L
Liberal Fascist
Guest

اصغر خان کیس
منی لانڈرنگ کیس
حدیبیہ پیپرز مِلز کیس
مہران بینک کیس
اتفاق فونڈری سیٹلمنٹ کیس
بات سیدھی اور سادہ ہے بس زاویہِ نگاہ درکار ہے، جو کُچھ ایسے ہے کہ:۔
اگر جسٹس افتخار شریف نے اپنے بھائی نواز شریف کے پِچھلی صدی سے زیرِ التوا مذکورہ بالا کیسز بھی اُسی تندہی سے چلائے ہوتے جیسے زرداری کے چلائے تھے تو آج یقینناً سیاسی نقشہ یوں نہ ہوتا۔ ججوں کی زرداری کیخلاف ائے روز کی ریمارکس نُما بڑھک بازی نے جیسے زرداری کیخلاف ہوا سازگار کی تھی نوروں کو بھی اُسی ہزیمت کا سامنا ہوتا الیکشنز میں جو زرداری گینگ کا مقدر بنی، لیکن جسٹس دجال کی مُجرمانہ خاموشی نوروں کی تائید ثابت ہوئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگ یہی سمجھتے رہے کہ نورا برادران بھی اگر چور ہوتے تو اُن پر بھی مقدمات چلتے۔ ہمارے ججز غیر جانبدار ہیں اور وہ کِسی حکومتی بدعُنوانی کو برداشت نہیں کر سکتے۔
اُنہیں یہ سمجھنے میں بہت دیر لگی کہ چیپ جسٹس خود مُسلم لیگ (ن) ججز وِنگ کا صدر ہے۔
بھلے اب بہت دیر ہو چُکی لیکن پھر بھی یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ
عزت مآب جسٹس افتخار شریف صاحب کی عدالتیں نوروں کیخلاف درج ذیل مقدمات
کے فیصلے چاہے نہ دیں کیونکہ ایسا کرنے کے نتیجے میں آپ اور برادر ججز کی نوروں کےہاتھوں جوتوں سے عزت افزائی کے امکانات یقینی ہیں۔
وجہ اِس خدشے کی یہ ہے کہ نورے ججوں کی خرید و فروخت اور بلیک میلنگ سے لے کر دِن دیہاڑے لترول کا طویل و عریض تجربہ رکھتے ہیں۔ نوروں کے سُپریم کورٹ پر حملے کے نتیجے میں ججوں کا جوتیاں چھوڑ بھاگتے ہوئے گیلی پنٹوں کے ساتھ اپنے چیمبرز اور باتھ روموں میں جا چھُپنا ہماری یادوں میں آج بھی تازہ ہے۔ چنانچہ ہم آپ سے وہی کرنے کو کہیں گے جِس میں آپ کو آسانی اور مہارت ہے۔ یعنی کیسز کے فیصلے کرنے کی بجائے روزانہ سماعت کریں اور بڑھک نُما "ریماکس" دے دے کر میڈیا میں زندہ و سُرخرو رہیں۔ بس زیادہ نہیں آپ صِرف چھ مہینے نوروں کے مزکورہ بالا مقدمات اُسی رفتار، تندہی اور ’’نیک نیتی‘‘ سے چلائیں جیسے زرداری گینگ کے خلاف چلاتے رہے ہیں، صُبح نو بجے سے لے کر شام پانچ بجے تک مختلف کیسز میں حکومت کے خلاف دِن بھر ویسے ہی ریمارکس پاس کریں جیسے پیپلز پارٹی کی مرکزی و صوبائی حکومتوں بارے گُذشتہ چار سال کرتے رہے ہیں، ہر روز کِسی افسر، سیکرٹری کو عدالتوں میں طلب کر کے سرزنش کر کے لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کو جعلی غم و غُصے کا اظہار کریں، سادہ دِلوں کو موہ لینے والے ڈائیلاگ ماریں ۔ ۔ ۔ ۔ پھِر نیوز چینلز ہر دس منٹ کے وقفے سے اِن ریمارکس کو سُرخ رنگ کے بریکنگ نیوز کے بینرز کے ساتھ چلائیں، پھِر سپوٹس اور دوسری خبروں کے دوران مسلسل ججوں کی اِنہی بڑھکوں (ریمارکس) کو ٹی وی سکرین کی نچلی طرف سُرخ پٹی میں مسلسل چالو رکھیں، پھِر ہر گھنٹے کے نیوز بُلیٹنز میں بھی یہ بڑھک نُما ریمارکس نیوز کاسٹر ایک خاص جوش و جذبے سے بار بار نشر کریں، پھِر شام سات بجے سے لے کر رات بارہ بجے تک ویسے ہی ٹاک شوز میں یکطرفہ مبصرین کی گرما گرم محفل سجا کر تجزیاتی پروگرامز پیش ہوں، یوں عوام کو بتایا جائے کہ یہ میاں نواز و شہباز شریف حکومتیں ہی ہے جِس نے آپکی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے، لوگوں کو سونے سے پہلے اور اُٹھنے کے بعد صبح، دوپہر شام یہ سب کُچھ حکیمی معجون کی طرح چٹوایا جائے پھِر ہم دیکھیں گے کہ عوامِ پاکستان میں نورے کِتنے شریف، پاکباز، محنتی اور خِدمتگار سمجھے جاتے ہیں۔ اِس مشقِ دلنشیں کے بعد اگر نورے اپنی آبائی سیٹیں بھی جیت جائیں تو مُجھے لاہوریوں کے ’’زندہ دِل‘‘ ہونے کا واقعی یقین ہو جائے گا۔
یہاں ایک اور نُکتہ جو نوٹ کیا جانا چاہیئے جو ایک تاریخی سچ ہے جسکے غیر منطقی و بودا ہونے میں تو کوئی کلام نہیں، وہ یہ کہ بھٹوز کے ساتھ تو ہمارے ہاں کے انپڑھ، شخصیت پرست، جذباتی عوام کا پھِر بھی کوئی شہادت، خوُن، قبر، جیل، پھانسی گھاٹ، زہر، لاٹھی، گولی، جُرات، بہادری کا کچا، پکا، کھرا، کھوٹا سا رشتہ ہوگا لیکن نوروں کا نور نامہ تو جیل میں ٹسوے بہانا، سارے خاندان کا معافی نامے لِکھ راتوں رات بھاگ نِکلنا، مفروری اور جدہ میں پناہ گیری جیسے گیدڑانہ کارناموں سے عبارت ہے۔ لوگ اِن کے اُس جعلی عکس میں مُبتلا ہیں جو اِنہوں نے برائے فروخت میڈیا میں اپنی گہری جڑوں اور پچیس تیس سالہ حکومتوں میں ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹس، بزنس برادری پر نوازشوں وغیرہ سے قائم کر رکھا ہے ورنہ جِس دِن عدالتوں اور میڈیا نے فقط چھ مہینے کے لیئے اِن نوروں کے ساتھ اُس سلوُک کا دسواں حصہ بھی برتا جو پیپلیوں کے ساتھ عشروں سے جاری ہے آپ دیکھیئے گا اِنکی جائے اماں جدہ اور لنڈن ہوگی رائے ونڈ یا اسلام آباد اِن کے لیئے سراب بن جائیں گے۔
تاریخ سے ہلکی سی شُدھ بُدھ رکھنے والے جانتے ہونگے کہ بھُٹو کی گرفتاری اور پھانسی پر اُسکے چاہنے والوں نے، کوڑے کھانے، جیل بھرو تحریک سے لے کر خود سوزیوں تک کیا کُچھ نہیں کیا تھا مگر جب بارہ اکتوبر کو نوروں کی حکومت کا تختہ اُلٹا گیا تو اِنکے اپنے شہر لاہور کی گوالمنڈی میں کھد، سِری، پائے کا ٹھیلا بھی اپنی جگہ سے نہیں سِرکا تھا جلسے، جلوس، ہڑتالیں تو کون کرتا۔
آخر میں پھر کہوں گا کہ دسیوں سالوں سے سٹے آرڈرز کی پھانس میں اٹکے نوروں کی بینک ڈکیتیوں اور منی لانڈرنگ کے مقدمات پر جسٹس افتخار شریف کی مُجرمانہ خاموشی اُنکی تائید تھی ورنہ عوام آج زرداری کے ساتھ ساتھ اِنہیں بھی برابر کا ڈکیت سمجھتے
منی لانڈرنگ کیس
حدیبیہ پیپرز مِلز کیس
مہران بینک کیس
اتفاق فونڈری سیٹلمنٹ کیس
بات سیدھی اور سادہ ہے بس زاویہِ نگاہ درکار ہے، جو کُچھ ایسے ہے کہ:۔
اگر جسٹس افتخار شریف نے اپنے بھائی نواز شریف کے پِچھلی صدی سے زیرِ التوا مذکورہ بالا کیسز بھی اُسی تندہی سے چلائے ہوتے جیسے زرداری کے چلائے تھے تو آج یقینناً سیاسی نقشہ یوں نہ ہوتا۔ ججوں کی زرداری کیخلاف ائے روز کی ریمارکس نُما بڑھک بازی نے جیسے زرداری کیخلاف ہوا سازگار کی تھی نوروں کو بھی اُسی ہزیمت کا سامنا ہوتا الیکشنز میں جو زرداری گینگ کا مقدر بنی، لیکن جسٹس دجال کی مُجرمانہ خاموشی نوروں کی تائید ثابت ہوئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگ یہی سمجھتے رہے کہ نورا برادران بھی اگر چور ہوتے تو اُن پر بھی مقدمات چلتے۔ ہمارے ججز غیر جانبدار ہیں اور وہ کِسی حکومتی بدعُنوانی کو برداشت نہیں کر سکتے۔
اُنہیں یہ سمجھنے میں بہت دیر لگی کہ چیپ جسٹس خود مُسلم لیگ (ن) ججز وِنگ کا صدر ہے۔
بھلے اب بہت دیر ہو چُکی لیکن پھر بھی یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ
عزت مآب جسٹس افتخار شریف صاحب کی عدالتیں نوروں کیخلاف درج ذیل مقدمات
کے فیصلے چاہے نہ دیں کیونکہ ایسا کرنے کے نتیجے میں آپ اور برادر ججز کی نوروں کےہاتھوں جوتوں سے عزت افزائی کے امکانات یقینی ہیں۔
وجہ اِس خدشے کی یہ ہے کہ نورے ججوں کی خرید و فروخت اور بلیک میلنگ سے لے کر دِن دیہاڑے لترول کا طویل و عریض تجربہ رکھتے ہیں۔ نوروں کے سُپریم کورٹ پر حملے کے نتیجے میں ججوں کا جوتیاں چھوڑ بھاگتے ہوئے گیلی پنٹوں کے ساتھ اپنے چیمبرز اور باتھ روموں میں جا چھُپنا ہماری یادوں میں آج بھی تازہ ہے۔ چنانچہ ہم آپ سے وہی کرنے کو کہیں گے جِس میں آپ کو آسانی اور مہارت ہے۔ یعنی کیسز کے فیصلے کرنے کی بجائے روزانہ سماعت کریں اور بڑھک نُما "ریماکس" دے دے کر میڈیا میں زندہ و سُرخرو رہیں۔ بس زیادہ نہیں آپ صِرف چھ مہینے نوروں کے مزکورہ بالا مقدمات اُسی رفتار، تندہی اور ’’نیک نیتی‘‘ سے چلائیں جیسے زرداری گینگ کے خلاف چلاتے رہے ہیں، صُبح نو بجے سے لے کر شام پانچ بجے تک مختلف کیسز میں حکومت کے خلاف دِن بھر ویسے ہی ریمارکس پاس کریں جیسے پیپلز پارٹی کی مرکزی و صوبائی حکومتوں بارے گُذشتہ چار سال کرتے رہے ہیں، ہر روز کِسی افسر، سیکرٹری کو عدالتوں میں طلب کر کے سرزنش کر کے لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کو جعلی غم و غُصے کا اظہار کریں، سادہ دِلوں کو موہ لینے والے ڈائیلاگ ماریں ۔ ۔ ۔ ۔ پھِر نیوز چینلز ہر دس منٹ کے وقفے سے اِن ریمارکس کو سُرخ رنگ کے بریکنگ نیوز کے بینرز کے ساتھ چلائیں، پھِر سپوٹس اور دوسری خبروں کے دوران مسلسل ججوں کی اِنہی بڑھکوں (ریمارکس) کو ٹی وی سکرین کی نچلی طرف سُرخ پٹی میں مسلسل چالو رکھیں، پھِر ہر گھنٹے کے نیوز بُلیٹنز میں بھی یہ بڑھک نُما ریمارکس نیوز کاسٹر ایک خاص جوش و جذبے سے بار بار نشر کریں، پھِر شام سات بجے سے لے کر رات بارہ بجے تک ویسے ہی ٹاک شوز میں یکطرفہ مبصرین کی گرما گرم محفل سجا کر تجزیاتی پروگرامز پیش ہوں، یوں عوام کو بتایا جائے کہ یہ میاں نواز و شہباز شریف حکومتیں ہی ہے جِس نے آپکی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے، لوگوں کو سونے سے پہلے اور اُٹھنے کے بعد صبح، دوپہر شام یہ سب کُچھ حکیمی معجون کی طرح چٹوایا جائے پھِر ہم دیکھیں گے کہ عوامِ پاکستان میں نورے کِتنے شریف، پاکباز، محنتی اور خِدمتگار سمجھے جاتے ہیں۔ اِس مشقِ دلنشیں کے بعد اگر نورے اپنی آبائی سیٹیں بھی جیت جائیں تو مُجھے لاہوریوں کے ’’زندہ دِل‘‘ ہونے کا واقعی یقین ہو جائے گا۔
یہاں ایک اور نُکتہ جو نوٹ کیا جانا چاہیئے جو ایک تاریخی سچ ہے جسکے غیر منطقی و بودا ہونے میں تو کوئی کلام نہیں، وہ یہ کہ بھٹوز کے ساتھ تو ہمارے ہاں کے انپڑھ، شخصیت پرست، جذباتی عوام کا پھِر بھی کوئی شہادت، خوُن، قبر، جیل، پھانسی گھاٹ، زہر، لاٹھی، گولی، جُرات، بہادری کا کچا، پکا، کھرا، کھوٹا سا رشتہ ہوگا لیکن نوروں کا نور نامہ تو جیل میں ٹسوے بہانا، سارے خاندان کا معافی نامے لِکھ راتوں رات بھاگ نِکلنا، مفروری اور جدہ میں پناہ گیری جیسے گیدڑانہ کارناموں سے عبارت ہے۔ لوگ اِن کے اُس جعلی عکس میں مُبتلا ہیں جو اِنہوں نے برائے فروخت میڈیا میں اپنی گہری جڑوں اور پچیس تیس سالہ حکومتوں میں ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹس، بزنس برادری پر نوازشوں وغیرہ سے قائم کر رکھا ہے ورنہ جِس دِن عدالتوں اور میڈیا نے فقط چھ مہینے کے لیئے اِن نوروں کے ساتھ اُس سلوُک کا دسواں حصہ بھی برتا جو پیپلیوں کے ساتھ عشروں سے جاری ہے آپ دیکھیئے گا اِنکی جائے اماں جدہ اور لنڈن ہوگی رائے ونڈ یا اسلام آباد اِن کے لیئے سراب بن جائیں گے۔
تاریخ سے ہلکی سی شُدھ بُدھ رکھنے والے جانتے ہونگے کہ بھُٹو کی گرفتاری اور پھانسی پر اُسکے چاہنے والوں نے، کوڑے کھانے، جیل بھرو تحریک سے لے کر خود سوزیوں تک کیا کُچھ نہیں کیا تھا مگر جب بارہ اکتوبر کو نوروں کی حکومت کا تختہ اُلٹا گیا تو اِنکے اپنے شہر لاہور کی گوالمنڈی میں کھد، سِری، پائے کا ٹھیلا بھی اپنی جگہ سے نہیں سِرکا تھا جلسے، جلوس، ہڑتالیں تو کون کرتا۔
آخر میں پھر کہوں گا کہ دسیوں سالوں سے سٹے آرڈرز کی پھانس میں اٹکے نوروں کی بینک ڈکیتیوں اور منی لانڈرنگ کے مقدمات پر جسٹس افتخار شریف کی مُجرمانہ خاموشی اُنکی تائید تھی ورنہ عوام آج زرداری کے ساتھ ساتھ اِنہیں بھی برابر کا ڈکیت سمجھتے
Last edited by a moderator: