Shahid Abassi
Chief Minister (5k+ posts)
کچھ دوست سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا سی پیک ایسٹ انڈیا کمپنی ثابت ہوگا۔
اس سوال کا جواب دو حصوں میں ہے۔
اول ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی بات تو تب کرو جب ہم حقیقتاً آزاد ہوں اور ہمیں غلامی کا ڈر ہو ۔ پچھلے ۳۵ سال سے ہم امریکہ کی غلامی ہی تو کر رہے ہیں جہاں جب امریکہ کی اجازت ہو تو مارشل لأ لگ جاتا ہے اور جب اجازت نہ ہو تو امریکہ اور برطانیہ ہی ہمارے اگلے وزیراعظم کا فیصلہ کر کے ہمارے دیسی محافظوں کو اس آنے والے کو الیکشن جتانے کا حکم جاری کر دیتا ہے ۔ ہم امریکہ کے لئے کرائے کی فوج کا کردار بھی ادا کرتے ہیں اور امریکہ سے اپنے ہی بندے مروا کر سینہ تانتے ہیں ۔ امریکہ کے ڈرونز کو اڈے بھی دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ انہیں کہتے ہیں کہ اپنا کام جاری رکھو اور ہم پبلک کے سامنے انکار کرتے رہیں گے۔ ہمارا صدر، ہماری آئی ایس آئی اور فوجی سربراہ سب ملے ہوئے ہوتے ہیں اس بات میں کہ امریکہ کے تین ہیلی کاپٹر رات کے اندھیرے میں ۳۰۰ کلومیٹر اندر تک ایبٹ آباد آئیں اور ہماری عزت کو خاک میں ملا کر چلے جائیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہیں کہ پاکستان نے اسامہ کو پال رکھا تھا۔
کیا ہم آزاد ہیں؟ ریمنڈ ڈیوس نے پوری قوم کو جو تمانچہ مارا تھا کیا اس کے بعد بھی تمہیں اپنے آپ کو آزاد کہتے ہوئے شرم نہیں آتی۔
اگر تم آزاد ہو تو اسلام آباد میں امریکیوں کو ۱۶۰۰ ایکڑ پر ایمبیسی بنانے کی اجازت کیوں دے رہے ہو جس میں کہ ۳۵۰۰ امریکی فوجی ہونگے اور پورے خطے کو کنٹرول کرنے کے لئے سی آئی اے کا عملہ؟
ایسٹ انڈیا کمپنی تو برسوں سے ہم پر قابض ہے میرے بھائی صرف شکل اور صورت مختلف ہے بس۔
دوئم ۔ نیو ورلڈ آرڈر کے تحت بلوچستان کو پاکستان سے کاٹ کر پاکستان میں افراتفری کی فضا قائم کرنے کے لئے جو کچھ کراچی بلوچستان اور وزیرستان میں ہوتا رہا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے، کیا چین کی فوجی مدد کے بغیر ہم اس سے بچ نکلنے کے قابل بھی تھے اور ہیں؟
آج چین پاکستان میں انویسٹ تو کر رہا ہے اور ۶۰ بلین ڈالر کے پراجیکٹس سائن ہونے کے باوجود اگلے دس سالوں میں مزید ۴۰ ارب ڈالر اور بھی انویسٹ کرے گا لیکن یاد رکھیں کہ سی پیک چین کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ راستہ چین کی اکانومک سیکورٹی کے لئے اتنا ہی اہم ہے جتنا ساوتھ چائنا سی روٹ ۔ اور مت بھولئے کہ یہ روٹ پاکستان کی سر زمین پر ہے اور گوادر بھی چین کو صرف ۳۵ سال کے لئے دی گئی ہے۔
رہی بات ۱۰۰ ارب ڈالر انویسٹمنٹ کی تو مغرب نے پچھلے چار سال میں انڈیا میں ۱۰۰ ارب کی انویسٹمنٹ کی ہے تو کیا انڈیا مغرب کا غلام بن گیا ۔ چین آج جہاں پہنچا ہے اس میں بھی مغرب کی ۲۰۰۰ ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ تھی تو کیا آج چین مغرب کا غلام ہے۔
پاکستان ایک چھوٹا ملک نہیں اسکی سالانہ جی ڈی پی تین سو بلین ڈالر کے قریب ہے اور اس میں ایک معاشی جائینٹ بننے کے سارے اجزا موجود ہیں اور یہ ۱۰۰ ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ کو ابزارب کرنے کی پوری طاقت رکھتا ہے۔ پاکستان کے ریکوڈک کے سونے کے ڈپازٹس ہی کم از کم تین ہزار ارب ڈالر مالیت کے ہیں ۔
مسئلہ چین نہیں دوست۔ مسئلہ ہمارے ڈاکو لیڈر ہیں جو پانچ روپئے کے ذاتی فائدہ کے لئے ملک کا ایک کروڑ کا نقصان کرنے میں بلکل ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔ ان کے سارے اقدام ووٹ کی سیاست کے ہیں اور ملکی ترجیحات کا انہیں بلکل فکر نہیں ۔ آج چین کا جو سرمایہ انہیں میسر ہے کیا اس سے اورنج لائین، پشاور نوشہرہ سرکلر ریلوے اور کیٹی بندر پر دس ارب لگانا ضروری ہیں یا پھر بھاشا ڈیم پر؟ یہ ہے وہ سوال جو ہمیں کسی ایسٹ انڈیا کمپنی کی غلامی میں دے گا یا ایک سنہری مستقبل کی نوید؟
کیا کوئلے اور گیس پر بجلی گھر بنانے پر سرمایہ لگایا جائے یا پانی سے بجلی بنانے پر جس میں کہ کوئی امپورٹڈ فیول صرف نہیں ہوتا۔
کیا چین کے ساتھ معائدے ذاتی حیثیت میں کر کے انہیں پوشیدہ رکھنے میں غلامی ہے یا پھر سارے ٹیکنوکریٹس کے زیر بحث لا کر ۔ کیا معائدوں میں یہ لکھا گیا کہ چین ہمیں سالانہ کم از کم اتنی راہداری دے گا جو کہ قسطوں اور سود کی واپسی کے برابر ہوں؟ یہ ہی ہیں وہ سوال جو پٹوریوں اور پی پی پی کے جیالوں کو اپنے لیڈروں سے پوچھنے چاہیں اور قوم جو مردہ حالت میں سب کچھ سہتے ہوئے بھی ان کرپٹ لیڈروں کو سپورٹ کر رہی ہے اسے اپنے مردہ پن پر اپنے ہی گریبان میں جھانک کر اپنے ضمیر سے پوچھنے چاہیں۔
ِ
اس سوال کا جواب دو حصوں میں ہے۔
اول ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی بات تو تب کرو جب ہم حقیقتاً آزاد ہوں اور ہمیں غلامی کا ڈر ہو ۔ پچھلے ۳۵ سال سے ہم امریکہ کی غلامی ہی تو کر رہے ہیں جہاں جب امریکہ کی اجازت ہو تو مارشل لأ لگ جاتا ہے اور جب اجازت نہ ہو تو امریکہ اور برطانیہ ہی ہمارے اگلے وزیراعظم کا فیصلہ کر کے ہمارے دیسی محافظوں کو اس آنے والے کو الیکشن جتانے کا حکم جاری کر دیتا ہے ۔ ہم امریکہ کے لئے کرائے کی فوج کا کردار بھی ادا کرتے ہیں اور امریکہ سے اپنے ہی بندے مروا کر سینہ تانتے ہیں ۔ امریکہ کے ڈرونز کو اڈے بھی دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ انہیں کہتے ہیں کہ اپنا کام جاری رکھو اور ہم پبلک کے سامنے انکار کرتے رہیں گے۔ ہمارا صدر، ہماری آئی ایس آئی اور فوجی سربراہ سب ملے ہوئے ہوتے ہیں اس بات میں کہ امریکہ کے تین ہیلی کاپٹر رات کے اندھیرے میں ۳۰۰ کلومیٹر اندر تک ایبٹ آباد آئیں اور ہماری عزت کو خاک میں ملا کر چلے جائیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہیں کہ پاکستان نے اسامہ کو پال رکھا تھا۔
کیا ہم آزاد ہیں؟ ریمنڈ ڈیوس نے پوری قوم کو جو تمانچہ مارا تھا کیا اس کے بعد بھی تمہیں اپنے آپ کو آزاد کہتے ہوئے شرم نہیں آتی۔
اگر تم آزاد ہو تو اسلام آباد میں امریکیوں کو ۱۶۰۰ ایکڑ پر ایمبیسی بنانے کی اجازت کیوں دے رہے ہو جس میں کہ ۳۵۰۰ امریکی فوجی ہونگے اور پورے خطے کو کنٹرول کرنے کے لئے سی آئی اے کا عملہ؟
ایسٹ انڈیا کمپنی تو برسوں سے ہم پر قابض ہے میرے بھائی صرف شکل اور صورت مختلف ہے بس۔
دوئم ۔ نیو ورلڈ آرڈر کے تحت بلوچستان کو پاکستان سے کاٹ کر پاکستان میں افراتفری کی فضا قائم کرنے کے لئے جو کچھ کراچی بلوچستان اور وزیرستان میں ہوتا رہا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے، کیا چین کی فوجی مدد کے بغیر ہم اس سے بچ نکلنے کے قابل بھی تھے اور ہیں؟
آج چین پاکستان میں انویسٹ تو کر رہا ہے اور ۶۰ بلین ڈالر کے پراجیکٹس سائن ہونے کے باوجود اگلے دس سالوں میں مزید ۴۰ ارب ڈالر اور بھی انویسٹ کرے گا لیکن یاد رکھیں کہ سی پیک چین کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ راستہ چین کی اکانومک سیکورٹی کے لئے اتنا ہی اہم ہے جتنا ساوتھ چائنا سی روٹ ۔ اور مت بھولئے کہ یہ روٹ پاکستان کی سر زمین پر ہے اور گوادر بھی چین کو صرف ۳۵ سال کے لئے دی گئی ہے۔
رہی بات ۱۰۰ ارب ڈالر انویسٹمنٹ کی تو مغرب نے پچھلے چار سال میں انڈیا میں ۱۰۰ ارب کی انویسٹمنٹ کی ہے تو کیا انڈیا مغرب کا غلام بن گیا ۔ چین آج جہاں پہنچا ہے اس میں بھی مغرب کی ۲۰۰۰ ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ تھی تو کیا آج چین مغرب کا غلام ہے۔
پاکستان ایک چھوٹا ملک نہیں اسکی سالانہ جی ڈی پی تین سو بلین ڈالر کے قریب ہے اور اس میں ایک معاشی جائینٹ بننے کے سارے اجزا موجود ہیں اور یہ ۱۰۰ ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ کو ابزارب کرنے کی پوری طاقت رکھتا ہے۔ پاکستان کے ریکوڈک کے سونے کے ڈپازٹس ہی کم از کم تین ہزار ارب ڈالر مالیت کے ہیں ۔
مسئلہ چین نہیں دوست۔ مسئلہ ہمارے ڈاکو لیڈر ہیں جو پانچ روپئے کے ذاتی فائدہ کے لئے ملک کا ایک کروڑ کا نقصان کرنے میں بلکل ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔ ان کے سارے اقدام ووٹ کی سیاست کے ہیں اور ملکی ترجیحات کا انہیں بلکل فکر نہیں ۔ آج چین کا جو سرمایہ انہیں میسر ہے کیا اس سے اورنج لائین، پشاور نوشہرہ سرکلر ریلوے اور کیٹی بندر پر دس ارب لگانا ضروری ہیں یا پھر بھاشا ڈیم پر؟ یہ ہے وہ سوال جو ہمیں کسی ایسٹ انڈیا کمپنی کی غلامی میں دے گا یا ایک سنہری مستقبل کی نوید؟
کیا کوئلے اور گیس پر بجلی گھر بنانے پر سرمایہ لگایا جائے یا پانی سے بجلی بنانے پر جس میں کہ کوئی امپورٹڈ فیول صرف نہیں ہوتا۔
کیا چین کے ساتھ معائدے ذاتی حیثیت میں کر کے انہیں پوشیدہ رکھنے میں غلامی ہے یا پھر سارے ٹیکنوکریٹس کے زیر بحث لا کر ۔ کیا معائدوں میں یہ لکھا گیا کہ چین ہمیں سالانہ کم از کم اتنی راہداری دے گا جو کہ قسطوں اور سود کی واپسی کے برابر ہوں؟ یہ ہی ہیں وہ سوال جو پٹوریوں اور پی پی پی کے جیالوں کو اپنے لیڈروں سے پوچھنے چاہیں اور قوم جو مردہ حالت میں سب کچھ سہتے ہوئے بھی ان کرپٹ لیڈروں کو سپورٹ کر رہی ہے اسے اپنے مردہ پن پر اپنے ہی گریبان میں جھانک کر اپنے ضمیر سے پوچھنے چاہیں۔
ِ
Last edited: