پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے علاوہ سینیٹ کے ارکان کی تنخواہوں اور مراعات کے اضافے کا بل سینیٹ سے منظور ہونے پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے، حکمران اتحاد میں شامل دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی شامل نے بھی تنقید کردی، انہوں نے کہا اس بل کو کبھی بھی قانون کا حصہ نہیں بننے دیا جائے گا اور جب یہ بل قومی اسمبلی میں پیش ہوگا تو اس کی بھرپور مخالفت کی جائے گی۔
قانون کے مطابق سینیٹ سے پاس ہونے کا بل منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں بھیجا جائے گا اور اگر قومی اسمبلی نے اس بل کو یکسر مسترد کردیا تو پھر یہ قانون کا درجہ حاصل نہیں کرتا اور اگر قومی اسمبلی کے ارکان اس بل میں کچھ ترامیم تجویز کرتے ہیں تو پھر یہ بل دوبارہ غور کے لیے سینیٹ میں بھیجا جائے گا۔
چند روز قبل چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین اور سینیٹ کے ارکان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا یہ بل جب سینیٹ سے منظور ہوا تھا تو اس بل کو پیش کرنے اور اس کو پاس کروانے میں بھی ان دونوں جماعتوں کے ارکان کی اکثریت شامل تھی۔
سینیٹ کے سابق ڈپٹی چیئرمین اور سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیف وہیپ سلیم مانڈوی والا نے کہا ان کی جماعت کی قیادت سینیٹ میں اس بل کے پاس ہونے پر سخت نالاں ہے،بل کو پیش کرنے اور اس کو پاس کروانے میں سینیٹ کے دو سابق چیئرمین رضا ربانی اور فاورق ایچ نائیک شامل ہیں اور دونوں کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔
بی بی سی سے گفتگو میں سلیم مانڈوی والا نے کہا سینیٹ سے اس بل کے پاس ہونے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے انھیں طلب کیا اور برہمی کا اظہار کیا کہ کیسے سینیٹ کے چیئرمین کی مراعات میں اضافے کا بل پاس کروایا گیا۔
سلیم مانڈوری والا نے بی بی سی سے گفتگو میں مزید کہا ملک مشکل حالات میں ہے اور حکومت نے پاس سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے پیسے نہیں جبکہ دوسری جانب سینیٹ کے چیئرمین اور ارکان کے تنخواہوں کے بل منظور کیے جا رہے ہیں۔
سلیم مانڈوی والا نے بتایا سابق صدر کو واضح کیا کہ بجٹ کے معامالات کو دیکھنے کے باعث اس لیے اس بل پر توجہ نہیں دے سکے،انھوں نے کہا کہ اس بل کو منظور کراونے میں حتیٰ کہ ان کے پارٹی کے ارکان نے بھی انھیں اعتماد میں نہیں لیا۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے سینیئر اور وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک کا کہنا ہے کہ وہ یہ معاملہ وزیر اعظم کے نوٹس میں بھی لے کر آئے ہیں اور انھوں نے اس پر برہمی کا اظہار کیا،پارٹی کی سینیئر قیادت کو بھی اس بل پر تحفظات ہیں جس کا انھوں نے اظہار بھی کیا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ملک اس وقت جن مسائل سے گزر رہا ہے تو ایسے حالات میں اس قسم کی مراعات کیسے دی جاسکتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کسی صورت میں بھی اس بل کو قانون بننے نہیں دیا جائے گا۔
نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے مصدق ملک کا کہنا تھا کہ جب سے پی ڈی ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئے ہیں اس وقت سے وزیر اعظم نے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ کوئی بھی وزیر تنخواہ اور مراعات نہیں لے گا اور وزیر اعظم کے احکامات کی روشنی میں تمام وزرا اکانومی کلاس میں سفر کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف چیئرمین سینیٹ کے لیے چارٹر طیارے تک بک کروانے کے بل کی منظوری دی جا رہی ہے۔
سینیٹ میں حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر ہمایوں مہمند نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا ان کی جماعت کے پانچ سینیٹرز کے پاس حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں کے ارکان آئے تھے اور انھوں نے بتایا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ سینیٹ کو قومی اسمبلی کی طرح خود مختار بنایا جائے اس لیے وہ سینیٹ میں قرارداد لا نا چاہتے ہیں جس کی انھوں نے حامی بھر لی تھی اور اس قرارداد پر انھوں نے دستخط کردیے۔
ہمایوں مہمند کا کہنا تھا جب یہ بل سینیٹ میں پیش ہوا تو ان کی جماعت نے کسی اور معاملے پر ایوان سے بائیکاٹ کیا تھا اور اسی دوران قرارداد کی بجائے اس کو بل کی شکل میں پیش کیا گیا،واپس آکر انھوں نے اس پر اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کروایا تھا۔
ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر اس بل کی سینیٹ سے منظوری کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پروٹوکول کے مطابق چیئرمین سینیٹ صدر اور وزیر اعظم کے بعد تیسرے نمبر پر آتے ہیں۔
سینیٹ کے چیئرمین کی تنخواہ اور مراعات میں اضافے کے علاوہ ان کے تین سال کا عرصہ مکمل کرنے کے بعد عہدے سے سبکدوش ہونے سے متعلق جو بل سینیٹ سے منظور کروایا گیا ہے اس کے اہم نکات میں یہ بھی ہے کہ چیئرمین کی تنخواہ دو لاکھ پانچ ہزار روپے ہو گی اور چیئرمین جس گھر میں رہے گا اس کا ماہانہ کرایہ ڈھائی لاکھ روپے ہوگا اور اس کی تزیئن و آرائش پر پچاس لاکھ روپے سے زیادہ کا خرچہ نہیں ہوگا۔
اس بل میں یہ بھی کہا گیا اگر چیئرمین سینیٹ منتخب ہوتے وقت اگر ان کے پاس کوئی سرکاری رہائش گاہ نہیں ہے تو انھیں ایسے گھر میں رکھا جائے گا جس کا ماہانہ کرایہ پانچ لاکھ روپے سے زیادہ نہیں ہو گا،اگر چیئرمین سینیٹ اپنے ہی گھر میں رہ رہے ہیں تو انھیں سرکار کی طرف سے ڈھائی لاکھ روپے کرائے کی مد میں ادا کیے جائیں گے تاہم اس گھر کی تزیئن و آرائش پر اخراجات سرکاری خزانے سے ادا نہیں کیے جائیں گے۔
سینیٹ سے پاس ہونے والے اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر چیئرمین سینیٹ بیرون ملک دورے پر جائے گا تو ان کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے زیر استعمال جہازوں کے علاوہ مسلح افواج یا کسی فلائینگ کلب کا طیارہ حاصل کیا جائے گا۔
اس بل میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ اگر چیئرمین سینیٹ کے لیے کوئی طیارہ کرائے پر لیا جاتا ہے تو اس میں ان کے خاندان کے چار افراد ان کے ساتھ جا سکتے ہیں اور اگر چیئرمین سینیٹ کسی کمرشل فلائٹ سے بیرون ملک جاتے ہیں تو ان کے ساتھ ان کے ِخاندان کا ایک فرد ان کے ساتھ جاسکتا ہے جس کے اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کیے جائیں گے،اگر چیئرمین سینیٹ کسی فضائی حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں تو ان کے ورثا یا ان کی نامزد کردہ کسی شخص کو ایک کروڑ روپے بطور معاوضہ دیا جائے گا۔
بل میں مزید کہا اگر کسی چیئرمین سینیٹ نے تین سال کا عرصہ مکمل کر لیا ہے تو وہ اور ان کی اہلیہ ملک میں اور بیرون ملک بھی سرکاری خرچ پر علاج کروانے کے اہل ہوں گے اگر سابق چیئرمین فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی بیوہ یہ سہولتیں حاصل کرنے کی اہل ہوں گی،صدر مملکت چیئرمین سینیٹ کو تین ماہ کی چھٹی بھی دے سکتے ہیں اور اس عرصے کے دوران چیئرمین سینیٹ دو لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ بھی وصول کریں گے۔
اس بل میں یہ بھی کہا گیا چییرمین سینیٹ اپنے گھر یا دفتر میں بارہ افراد پر مشتمل سٹاف کو رکھنے کے اہل ہوں گے اور ان میں سے جن کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا ہے اگرچہ ان کی تنخواہ سرکاری خزانے سے دی جائے گی لیکن انھیں مستقل نہیں کیا جائے گا،جو بھی شخص چیئرمین سینیٹ کی تین سال کی مدت مکمل کرلے گا تو اسے فل سکیورٹی فراہم کی جائے گی جس میں سے چھ سنتری جبکہ چار اہلکار جن کا تعلق پولیس کی انسداد دہشت گردی سکواڈ، رینجرز، فرنٹیئر کور یا فرنٹیئر کانسٹیبلری سے ہوگا۔
بل کے مطابق جو بھی شخص چیئرمین سینیٹ کی تین سال کی مدت مکمل کرلے گا تو اسے فل سکیورٹی فراہم کی جائے گی جس میں سے چھ سنتری جبکہ چار اہلکار جن کا تعلق پولیس کی انسداد دہشت گردی سکواڈ، رینجرز، فرنٹیئر کور یا فرنٹیئر کانسٹیبلری سے ہوگا۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/sanjranaah.jpg