسٹری میں ڈالی جانے والی کاروائیوں میں بھی بنیادی فرق صرف سکرین پر دکھائی دینے یا نہ دینے کا ہوتا ہے۔ انصاف کا شاہی محلہ اب مکمل پورن فلم انڈسٹری بن چکا ہے۔
تحریر: مطیع اللہ جان
باپ پارٹی کی مثال سے چیف جسٹس فائز عیسی اور جسٹس جمال خان مندوخیل کو گھبراہٹ ہو گئئ کہ جس طرح الیکشن کے بعد اسمبلی کے اندر 2019 میں باپ پارٹی کے قیام کو تسلیم کرتے ہوئے اُسے مخصوص نسشتیں دی گئی تھی اِسی اصول کے تحت پی ٹی آئی (جس نے تو الیکشن بھی لڑا) وہ بھی 2024 کے الیکشن بعد مخصوص نسشتوں کی حقدار ہو جائے گی۔
بنچ کی طرف سے خیبرپختونخوا ایڈوکیٹ جنرل سے مضحکہ خیز سوال کیا گیا جسکے الفاظ کا چناؤ بتاتا ہے کہ ان دو ججز نے پی ٹی آئی کو مخصوص نسشتیں نہ دینے کے لئیے ذہن بنا لیا ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ باپ پارٹی کو ملنے والی نسشتوں پر ججوں کو تجسس ہوتا اور وہ مزید معلومات حاصل کرتے مگر شاید ججز کے دل کی چوری پکڑی گئی اس لئیے پوچھا “آپ نے اُس وقت (2019) میں باپ پارٹی کو ملنے والی نسشتوں کو چیلنج کیوں نہیں کیا؟"
او بھئی معزز ،
پی ٹی آئی تو 2019 میں اس عمل کے حق میں تھی اور آج بھی ہے کہ کسی بھی کمیشن کی تسلیم شدہ سیاسی جماعت کو اگر الیکشن لڑے بغیر بعد میں خصوصی نسشتیں مل سکتی ہیں تو آج پی ٹی آئی کو بھی مل سکتی ہیں، تو ایسے میں وہ باپ پارٹی کو 2019 میں ایسی نسشتیں دینے کو چیلنج کیوں کرتے؟
اور پھر چیف جسٹس کا کہنا کہ باپ پارٹی کی مثال دی تو سینٹ چئیرمین کا الیکشن بھی کھل جائیگا، تو کیا جج صاحب دھمکی لگا رہے ہیں؟ یعنی کہ انہوں نے اپنا ذہن بنا لیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل کو تو باپ پارٹی والی سہولت بلکل ہی نہیں دینی۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن بھی انتہائی بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے باپ پارٹی کو 2019 میں خصوصی نسشتیں دینے کے اپنے فیصلے کو غلط اور غیر قانونی قرار دے کر پشت دکھاتا بھاگ گیا ہے، پھر قاضی صاحب کہتے ہیں الیکشن کمیشن قابل احترام ادارہ ہے۔ ایسے میں سکندر سلطان راجہ اور قاضی فائز عیسی دونوں کا کردار اور سوچ برابر کی قابلِ "احترام" ہے۔
یہ سب کچھ سرِ عام دیکھنے کے بعد خیال آتا ہے کہ عدالتی کاروائی براہ راست دکھائے جانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، کاروائی تو کاروائی ہوتی ہے، اسی طرح لاہور کے شاہی محلے کی چادر اور چاردیواری اور پورن فلم انڈسٹری میں ڈالی جانے والی کاروائیوں میں بھی بنیادی فرق صرف سکرین پر دکھائی دینے یا نہ دینے کا ہوتا ہے۔ انصاف کا شاہی محلہ اب مکمل پورن فلم انڈسٹری بن چکا ہے۔