پچھلے پندرہ سال میں قدرتی گیس کی قیمت زیادہ تر ۲ سے چار ڈالر اور برینٹ آئل کی قیمت ۵۰ سے ستر ڈالر فی گیلن کے درمیان رہی۔کبھی کبھی مارکیٹ کنڈیشنر کی وجہ سے یہ قیمت دو سے چار مہینے اپنی بریکٹ سے نکلتی ہیں لیکن واپس آجاتی ہے، آج کل بھی کرونا کی وجہ سے قدرتی گیس ۱،۸۰ ڈالر اور برینٹ آئل ۲۵ سے تیس ڈالر کے درمیان ہے۔
دوہزار سولہ میں تیل کی قیمت ۱۵ سال کی کم ترین سطح پر گری تو قطر نے قدرتی گیس کی قمیت کو خام تیل سے نتھی کرکے لانگ ٹرم معاہدے کرنے چاہے ۔ ایک سیلز مین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنا منافع بڑھائے۔ ان کی نظر میں تھا کہ آئل کی قمیت دوبارہ اوپر جائے گی تو فائدہ ہوگا۔ ان کی خوش قسمتی کہ پاکستان میں رینٹ پر ملنے والی اقامہ شدہ قیادت تھی۔
پاکستان نے برینٹ آئل کے ۱۳،۳۷ فی صد پر معاہدہ کرلیا۔اسوقت خام تیل کی قیمت ۳۵ سے ۴۰ ڈالر پر بھی یہ معاہدہ قدرتی گیس کے پندرہ سالہ ٹرینڈ سے اوسطا ۵۰ فی صد مہنگا تھا۔کونسا خریدار ایسا معاہدہ کرے گا۔
پھر جیسے جیسے آئل مہنگا ہوتا گیا، یہ معاہدہ مزید مہنگا ہوتا گیا۔ آج خام تیل کی قیمت پھر گری ہے تو جائزہ لیتے کیا یہ معاہدے تیل کی کم قیمتوں پر سود مند ہیں تو جواب پھر بھی مکمل نفی میں ہے۔ آج جب تیل کی قیمت تقریبا بیس سال کی کم ترین سطح پر ہے تو بھی پاکستان کو خام قدرتی گیس ۴ ڈالر پر پڑرہی ہے جبکہ اسکی کی مارکیٹ پرائس ۲ ڈالر سے کہیں نیچے ہے،
یعنی یہ معاہدہ تیل کی کم ترین سطح پر بھی تقریبا دوگنا مہنگا ہے۔ اس تحریر کے ساتھ دیئے گئے گراف میں سے سرخ لائن وہ ہے اگر پاکستان نے معاہدہ نہ کیا ہوتا اور سبز لائن وہ قیمت ہے جو پاکستان ادا کررہا ہے۔
اس حساب سے پاکستان جو تقریبا ۳ ارب ڈالر سالانہ کی گیس خریدتا ہے تو ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہے اور یہ بھی اسوقت جب تیل ۳۰ ڈالر کے پاس ہو۔ مزے کی بات ہے انہی معاہدوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ پاکستان ان معاہدوں پر پارلیمنٹ میں بحث نہیں کرسکتا اور نہ ہی انہیں اپنی عوام کو دکھا سکتا ہے
ایسے وارداتیے ہیں، کہ جب شاہد خاقان سے کہا جاتا ہے کہ گیس مہنگی لی ہے تو کہتا ہے جتنی بھی مہنگی ہو تیل سے سستی پڑتی ہے۔ یہی نہیں، ایل این جی ٹرمینل لگائے گئے جن میں نام نہاد ڈیلی چارجز ۱۸۰ ملین ڈالر سالانہ شامل کئے گئے۔ شاہد خاقان عباسی ٹی وی پر آکر کہتا رہا کہ ایل این جی ٹرمینلز ڈیلی چارجز کے بغیر نہیں لگائے جاسکتے۔ موجودہ حکومت میں تین ایل این جی ٹرمینلز لگائے جارہے ہیں جن میں ڈیلی چارجز نہیں ہیںَ
یہ تو ایک کہانی ہے، ایسے ہی معاہدے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ ہیں۔ ڈیلی چارجز ہیں۔ بلیک میلنگ ہے کہ معاہدوں پر نظر ثانی نہیں کی جاسکتی۔ پاکستان کو پوری طرح سے باندھا ہوا ہے۔
سالانہ بیس ارب ڈالر کرنٹ اکاونٹ کا خسارہ جس سے پاکستان کو امپورٹڈ اشیا کی تجارت میں دھکیل کر جی ڈی پی گروتھ لائی گئی، ٹیکسٹائل کو گھونٹ کر چینی کی انڈسٹری کو ترقی دی گئی ۔کوئی ایسا مین رہنما نہیں جس نے منی لانڈرنگ نہ کی ہو۔ کوئی پندرہ بیس آٹے ، چینی ، پیڑول کے بحران اس کے علاوہ ہیں۔ بڑی معصومیت سے کہہ رہے ہیں سب کچھ بھول بھال کر حکومت ہمیں دوبارہ دے دی جائے۔
یہاں پر دیئے گئے تمام کوائف انٹرنیٹ پر دس منٹ لگاکر ڈھونڈے جاسکتے ہیں
۔ اگر آپ کو پتہ ہو کہ کرنا کیا ہے۔ ایک مثال یہ ہے
دوہزار سولہ میں تیل کی قیمت ۱۵ سال کی کم ترین سطح پر گری تو قطر نے قدرتی گیس کی قمیت کو خام تیل سے نتھی کرکے لانگ ٹرم معاہدے کرنے چاہے ۔ ایک سیلز مین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنا منافع بڑھائے۔ ان کی نظر میں تھا کہ آئل کی قمیت دوبارہ اوپر جائے گی تو فائدہ ہوگا۔ ان کی خوش قسمتی کہ پاکستان میں رینٹ پر ملنے والی اقامہ شدہ قیادت تھی۔
پاکستان نے برینٹ آئل کے ۱۳،۳۷ فی صد پر معاہدہ کرلیا۔اسوقت خام تیل کی قیمت ۳۵ سے ۴۰ ڈالر پر بھی یہ معاہدہ قدرتی گیس کے پندرہ سالہ ٹرینڈ سے اوسطا ۵۰ فی صد مہنگا تھا۔کونسا خریدار ایسا معاہدہ کرے گا۔
پھر جیسے جیسے آئل مہنگا ہوتا گیا، یہ معاہدہ مزید مہنگا ہوتا گیا۔ آج خام تیل کی قیمت پھر گری ہے تو جائزہ لیتے کیا یہ معاہدے تیل کی کم قیمتوں پر سود مند ہیں تو جواب پھر بھی مکمل نفی میں ہے۔ آج جب تیل کی قیمت تقریبا بیس سال کی کم ترین سطح پر ہے تو بھی پاکستان کو خام قدرتی گیس ۴ ڈالر پر پڑرہی ہے جبکہ اسکی کی مارکیٹ پرائس ۲ ڈالر سے کہیں نیچے ہے،
یعنی یہ معاہدہ تیل کی کم ترین سطح پر بھی تقریبا دوگنا مہنگا ہے۔ اس تحریر کے ساتھ دیئے گئے گراف میں سے سرخ لائن وہ ہے اگر پاکستان نے معاہدہ نہ کیا ہوتا اور سبز لائن وہ قیمت ہے جو پاکستان ادا کررہا ہے۔
اس حساب سے پاکستان جو تقریبا ۳ ارب ڈالر سالانہ کی گیس خریدتا ہے تو ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہے اور یہ بھی اسوقت جب تیل ۳۰ ڈالر کے پاس ہو۔ مزے کی بات ہے انہی معاہدوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ پاکستان ان معاہدوں پر پارلیمنٹ میں بحث نہیں کرسکتا اور نہ ہی انہیں اپنی عوام کو دکھا سکتا ہے
ایسے وارداتیے ہیں، کہ جب شاہد خاقان سے کہا جاتا ہے کہ گیس مہنگی لی ہے تو کہتا ہے جتنی بھی مہنگی ہو تیل سے سستی پڑتی ہے۔ یہی نہیں، ایل این جی ٹرمینل لگائے گئے جن میں نام نہاد ڈیلی چارجز ۱۸۰ ملین ڈالر سالانہ شامل کئے گئے۔ شاہد خاقان عباسی ٹی وی پر آکر کہتا رہا کہ ایل این جی ٹرمینلز ڈیلی چارجز کے بغیر نہیں لگائے جاسکتے۔ موجودہ حکومت میں تین ایل این جی ٹرمینلز لگائے جارہے ہیں جن میں ڈیلی چارجز نہیں ہیںَ
یہ تو ایک کہانی ہے، ایسے ہی معاہدے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ ہیں۔ ڈیلی چارجز ہیں۔ بلیک میلنگ ہے کہ معاہدوں پر نظر ثانی نہیں کی جاسکتی۔ پاکستان کو پوری طرح سے باندھا ہوا ہے۔
سالانہ بیس ارب ڈالر کرنٹ اکاونٹ کا خسارہ جس سے پاکستان کو امپورٹڈ اشیا کی تجارت میں دھکیل کر جی ڈی پی گروتھ لائی گئی، ٹیکسٹائل کو گھونٹ کر چینی کی انڈسٹری کو ترقی دی گئی ۔کوئی ایسا مین رہنما نہیں جس نے منی لانڈرنگ نہ کی ہو۔ کوئی پندرہ بیس آٹے ، چینی ، پیڑول کے بحران اس کے علاوہ ہیں۔ بڑی معصومیت سے کہہ رہے ہیں سب کچھ بھول بھال کر حکومت ہمیں دوبارہ دے دی جائے۔
یہاں پر دیئے گئے تمام کوائف انٹرنیٹ پر دس منٹ لگاکر ڈھونڈے جاسکتے ہیں