شاعر مشرق کا یوم پیدائش، تہران کی سڑکوں پر پوسٹرز سج گئے

M A Malik

Moderator
Staff member
Siasat.pk Web Desk
MsDZ8748og.jpg

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے یوم پیدائش کے موقع پر ایران کے دارالحکومت تہران میں علامہ اقبال کی تصاویر والے بڑے بڑے پوسٹرز آویزاں کردیئے گئے، ان پوسٹرز پر نا صرف علاقہ اقبال کی تصاویر موجود ہیں بلکہ ان کی فارسی زبان میں کی گئی گفتگو
کے اقتسابات بھی پرنٹ کیے گئے ہیں۔

شاعر مشرق کے یومِ پیدائشں پر تہران کی سڑکیں علامہ اقبال کی تصویروں سے سج گئیں، ڈاکٹر صاحب کی فارسی شاعری بھی ادب کی معراج ہے۔
https://twitter.com/x/status/1855230892219748563
ایران کے دارالحکومت تہران کی سڑکوں پر شاعر مشرق علامہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ https://twitter.com/x/status/1855230881792766115
 

Wadaich

Prime Minister (20k+ posts)
Iqbal is centuries ahead of his times. A source of inspiration for the generations to come. The blessed are those who follow his message.
 

Bani Adam

Senator (1k+ posts)
ماشا الله. اہل ایران کی علامہ اقبال سے بہت پرانی عقیدت ہے. ان بینرز میں علامہ اقبال کے تین نایاب فارسی اشعار کا انتخاب کیا گیا ہے. (افسوس، ہم تو اب اردو صحیح لکھنا پڑھنا بھول گئے، فارسی عربی کیا پڑھیں گے)

اگر اوپر تصاویر میں نظر انداز ہو گئے ہوں تو یہ تین اشعار یہاں دوبارہ تحریر ہیں
درجہان نتوان اگر مردانہ زیست
ہمچو مردان جان سپردن زندگیست
سلیس ترجمہ: اگر دنیا میں مردوں کی طرح زندہ رہنا ممکن نہ ہو تو مردانہ وار جان قربان کر دینے ہی میں زندگی ہے۔

جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق علامہ اقبال نے یہ شعر سرنگاپٹنم کے مقام پر شیرِ میسور سلطان فتح علی ٹیپو شہید کے مزار پر کہا تھا. یہ پانچ اشعار کی فارسی نظم ہے جسکے عنوان "شمشیر گمشد" سے سلطان ٹیپو شہید کی شہادت کا سن ١٢١٤ھ مطابق ١٧٩٩ ع نکلتا ہے ۔ یہ تاریخی فارسی نظم مکمل درج ذیل ہے۔
آتشے دردل دگر برکردہ ام
داستانے از دکن آوردہ ام
در کنارم خنجرِ آئینہ فام
می کشم او را بتدریج از نیا م
نکتہءگویم ز سلطانِ شہید
زا ں کہ ترسم تلخ گردد روزِ عید
پیشتر رفتم کہ بوسم خاکِ او
تاشنیدم از مزار ِ پاکِ او
درجہان نتوان اگر مردانہ زیست
ہمچو مردان جان سپردن زندگیست


منظوم اردو ترجمہ از ڈاکٹر رﺅف خیر
میرے دل میں اک حرارت بھر گئی
یہ دکن کی داستاں کیا کر گئی
کانچ سا خنجر مرے پہلو میں ہے
دھیرے دھیرے میان سے کھینچوں اسے
مجھ سے کہتے تھے یہ سلطانِ شہید
ڈر ہے، سن کر تلخ ہوگی تیری عید
مس ہوئے جب لب مرے اُس خاک سے
اک ندا آئی مزار ِ پاک سے
جی نہیں سکتا جہاں مردانہ وار
مرتو سکتا ہے وہاں مردانہ وار

دوسرا نایاب شعر زبور عجم کی غزل سے لیا گیا ہے
لالۂ این چمن آلودۂ رنگ است ہنوز
سپر از دست مینداز کہ جنگ است ہنوز

سلیس ترجمہ: اس باغ کا پُھول ابھی آلودہ رنگ ھے، ہاتھ سے ڈھال نہ رکھ کیونکہ جنگ ابھی جاری ھے۔

یہ نایاب فارسی غزل بھی یہاں مکمل قابل تحریر ہے

لالۂ این چمن آلودۂ رنگ است ہنوز
سپر از دست مینداز کہ جنگ است ہنوز
فتنۂ را کہ دو صد فتنہ بآغوش بود
دخترت ہست کہ در مہدِ فرنگ است ہنوز
اے کہ آسودہ نشینی لبِ ساحل بر خیز
کہ ترا کار بگرداب و نہنگ است ہنوز
از سرِ تیشہ گُذشتم ز خرد مندی نیست
اے بسا لعل کہ اندر دلِ سنگ است ہنوز
باش! تا پردہ کشایم ز مقامِ دگرے
چہ دہم شرحِ نواہا کہ بچنگ است ہنوز
نقش پردازِ جہاں چوں بجنونم نگریست
گُفت و ویرانہ بسودائے تُو تنگ است ہنوز


سلیس ترجمہ
اس باغ کا پُھول ابھی آلودہ رنگ ھے، ہاتھ سے ڈھال نہ رکھ کیونکہ جنگ ابھی جاری ھے۔
جس فتنہ رکھنے والی تہذیب کے پاس سینکڑوں فتنے تھے، یورپ کے گہوارے میں ابھی ایسی لڑکی موجود ہے۔
اے تُو جو کہ ساحل پر اطمینان سے بیٹھا ھُوا ھے! اُٹھ، کیونکہ ابھی تُجھے بھنور اور مگرمچھوں سے مقابلہ کرنا ھے۔
تیشہ چھوڑ کر بیٹھ رہنا عقل مندی کی بات نہیں ھے، پتھر کے دل کے اندر ابھی کئی لعل موجود ہیں۔
ٹھہر! تاکہ ایک اور مقام کا پردہ اُٹھائیں، میں اُن آوازوں کو کیسے بیان کروں کہ جو ابھی ساز کے پردے میں ہیں۔
جہان کے چہرے کی آرائش کرنے والے نے جب میرے جنون کی طرف دیکھا، تو فرمایا کہ تیرے جنون کے لیئے ابھی یہ ویرانہ تنگ ھے۔

تیسرا نایاب شعر بھی زبور عجم کی غزل سے لیا گیا ہے
از ہند و سمرقند و عراق و ہمدان خیز
از خواب گران خواب گران خواب گران خیز

سلیس ترجمہ: (اے مشرق والو) ہندوستان و سمرقند و عراق و ہمدان سے اٹھو، گہری نیند، گہری نیند، بہت گہری نیند سے اٹھو۔

اس نایاب فارسی غزل کے چند بند یہاں قابل تحریر ہیں

ای غنچہ خوابیدہ چو نرگس نگران خیز
کاشانۂ ما رفت بتاراج غمان خیز
از نالہ مرغ چمن از بانگ اذان خیز
از گرمی ہنگامہ آتش نفسان خیز
از خواب گران خواب گران خواب گران خیز
از خواب گران خیز
خاور ہمہ مانند غبار سر راہی است
یک نالہ خاموش و اثر باختہ آہی است
ہر ذرہ این خاک گرہ خوردہ نگاہی است
از ہند و سمرقند و عراق و ہمدان خیز
از خواب گران خواب گران خواب گران خیز

از خواب گران خیز
فریاد از افرنگ و دلآویزی افرنگ
فریاد ز شیرینی و پرویزی افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزی افرنگ
معمار حرم باز بہ تعمیر جہان خیز
از خواب گران خواب گران خواب گران خیز
از خواب گران خیز

سلیس ترجمہ
اے سوئے ہوئے غنچے، نرگس کی طرف دیکھتے ہوئے اٹھ، ہمارا گھر غموں اور مصیبتوں نے برباد کر دیا، اٹھ، چمن کے پرندے کی فریاد سے اٹھ، اذان کی آواز سے اٹھ، آگ بھرے سانس رکھنے والوں کی گرمی کے ہنگامہ سے اٹھ، (غفلت کی) گہری نیند، گہری نیند، بہت گہری نیند سے اٹھ۔
مشرق سب کا سب راستے کے غبار کی مانند ہے، وہ ایک ایسی فریاد ہے جو کہ خاموش ہے اور ایک ایسی آہ ہے جو بے اثر ہے، اور اس خاک کا ہر ذرہ ایک ایسی نگاہ ہے جس پر گرہ باندھ دی گئی ہے (نابینا ہے)، (اے مشرق والو) ہندوستان و سمرقند و عراق و ہمدان سے اٹھو، گہری نیند، گہری نیند، بہت گہری نیند سے اٹھو۔
فریاد ہے افرنگ سے اور اسکی دل آویزی سے، اسکی شیریں (حسن) اور پرویزی (مکاری) سے، کہ تمام عالم افرنگ کی چنگیزیت سے ویران اور تباہ و برباد ہو گیا ہے۔ اے حرم کو تعمیر کرنے والے (مسلمان) تو ایک بار پھر اس جہان کو تعمیر کرنے کیلیے اٹھ کھڑا ہو، اٹھ، گہری نیند سے اٹھ، بہت گہری نیند سے اٹھ۔
(ترجمہ میں کوئی بھول چوک رہ گئی ہو تو پیشگی معذرت)

سرود رفتہ باز آید کہ ناید؟
نسیمی از حجاز آید کہ ناید؟
سرآمد روزگار ایں فقیری
دگر داناے راز آید کہ ناید؟
 

c'estmoi

Chief Minister (5k+ posts)
 

Eigoroll

MPA (400+ posts)
ماشا الله. اہل ایران کی علامہ اقبال سے بہت پرانی عقیدت ہے. ان بینرز میں علامہ اقبال کے تین نایاب فارسی اشعار کا انتخاب کیا گیا ہے. (افسوس، ہم تو اب اردو صحیح لکھنا پڑھنا بھول گئے، فارسی عربی کیا پڑھیں گے)

اگر اوپر تصاویر میں نظر انداز ہو گئے ہوں تو یہ تین اشعار یہاں دوبارہ تحریر ہیں
درجہان نتوان اگر مردانہ زیست
ہمچو مردان جان سپردن زندگیست
سلیس ترجمہ: اگر دنیا میں مردوں کی طرح زندہ رہنا ممکن نہ ہو تو مردانہ وار جان قربان کر دینے ہی میں زندگی ہے۔

جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق علامہ اقبال نے یہ شعر سرنگاپٹنم کے مقام پر شیرِ میسور سلطان فتح علی ٹیپو شہید کے مزار پر کہا تھا. یہ پانچ اشعار کی فارسی نظم ہے جسکے عنوان "شمشیر گمشد" سے سلطان ٹیپو شہید کی شہادت کا سن ١٢١٤ھ مطابق ١٧٩٩ ع نکلتا ہے ۔ یہ تاریخی فارسی نظم مکمل درج ذیل ہے۔
آتشے دردل دگر برکردہ ام
داستانے از دکن آوردہ ام
در کنارم خنجرِ آئینہ فام
می کشم او را بتدریج از نیا م
نکتہءگویم ز سلطانِ شہید
زا ں کہ ترسم تلخ گردد روزِ عید
پیشتر رفتم کہ بوسم خاکِ او
تاشنیدم از مزار ِ پاکِ او
درجہان نتوان اگر مردانہ زیست
ہمچو مردان جان سپردن زندگیست


منظوم اردو ترجمہ از ڈاکٹر رﺅف خیر
میرے دل میں اک حرارت بھر گئی
یہ دکن کی داستاں کیا کر گئی
کانچ سا خنجر مرے پہلو میں ہے
دھیرے دھیرے میان سے کھینچوں اسے
مجھ سے کہتے تھے یہ سلطانِ شہید
ڈر ہے، سن کر تلخ ہوگی تیری عید
مس ہوئے جب لب مرے اُس خاک سے
اک ندا آئی مزار ِ پاک سے
جی نہیں سکتا جہاں مردانہ وار
مرتو سکتا ہے وہاں مردانہ وار

دوسرا نایاب شعر زبور عجم کی غزل سے لیا گیا ہے
لالۂ این چمن آلودۂ رنگ است ہنوز
سپر از دست مینداز کہ جنگ است ہنوز

سلیس ترجمہ: اس باغ کا پُھول ابھی آلودہ رنگ ھے، ہاتھ سے ڈھال نہ رکھ کیونکہ جنگ ابھی جاری ھے۔

یہ نایاب فارسی غزل بھی یہاں مکمل قابل تحریر ہے

لالۂ این چمن آلودۂ رنگ است ہنوز
سپر از دست مینداز کہ جنگ است ہنوز
فتنۂ را کہ دو صد فتنہ بآغوش بود
دخترت ہست کہ در مہدِ فرنگ است ہنوز
اے کہ آسودہ نشینی لبِ ساحل بر خیز
کہ ترا کار بگرداب و نہنگ است ہنوز
از سرِ تیشہ گُذشتم ز خرد مندی نیست
اے بسا لعل کہ اندر دلِ سنگ است ہنوز
باش! تا پردہ کشایم ز مقامِ دگرے
چہ دہم شرحِ نواہا کہ بچنگ است ہنوز
نقش پردازِ جہاں چوں بجنونم نگریست
گُفت و ویرانہ بسودائے تُو تنگ است ہنوز


سلیس ترجمہ
اس باغ کا پُھول ابھی آلودہ رنگ ھے، ہاتھ سے ڈھال نہ رکھ کیونکہ جنگ ابھی جاری ھے۔
جس فتنہ رکھنے والی تہذیب کے پاس سینکڑوں فتنے تھے، یورپ کے گہوارے میں ابھی ایسی لڑکی موجود ہے۔
اے تُو جو کہ ساحل پر اطمینان سے بیٹھا ھُوا ھے! اُٹھ، کیونکہ ابھی تُجھے بھنور اور مگرمچھوں سے مقابلہ کرنا ھے۔
تیشہ چھوڑ کر بیٹھ رہنا عقل مندی کی بات نہیں ھے، پتھر کے دل کے اندر ابھی کئی لعل موجود ہیں۔
ٹھہر! تاکہ ایک اور مقام کا پردہ اُٹھائیں، میں اُن آوازوں کو کیسے بیان کروں کہ جو ابھی ساز کے پردے میں ہیں۔
جہان کے چہرے کی آرائش کرنے والے نے جب میرے جنون کی طرف دیکھا، تو فرمایا کہ تیرے جنون کے لیئے ابھی یہ ویرانہ تنگ ھے۔

تیسرا نایاب شعر بھی زبور عجم کی غزل سے لیا گیا ہے
از ہند و سمرقند و عراق و ہمدان خیز
از خواب گران خواب گران خواب گران خیز

سلیس ترجمہ: (اے مشرق والو) ہندوستان و سمرقند و عراق و ہمدان سے اٹھو، گہری نیند، گہری نیند، بہت گہری نیند سے اٹھو۔

اس نایاب فارسی غزل کے چند بند یہاں قابل تحریر ہیں

ای غنچہ خوابیدہ چو نرگس نگران خیز
کاشانۂ ما رفت بتاراج غمان خیز
از نالہ مرغ چمن از بانگ اذان خیز
از گرمی ہنگامہ آتش نفسان خیز
از خواب گران خواب گران خواب گران خیز
از خواب گران خیز
خاور ہمہ مانند غبار سر راہی است
یک نالہ خاموش و اثر باختہ آہی است
ہر ذرہ این خاک گرہ خوردہ نگاہی است
از ہند و سمرقند و عراق و ہمدان خیز
از خواب گران خواب گران خواب گران خیز
از خواب گران خیز
فریاد از افرنگ و دلآویزی افرنگ
فریاد ز شیرینی و پرویزی افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزی افرنگ
معمار حرم باز بہ تعمیر جہان خیز
از خواب گران خواب گران خواب گران خیز
از خواب گران خیز

سلیس ترجمہ
اے سوئے ہوئے غنچے، نرگس کی طرف دیکھتے ہوئے اٹھ، ہمارا گھر غموں اور مصیبتوں نے برباد کر دیا، اٹھ، چمن کے پرندے کی فریاد سے اٹھ، اذان کی آواز سے اٹھ، آگ بھرے سانس رکھنے والوں کی گرمی کے ہنگامہ سے اٹھ، (غفلت کی) گہری نیند، گہری نیند، بہت گہری نیند سے اٹھ۔
مشرق سب کا سب راستے کے غبار کی مانند ہے، وہ ایک ایسی فریاد ہے جو کہ خاموش ہے اور ایک ایسی آہ ہے جو بے اثر ہے، اور اس خاک کا ہر ذرہ ایک ایسی نگاہ ہے جس پر گرہ باندھ دی گئی ہے (نابینا ہے)، (اے مشرق والو) ہندوستان و سمرقند و عراق و ہمدان سے اٹھو، گہری نیند، گہری نیند، بہت گہری نیند سے اٹھو۔
فریاد ہے افرنگ سے اور اسکی دل آویزی سے، اسکی شیریں (حسن) اور پرویزی (مکاری) سے، کہ تمام عالم افرنگ کی چنگیزیت سے ویران اور تباہ و برباد ہو گیا ہے۔ اے حرم کو تعمیر کرنے والے (مسلمان) تو ایک بار پھر اس جہان کو تعمیر کرنے کیلیے اٹھ کھڑا ہو، اٹھ، گہری نیند سے اٹھ، بہت گہری نیند سے اٹھ۔
(ترجمہ میں کوئی بھول چوک رہ گئی ہو تو پیشگی معذرت)

سرود رفتہ باز آید کہ ناید؟
نسیمی از حجاز آید کہ ناید؟
سرآمد روزگار ایں فقیری
دگر داناے راز آید کہ ناید؟
zabardast
 

Mocha7

Minister (2k+ posts)
ماشا الله. اہل ایران کی علامہ اقبال سے بہت پرانی عقیدت ہے. ان بینرز میں علامہ اقبال کے تین نایاب فارسی اشعار کا انتخاب کیا گیا ہے. (افسوس، ہم تو اب اردو صحیح لکھنا پڑھنا بھول گئے، فارسی عربی کیا پڑھیں گے)

اگر اوپر تصاویر میں نظر انداز ہو گئے ہوں تو یہ تین اشعار یہاں دوبارہ تحریر ہیں
درجہان نتوان اگر مردانہ زیست
ہمچو مردان جان سپردن زندگیست
سلیس ترجمہ: اگر دنیا میں مردوں کی طرح زندہ رہنا ممکن نہ ہو تو مردانہ وار جان قربان کر دینے ہی میں زندگی ہے۔

جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق علامہ اقبال نے یہ شعر سرنگاپٹنم کے مقام پر شیرِ میسور سلطان فتح علی ٹیپو شہید کے مزار پر کہا تھا. یہ پانچ اشعار کی فارسی نظم ہے جسکے عنوان "شمشیر گمشد" سے سلطان ٹیپو شہید کی شہادت کا سن ١٢١٤ھ مطابق ١٧٩٩ ع نکلتا ہے ۔ یہ تاریخی فارسی نظم مکمل درج ذیل ہے۔
آتشے دردل دگر برکردہ ام
داستانے از دکن آوردہ ام
در کنارم خنجرِ آئینہ فام
می کشم او را بتدریج از نیا م
نکتہءگویم ز سلطانِ شہید
زا ں کہ ترسم تلخ گردد روزِ عید
پیشتر رفتم کہ بوسم خاکِ او
تاشنیدم از مزار ِ پاکِ او
درجہان نتوان اگر مردانہ زیست
ہمچو مردان جان سپردن زندگیست


منظوم اردو ترجمہ از ڈاکٹر رﺅف خیر
میرے دل میں اک حرارت بھر گئی
یہ دکن کی داستاں کیا کر گئی
کانچ سا خنجر مرے پہلو میں ہے
دھیرے دھیرے میان سے کھینچوں اسے
مجھ سے کہتے تھے یہ سلطانِ شہید
ڈر ہے، سن کر تلخ ہوگی تیری عید
مس ہوئے جب لب مرے اُس خاک سے
اک ندا آئی مزار ِ پاک سے
جی نہیں سکتا جہاں مردانہ وار
مرتو سکتا ہے وہاں مردانہ وار

دوسرا نایاب شعر زبور عجم کی غزل سے لیا گیا ہے
لالۂ این چمن آلودۂ رنگ است ہنوز
سپر از دست مینداز کہ جنگ است ہنوز

سلیس ترجمہ: اس باغ کا پُھول ابھی آلودہ رنگ ھے، ہاتھ سے ڈھال نہ رکھ کیونکہ جنگ ابھی جاری ھے۔

یہ نایاب فارسی غزل بھی یہاں مکمل قابل تحریر ہے

لالۂ این چمن آلودۂ رنگ است ہنوز
سپر از دست مینداز کہ جنگ است ہنوز
فتنۂ را کہ دو صد فتنہ بآغوش بود
دخترت ہست کہ در مہدِ فرنگ است ہنوز
اے کہ آسودہ نشینی لبِ ساحل بر خیز
کہ ترا کار بگرداب و نہنگ است ہنوز
از سرِ تیشہ گُذشتم ز خرد مندی نیست
اے بسا لعل کہ اندر دلِ سنگ است ہنوز
باش! تا پردہ کشایم ز مقامِ دگرے
چہ دہم شرحِ نواہا کہ بچنگ است ہنوز
نقش پردازِ جہاں چوں بجنونم نگریست
گُفت و ویرانہ بسودائے تُو تنگ است ہنوز


سلیس ترجمہ
اس باغ کا پُھول ابھی آلودہ رنگ ھے، ہاتھ سے ڈھال نہ رکھ کیونکہ جنگ ابھی جاری ھے۔
جس فتنہ رکھنے والی تہذیب کے پاس سینکڑوں فتنے تھے، یورپ کے گہوارے میں ابھی ایسی لڑکی موجود ہے۔
اے تُو جو کہ ساحل پر اطمینان سے بیٹھا ھُوا ھے! اُٹھ، کیونکہ ابھی تُجھے بھنور اور مگرمچھوں سے مقابلہ کرنا ھے۔
تیشہ چھوڑ کر بیٹھ رہنا عقل مندی کی بات نہیں ھے، پتھر کے دل کے اندر ابھی کئی لعل موجود ہیں۔
ٹھہر! تاکہ ایک اور مقام کا پردہ اُٹھائیں، میں اُن آوازوں کو کیسے بیان کروں کہ جو ابھی ساز کے پردے میں ہیں۔
جہان کے چہرے کی آرائش کرنے والے نے جب میرے جنون کی طرف دیکھا، تو فرمایا کہ تیرے جنون کے لیئے ابھی یہ ویرانہ تنگ ھے۔

تیسرا نایاب شعر بھی زبور عجم کی غزل سے لیا گیا ہے
از ہند و سمرقند و عراق و ہمدان خیز
از خواب گران خواب گران خواب گران خیز

سلیس ترجمہ: (اے مشرق والو) ہندوستان و سمرقند و عراق و ہمدان سے اٹھو، گہری نیند، گہری نیند، بہت گہری نیند سے اٹھو۔

اس نایاب فارسی غزل کے چند بند یہاں قابل تحریر ہیں

ای غنچہ خوابیدہ چو نرگس نگران خیز
کاشانۂ ما رفت بتاراج غمان خیز
از نالہ مرغ چمن از بانگ اذان خیز
از گرمی ہنگامہ آتش نفسان خیز
از خواب گران خواب گران خواب گران خیز
از خواب گران خیز
خاور ہمہ مانند غبار سر راہی است
یک نالہ خاموش و اثر باختہ آہی است
ہر ذرہ این خاک گرہ خوردہ نگاہی است
از ہند و سمرقند و عراق و ہمدان خیز
از خواب گران خواب گران خواب گران خیز
از خواب گران خیز
فریاد از افرنگ و دلآویزی افرنگ
فریاد ز شیرینی و پرویزی افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزی افرنگ
معمار حرم باز بہ تعمیر جہان خیز
از خواب گران خواب گران خواب گران خیز
از خواب گران خیز

سلیس ترجمہ
اے سوئے ہوئے غنچے، نرگس کی طرف دیکھتے ہوئے اٹھ، ہمارا گھر غموں اور مصیبتوں نے برباد کر دیا، اٹھ، چمن کے پرندے کی فریاد سے اٹھ، اذان کی آواز سے اٹھ، آگ بھرے سانس رکھنے والوں کی گرمی کے ہنگامہ سے اٹھ، (غفلت کی) گہری نیند، گہری نیند، بہت گہری نیند سے اٹھ۔
مشرق سب کا سب راستے کے غبار کی مانند ہے، وہ ایک ایسی فریاد ہے جو کہ خاموش ہے اور ایک ایسی آہ ہے جو بے اثر ہے، اور اس خاک کا ہر ذرہ ایک ایسی نگاہ ہے جس پر گرہ باندھ دی گئی ہے (نابینا ہے)، (اے مشرق والو) ہندوستان و سمرقند و عراق و ہمدان سے اٹھو، گہری نیند، گہری نیند، بہت گہری نیند سے اٹھو۔
فریاد ہے افرنگ سے اور اسکی دل آویزی سے، اسکی شیریں (حسن) اور پرویزی (مکاری) سے، کہ تمام عالم افرنگ کی چنگیزیت سے ویران اور تباہ و برباد ہو گیا ہے۔ اے حرم کو تعمیر کرنے والے (مسلمان) تو ایک بار پھر اس جہان کو تعمیر کرنے کیلیے اٹھ کھڑا ہو، اٹھ، گہری نیند سے اٹھ، بہت گہری نیند سے اٹھ۔
(ترجمہ میں کوئی بھول چوک رہ گئی ہو تو پیشگی معذرت)

سرود رفتہ باز آید کہ ناید؟
نسیمی از حجاز آید کہ ناید؟
سرآمد روزگار ایں فقیری
دگر داناے راز آید کہ ناید؟
Thanks for the effort. Nice share. ⭐