*** شاندار اور قابل فخر موت ******
حافظ سیف اللہ عمر 17 سال نے بیسویں روزے کی شام اورنگی ٹاؤن کراچی میں اپنے محلے کی مسجدِ غوثیہ میں اعتکاف کے لیئے اہلخانہ کو خدا حافظ کہا ۔۔۔۔۔۔
معصوم اور نوعمر حافظ صفی اللہ مسجد غوثیہ میں بطور سامع تراویح سننے پر بھی معمور تھا۔۔۔۔۔
حافظ سیف اللہ نے کئی بار درخواست کی کہ اسے بطورِ امام تراویح پڑھانے کا موقع دیا جائے لیکن کم عمری کے باعث مسجد انتظامیہ نے زیادہ سنجیدگی سے نہ لیا اور اجتناب برتا ۔۔۔۔۔۔
لیکن بیسویں روزے کی شب وہ بہت بیقرار تھا کہ آج اسے طاق شب میں تراویح پڑھانے کا موقع ضرور دیا جائے ۔۔۔
اسکی ضد اور اصرار کو دیکھتے ہوئے آخری چار تراویح پڑھانے کی اجازت دے دی گئی ۔۔۔۔۔
فخر و مسرت کے جذبات سے لبریز صفی اللہ نے چار رکعات بڑے دلنشیں و دلگداز انداز میں پڑھائیں ۔۔۔۔۔
آخری رکعت پڑھاتے ہوئے جب التحیات میں بیٹھا تو اس سے سلام نہ پھیرا گیا ۔۔۔۔۔۔
اللہ اکبر ۔۔۔ اللہ اکبر ۔۔۔۔۔ اللہ اکبر
اتحیات کی حالت میں حافظ صفی اللہ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی ۔۔۔۔۔
عین پیچھے بیٹھا باپ شفاعت اللہ اور دیگر تمام نمازی کچھ دیر سلام کے منتظر رہے مگر زیادہ وقت گزرنے پر مقتدیوں نے اپنے طور پہ سلام پھیرا اور اس مختصر وقت کے امام کی جانب بڑھے۔۔۔۔۔۔
لیکن اللہ کا یہ نیک اور پیارا سا حافظِ قرآن حالتِ اعتکاف اور حالتِ نماز میں اور وہ بھی امامت کی اعلیٰ ترین حالت میں اپنے رب کے حضور سلام پیش کرنے روانہ ھوچکا تھا ۔۔۔۔
اکیسویں روزے کو یوم علی کے دن مرحوم کی تدفین فجر کے بعد پاپوشنگر قبرستان میں کردی گئی ۔۔۔۔۔
اس قدر جلد تدفین کے باوجود اس عاشق قرآن کے جنازے میں عوام نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور تدفین مکمل ھونے تک فضاء درود و سلام کی فضاؤں سے گونجتی رھی ۔۔۔۔۔