Afaq Chaudhry
Chief Minister (5k+ posts)
مسعود انور
افغانستان کے لیے ناٹو کی سپلائی کھلتے ہی ان ناٹو افواج نے شکرگزاری کا پہلا مظاہرہ سپلائی کھلنے کے دوسرے دن ہی شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں ڈرون حملے کی صورت میں کیا۔ سب سے پہلے حملہ ایک مکان پر کیا گیا جس میں بارہ افراد شہید ہوئے ۔ اس حملے کے بعد آس پاس کے افراد امدادی کارروائیوںمیں مصروف تھے کہ دوسرا اور پھر تیسرا حملہ کردیا گیا۔ ان حملوں میں مزید دس افراد شہید ہوگئے۔ اس طرح ایک ہی دن میں ان ہلاکتوں کی تعداد بائیس ہوگئی۔ ایک مرتبہ پھر امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی خبر رساں ایجنسیوں نے الزام لگایا ہے کہ مذکورہ کمپاؤنڈ جس پر حملہ کیا گیا، القاعدہ اور طالبان کے زیر استعمال تھا۔پاکستان میں ڈرون حملے کوئی نئی بات نہیں ۔ سب سے پہلے ان کا استعمال لبنان و فلسطین میں موجود حماس کی قیادت کے خاتمہ کیے لیے کیا گیا تھا۔ اب یہ وبا پاکستان کے ساتھ ساتھ یمن اور صومالیہ تک جاپہنچی ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک پاکستان، یمن اور صومالیہ میں بغیر پائلٹوں کے یہ چھوٹے طیارے بے دریغ استعمال کررہے ہیں اور اس کے نتیجے میں (ان کے مطابق) القاعدہ اور اس سے منسلک تنظیموں کی قیادت کے نشانہ وار خاتمے میں مدد ملی ہے۔ اس تمام صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ امریکا کے نزدیک القاعدہ کی نہ صرف قیادت بلکہ پوری تنظیم ہی قابل گردن زدنی ہے اور یہی کرہ ارض پر فساد کی جڑ ہے، اس مسئلہ کا واحد حل یہی ہے کہ جب اور جیسے بھی ممکن ہو اس تنظیم سے منسلک افراد کو اڑادیا جائے۔ اس لیے تمام ممالک کی خود مختاری کو ایک طرف رکھا جائے اورالقائدہ کی سرکوبی کو ایک طرف۔ پاکستانی عوام کس کھیت کی مولی ہیں کہ ان کے جذبات کا خیال رکھا جائے مگر اس کی پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد بھی اس کو ڈرون حملوں سے نہیں بچاسکتی۔ یہ وہ رویہ ہے جو عمومی طور پر ہم کو نظر آتا ہے۔ مگر کیا القائدہ اور امریکا و اتحادی ممالک کے درمیان صرف یہی ایک نفرت و دشمنی کا رشتہ ہے۔ بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے مگر لیبیا و شام کی طرف چلیں تو ہم کو صورتحال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ یہاں پر نفرت کا یہ رشتہ ہم کو محبت کے اسی رشتہ میں تبدیل ہوتا نظر آتا ہے جو روس کی پسپائی سے قبل افغانستان میں تھا۔ یہاں پر امریکا و القاعدہ کی قیادت باہم شیر و شکر نظر آتی ہے۔ امریکی ایجنڈا ہے اور اس کی تکمیل کے لیے سرگرداں القاعدہ قیادت۔ امریکی اسلحہ ہے اور اس کے لئے کندھا پیش کرنے والی القاعدہ کی نفری موجود ہے۔ لیبیا میں قذافی حکومت کے خاتمے کے لیے بھی ناٹو ممالک کو لیبیا میں سے وہ نفری نہیں مل پائی تھی جو ان کا کام کرسکے۔ قذافی کے مخالف چند قبیلے ضرور موجود تھے مگر وہ اس قابل نہیں تھے کہ قذافی کی تربیت یافتہ فوج کا مقابلہ کرپاتے۔ نہ تو یہ ٹینک شکن میزائل فائر کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور نہ ہی بھاری توپخانے کا استعمال جانتے تھے۔ اس کے لیے عربی زبان بولنے والے تربیت یافتہ مسلمانوں کی ضرورت تھی سو یہ ضرورت القاعدہ کی نفری نے پوری کردی۔ اب شام میں بھی یہی صورتحال درپیش ہے۔ اردن اور ترکی سے ملحقہ سرحدی علاقوں کے علاوہ ناٹو اور اس کے تمام تر اتحادی و رکن ممالک جن میں عرب لیگ کی تنظیم ، سعودی عرب، قطر، اردن اور ترکی پیش پیش ہیں، کی تمام تر کوششوں کے علاوہ اور کہیں پر بھی فساد کی صورت نہیں بن سکی ہے۔البتہ اردن اور ترکی کی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں وہ صورت بن چکی ہے جس کا ادراک پاکستان کے قبائلی علاقوںاور بلوچستان سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ اہل کراچی بہ خوبی کرسکتے ہیں۔ پاکستان کے ان علاقوں پر مختلف گروہوں کا کنٹرول ہے اور ان کا ہی سکہ چلتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے قومی ترانے پر پابندی تو اس کا مطلب ہے پابندی۔ قبائلی علاقے میں اسلام کے نام پر، بلوچستان میں قومیت کے نام پر اور کراچی میں تنظیم کے نام پر ساری جانیں حلال ہیں۔ کراچی میں حکم آجاتا ہے کہ کاروبار بند تو اس پر ایسا عمل درآمد کرایا جاتا ہے کہ محلے میں پان کی دکان بھی بند ہوتی ہے۔ بلوچستان میں کہا جاتا ہے کہ پوسٹ آفس اور بنک نہیں کھلیں گے تو تین تین دن تک یہ نہیں کھلتے۔ ان تمام علاقوں میں ایک اور قدر مشترک ہے اور وہ ہے غداری کے نام پر جس کو جہاں چاہے اور جیسے چاہے قتل کردیا جائے اور اس کا الزام چاہے جس پر دھردیا جائے۔ مجال ہے کہ کوئی اف کرسکے۔ حتیٰ کہ مقتول کے گھر والے بھی ڈرکے مارے وہی زبان بولتے ہیں جو قاتل کی زبان ہوتی ہے۔ یہی صورتحال ہم کو لیبیا میں نظر آئی۔ وہاں پر باغیوں نے لوٹ مار، اغوا ، قتل و غارت گری کے علاوہ آبرو ریزی کا وہ بازار گرم کیا کہ الامان الحفیظ، مگر کسی کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا۔ اب یہی صورتحال ہم کو شام میں نظر آتی ہے ۔ ایک ہی دن میں شام کی فوج کے 23 اہلکاروں کو بے دردی سے قتل کردیا جاتا ہے ، ٹینکوں کو تباہ کیا جارہا ہے، غداری کے الزام میں پورے کے پورے خاندان کو شدید ایذائیں دے کر سر عام قتل کیا جارہا ہے، مگر اس پر سب مہر بہ لب ہیں۔ بات کہیں کی کہیں نکل گئی۔ بات یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ افغانستان، پاکستان، یمن اور صومالیہ وغیرہ کے برخلاف شام و لیبیا میں امریکا و ناٹو کے ساتھ القاعدہ ہنی مون مناتی نظر آتی ہے۔ یہاں پر حیرت انگیز طور پر کئی سوال اٹھتے ہیں جن کے جواب میں ہی اصل کہانی پوشیدہ ہے۔ اگر کھیل کے اس نئے دور میں القاعدہ شام و ایران میں امریکا اور اس کے حواریوں کے لئے ناگزیر ہے تو وہ دیگر ممالک میں اپنے ساتھیوں کے لئے امان کیوں طلب نہیں کرتی۔ وہ کیوں مطالبہ نہیں کرتی کہ اس کو بھی Most fvourite nation کی اصطلاح کے عین مطابق سب سے زیادہ چہیتے کا درجہ دیا جائے۔ اور اگر اس کے سینگ امریکا و اتحادیوں کے ساتھ اڑے ہوئے ہیں تو پھر وہ ان ممالک میں کیوں اپنا کندھا پیش کررہی ہے۔ ایک اور سوال، یہ طالبان و القاعدہ کے پاس اتنا بے دریغ اسلحہ و مالی وسائل کہاں سے آتے ہیں۔ اگر یہ اسلحہ بلیک مارکیٹ سے خریدا جاتا ہے جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے تو پھر بھی اتنے لامتناہی فنڈز۔ نہیں جناب یہ عرب اور دیگر مسلمانوں کے پاس نہ تو اتنے لامتناہی فنڈز ہیں اور نہ ہی ان کی ترسیل کو کوئی ذریعہ۔ ذرا سی کویت جنگ میں ساری عرب ریاستیں مقروض ہوگئی تھیںتو یہ لامتناہی سپلائی۔ اس کے علاوہ ذرا ان عالمی سازش کاروں کی مرضی کے بغیر مجھے کوئی ایک ڈالرکی تو ٹرانزیکشن کرکے دکھادے۔ لوگ کچھ بھی دعویٰ کریں، جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ قطعی طور پر ناممکن ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ان سوالات کے جواب میں ہی اصل کہانی پوشیدہ ہے۔ ان سازشیوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔
افغانستان کے لیے ناٹو کی سپلائی کھلتے ہی ان ناٹو افواج نے شکرگزاری کا پہلا مظاہرہ سپلائی کھلنے کے دوسرے دن ہی شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں ڈرون حملے کی صورت میں کیا۔ سب سے پہلے حملہ ایک مکان پر کیا گیا جس میں بارہ افراد شہید ہوئے ۔ اس حملے کے بعد آس پاس کے افراد امدادی کارروائیوںمیں مصروف تھے کہ دوسرا اور پھر تیسرا حملہ کردیا گیا۔ ان حملوں میں مزید دس افراد شہید ہوگئے۔ اس طرح ایک ہی دن میں ان ہلاکتوں کی تعداد بائیس ہوگئی۔ ایک مرتبہ پھر امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی خبر رساں ایجنسیوں نے الزام لگایا ہے کہ مذکورہ کمپاؤنڈ جس پر حملہ کیا گیا، القاعدہ اور طالبان کے زیر استعمال تھا۔پاکستان میں ڈرون حملے کوئی نئی بات نہیں ۔ سب سے پہلے ان کا استعمال لبنان و فلسطین میں موجود حماس کی قیادت کے خاتمہ کیے لیے کیا گیا تھا۔ اب یہ وبا پاکستان کے ساتھ ساتھ یمن اور صومالیہ تک جاپہنچی ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک پاکستان، یمن اور صومالیہ میں بغیر پائلٹوں کے یہ چھوٹے طیارے بے دریغ استعمال کررہے ہیں اور اس کے نتیجے میں (ان کے مطابق) القاعدہ اور اس سے منسلک تنظیموں کی قیادت کے نشانہ وار خاتمے میں مدد ملی ہے۔ اس تمام صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ امریکا کے نزدیک القاعدہ کی نہ صرف قیادت بلکہ پوری تنظیم ہی قابل گردن زدنی ہے اور یہی کرہ ارض پر فساد کی جڑ ہے، اس مسئلہ کا واحد حل یہی ہے کہ جب اور جیسے بھی ممکن ہو اس تنظیم سے منسلک افراد کو اڑادیا جائے۔ اس لیے تمام ممالک کی خود مختاری کو ایک طرف رکھا جائے اورالقائدہ کی سرکوبی کو ایک طرف۔ پاکستانی عوام کس کھیت کی مولی ہیں کہ ان کے جذبات کا خیال رکھا جائے مگر اس کی پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد بھی اس کو ڈرون حملوں سے نہیں بچاسکتی۔ یہ وہ رویہ ہے جو عمومی طور پر ہم کو نظر آتا ہے۔ مگر کیا القائدہ اور امریکا و اتحادی ممالک کے درمیان صرف یہی ایک نفرت و دشمنی کا رشتہ ہے۔ بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے مگر لیبیا و شام کی طرف چلیں تو ہم کو صورتحال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ یہاں پر نفرت کا یہ رشتہ ہم کو محبت کے اسی رشتہ میں تبدیل ہوتا نظر آتا ہے جو روس کی پسپائی سے قبل افغانستان میں تھا۔ یہاں پر امریکا و القاعدہ کی قیادت باہم شیر و شکر نظر آتی ہے۔ امریکی ایجنڈا ہے اور اس کی تکمیل کے لیے سرگرداں القاعدہ قیادت۔ امریکی اسلحہ ہے اور اس کے لئے کندھا پیش کرنے والی القاعدہ کی نفری موجود ہے۔ لیبیا میں قذافی حکومت کے خاتمے کے لیے بھی ناٹو ممالک کو لیبیا میں سے وہ نفری نہیں مل پائی تھی جو ان کا کام کرسکے۔ قذافی کے مخالف چند قبیلے ضرور موجود تھے مگر وہ اس قابل نہیں تھے کہ قذافی کی تربیت یافتہ فوج کا مقابلہ کرپاتے۔ نہ تو یہ ٹینک شکن میزائل فائر کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور نہ ہی بھاری توپخانے کا استعمال جانتے تھے۔ اس کے لیے عربی زبان بولنے والے تربیت یافتہ مسلمانوں کی ضرورت تھی سو یہ ضرورت القاعدہ کی نفری نے پوری کردی۔ اب شام میں بھی یہی صورتحال درپیش ہے۔ اردن اور ترکی سے ملحقہ سرحدی علاقوں کے علاوہ ناٹو اور اس کے تمام تر اتحادی و رکن ممالک جن میں عرب لیگ کی تنظیم ، سعودی عرب، قطر، اردن اور ترکی پیش پیش ہیں، کی تمام تر کوششوں کے علاوہ اور کہیں پر بھی فساد کی صورت نہیں بن سکی ہے۔البتہ اردن اور ترکی کی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں وہ صورت بن چکی ہے جس کا ادراک پاکستان کے قبائلی علاقوںاور بلوچستان سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ اہل کراچی بہ خوبی کرسکتے ہیں۔ پاکستان کے ان علاقوں پر مختلف گروہوں کا کنٹرول ہے اور ان کا ہی سکہ چلتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے قومی ترانے پر پابندی تو اس کا مطلب ہے پابندی۔ قبائلی علاقے میں اسلام کے نام پر، بلوچستان میں قومیت کے نام پر اور کراچی میں تنظیم کے نام پر ساری جانیں حلال ہیں۔ کراچی میں حکم آجاتا ہے کہ کاروبار بند تو اس پر ایسا عمل درآمد کرایا جاتا ہے کہ محلے میں پان کی دکان بھی بند ہوتی ہے۔ بلوچستان میں کہا جاتا ہے کہ پوسٹ آفس اور بنک نہیں کھلیں گے تو تین تین دن تک یہ نہیں کھلتے۔ ان تمام علاقوں میں ایک اور قدر مشترک ہے اور وہ ہے غداری کے نام پر جس کو جہاں چاہے اور جیسے چاہے قتل کردیا جائے اور اس کا الزام چاہے جس پر دھردیا جائے۔ مجال ہے کہ کوئی اف کرسکے۔ حتیٰ کہ مقتول کے گھر والے بھی ڈرکے مارے وہی زبان بولتے ہیں جو قاتل کی زبان ہوتی ہے۔ یہی صورتحال ہم کو لیبیا میں نظر آئی۔ وہاں پر باغیوں نے لوٹ مار، اغوا ، قتل و غارت گری کے علاوہ آبرو ریزی کا وہ بازار گرم کیا کہ الامان الحفیظ، مگر کسی کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا۔ اب یہی صورتحال ہم کو شام میں نظر آتی ہے ۔ ایک ہی دن میں شام کی فوج کے 23 اہلکاروں کو بے دردی سے قتل کردیا جاتا ہے ، ٹینکوں کو تباہ کیا جارہا ہے، غداری کے الزام میں پورے کے پورے خاندان کو شدید ایذائیں دے کر سر عام قتل کیا جارہا ہے، مگر اس پر سب مہر بہ لب ہیں۔ بات کہیں کی کہیں نکل گئی۔ بات یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ افغانستان، پاکستان، یمن اور صومالیہ وغیرہ کے برخلاف شام و لیبیا میں امریکا و ناٹو کے ساتھ القاعدہ ہنی مون مناتی نظر آتی ہے۔ یہاں پر حیرت انگیز طور پر کئی سوال اٹھتے ہیں جن کے جواب میں ہی اصل کہانی پوشیدہ ہے۔ اگر کھیل کے اس نئے دور میں القاعدہ شام و ایران میں امریکا اور اس کے حواریوں کے لئے ناگزیر ہے تو وہ دیگر ممالک میں اپنے ساتھیوں کے لئے امان کیوں طلب نہیں کرتی۔ وہ کیوں مطالبہ نہیں کرتی کہ اس کو بھی Most fvourite nation کی اصطلاح کے عین مطابق سب سے زیادہ چہیتے کا درجہ دیا جائے۔ اور اگر اس کے سینگ امریکا و اتحادیوں کے ساتھ اڑے ہوئے ہیں تو پھر وہ ان ممالک میں کیوں اپنا کندھا پیش کررہی ہے۔ ایک اور سوال، یہ طالبان و القاعدہ کے پاس اتنا بے دریغ اسلحہ و مالی وسائل کہاں سے آتے ہیں۔ اگر یہ اسلحہ بلیک مارکیٹ سے خریدا جاتا ہے جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے تو پھر بھی اتنے لامتناہی فنڈز۔ نہیں جناب یہ عرب اور دیگر مسلمانوں کے پاس نہ تو اتنے لامتناہی فنڈز ہیں اور نہ ہی ان کی ترسیل کو کوئی ذریعہ۔ ذرا سی کویت جنگ میں ساری عرب ریاستیں مقروض ہوگئی تھیںتو یہ لامتناہی سپلائی۔ اس کے علاوہ ذرا ان عالمی سازش کاروں کی مرضی کے بغیر مجھے کوئی ایک ڈالرکی تو ٹرانزیکشن کرکے دکھادے۔ لوگ کچھ بھی دعویٰ کریں، جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ قطعی طور پر ناممکن ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ان سوالات کے جواب میں ہی اصل کہانی پوشیدہ ہے۔ ان سازشیوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔
http://www.jasarat.com/epaper/index.php?page=03&date=2012-07-09