سیدنا حضرت عمر فاروق کا مقام و مرتبہ

Status
Not open for further replies.

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)
سیدنا حضرت عمر فاروق کا مقام و مرتبہ
حضور اکرم نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں دعاء کی اے پروردگار ! عمر یا ابوجہل میں جو تجھے پیارا ہو اس سے اسلام کو عزت عطا فرما۔
دعاء بارگاہ خداوندی میں قبول ہوئی اور آپ مشرف با اسلام ہو گئے۔ آپ کے اسلام قبول کرنے سے پہلے 39 مرد اسلام قبول کر چکے تھے آپ 40ویں مسلمان مرد تھے۔ آپ کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کو بہت خوشی ہوئی اور انہیں حوصلہ ملا۔ اسلام کی قوت میں اضافہ ہوا۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس کسی نے ہجرت کی چھپ کر کی مگر حضرت عمر مسلح ہو کر خانہ کعبہ میں آئے اور کفار کے سرداوں کو للکارا اور فرمایا کہ جو اپنے بچّوں کو یتیم کرنا چاہتا ہے وہ مجھے روک لے۔ حضرت عمر کی زبان سے نکلنے والے الفاظوں سے کفار مکہ پر لرزہ طاری ہو گیا اور کوئی مد مقابل نہ آیا۔ ہجرت کے بعد آپ نے جان و مال سے اسلام کی خوب خدمت کی۔ آپ نے اپنی تمام زندگی اسلام کی خدمت کرنے میں گزار دی۔ آپ حضور اکرم کے وفادار صحابی ہیں۔ آپ نے تمام اسلامی جنگوں میں مجاہدانہ کردار ادا کیا اور اسلام کے فروغ اور اس کی تحریکات میں حضور اکرم کے رفیق رہے۔
سیدنا حضرت عمر فاروق کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ آپ کی فضیلت میں بہت سی احادیث موجود ہیں۔ سرکار دو عالم کا ارشاد گرامی ہے۔
لو کان بعدی نبی لکان عمر بن الخطاب ۔
ترجمہ :۔ میرے بعد اگر نبی ہوتے تو عمر ہوتے۔ (مشکوٰۃ شریف ص558 )

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے یہ واضح ہوا کہ حضور اکرم آخری نبی ہیں۔ آپ پر نبوت و رسالت ختم ہو چکی۔ اب قیامت تک کوئی بھی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ جو اس واضح حقیقت کے باوجود دعوٰی نبوت کرے یا جو کوئی اس کو نبی یا رسول مانے وہ ملعون کاذب کافر و مرتد ہے۔ مذکورہ حدیث سے حضرت عمر فاروق کے مرتبے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر حضور پر نبوت ختم نہ ہوتی تو آپ کے بعد حضرت عمر فاروق نبی ہوتے۔
حضور اکرم نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا۔
بے شک میں نگاہ نبوت سے دیکھ رہا ہوں کہ جن کے شیطان اور انسان کے شیطان دونوں میرے عمر کے خوف سے بھاگتے ہیں۔ (مشکوٰۃ شریف ص558 )
ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد نے ارشاد فرمایا “اللہ تعالٰی نے عمر کی زبان اور قلب پر حق کو جاری فرما دیا۔ (بحوالہ مشکوٰۃ صفحہ557)
معلوم ہوا کہ سیدنا حضرت عمر فاروق ہمیشہ حق کہنے والے ہیں۔ ان کی زبان اور قلب پر کبھی باطل جاری نہیں ہوگا۔ اور یہ معلوم ہوا کہ سیدنا حضرت عمر فاروق کے خوف اور دبدبے سے شیطان اور ان کے آلہ کار بھاگتے ہیں۔
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ “جب حضرت عمر فاروق اسلام لائے تو حضرت جبرائیل حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ آسمان والے عمر کے اسلام پر خوش ہوئے ہیں۔ (ملاحظہ ہو ابن ماجہ بحوالہ برکات آل رسول صفحہ 291)
سیدنا حضرت عمر فاروق کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید کی بہت سی آیتیں آپ کی خواہش کے مطابق نازل ہوئیں۔ سیدنا حضرت علی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق کے رائیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔
تاریخ خلفاء میں ہے کہ حضرت عمر فاروق کسی معاملہ میں کوئی مشورہ دیتے تو قرآن مجید کی آیتیں آپ کے مشورے کے مطابق نازل ہوتیں۔ (تاریخ الخلفاء)
مسلمانو ! سیدنا حضرت عمر کے مشوروں کو اللہ تعالٰی کس طرح پسند فرماتا تھا اس کا اندازہ اس طرح لگائیے۔
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق نے حضور اکرم سے عرض کی یارسول اللہ ! آپ کی خدمت میں ہر طرح کے لوگ آتے جاتے ہیں اور اس وقت آپ کی خدمت میں آپ کی ازواج بھی ہوتی ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ آپ ان کو پردہ کرنے کا حکم دیں چنانچہ حضرت عمر کے اس طرح عرض کرنے پر ازواجِ مطہرات کے پردے کے بارے میں قرآن مجید کی آیت نازل ہوئی۔ ارشاد خداوندی ہے۔
واذا سالتموھن متاعا فسلوھن من ورآء حجاب (پ22 ع4)
ترجمہ :۔ اور جب تم امہات المومنین سے استمعال کرنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو۔
حضرت عمر فاروق اہل بیتؓ کی عظمت کے پیش نظر، دل و جان سے ان کا احترام کرتے تھے اور ان کا حق پہچانتے تھے اور ان سے تعلق جوڑنے میں فخر محسوس کرتے تھے اور انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ ضرت عمر فاروقؓ اپنے دورِ خلافت میں سیدنا عباسؓ بن عبدالمطلب سے بارش کی دعا کی درخواست کرتے تھے اور اُن کی دعا قبول بھی ہوتی تھی۔جب آپؓ نے اپنے دورِ خلافت میں صحابہ کرام ؓکے عطیات مقرر کئے تو اپنے سیکرٹری سے فرمایاکہ سب سے پہلے حضرت رسول کریمﷺکے خاندان کے افراد کے نام لکھو اور ان میں آپ کی بیویوں کے بعد بنی عبدمناف کے نام لکھو اور ان میں سے پہلے حضرت علیؓ اور پھر حسنؓ و حسینؓ کے نام لکھو۔
چنانچہ آپؓ نے سیدنا علی المرتضیٰ ؓکے لئے پانچ ہزار(۵۰۰۰)،سیدنا حسنؓ کے لئے چار ہزار(۴۰۰۰) اور سیدنا حسینؓ کے لئے تین ہزار(۳۰۰۰) دینار مقرر کئے۔ آپ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ ہاشمی کو کم سنی کے باوجود کبار صحابہ کرامؓ کی مجلس میں جگہ دیا کرتے تھے اور ان کے علم وفضل سے مستفید ہوا کرتے تھے۔
ہم لوگ تو حج یا عمرہ کے محدود سفر کے ساتھیوں کو عمر بھر نہیں بھولتے۔ وہ عظیم ہستیاں جنھوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی،آپ س سے اسلام او رایمان کا درس لیا، اورباہم متحد ہوکر کفارِ قریش سے نبرد آزما ہوئے، وہ پاکیزہ فطرت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جنہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کمان میں متفق اور متحد ہوکر جنگ بدر و اُحد لڑی ہو اور وہ غزوہ خندق میں اکٹھے محصور رہے ہوں، اور وہ شدید گرمیوں میں بے آب و گیاہ میدانوں اور سنگلاخ پہاڑوں اور وسیع و عریض ریگستانوں کو پیدل اور سوار طے کرکے میدان تبوک میں پہنچے ہوں اور ان مواقع پر انہوں نے اکٹھے ہوکر ظلم وستم کا مقابلہ کیا ہو۔ بھلا وہ آپس میں رحمدل اور متفق و متحدہ نہ تھے؟ یقیناً وہ متفق و متحد اور بنیانِ مرصوص تھے، اللہ نے انہیں باہم متفق و متحد کرکے رشتہ ایمان میں پرو دیا تھا اور وہ یک جان اور کئی قالب بن گئے تھے، انہی کے متعلق اللہ نے بیان کیا ہے :

’’ ھُوَ الَّذِیْ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ وَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الاَرْضِ جَمِیْعًا مَا اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ وَلٰکِنَّ اﷲَ اَلَّفَ بَیْنَھُمْ إنَّہٗ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ‘‘ (الانفال :۶۲)
''وہی اللہ جس نے اپنی نصرت اور مومنوں کے ذریعے تیری مدد فرمائی اور ان کے دلوں کو جوڑ دیا۔ اگر تو زمین میں جو کچھ ہے وہ سارے کا سارا خرچ کر ڈالتا تو بھی ان کے دلوں کو نہ جوڑ سکتا تھا، لیکن اللہ نے ان کے دلوں کو جوڑ دیا،بیشک وہ غالب حکمت والا ہے۔''
حضرت عمر فاروق کی اہل بیتؓ سے محبت مثالی تھی، آپ نے حضرت علی کی فاطمی اولاد حضرت ام کلثوم سے شادی کی تھی اور ان کو سب سے زیادہ مہر دیا تھا۔
حضرت فاطمہؓ کی بیٹی ام کلثوم بنت علیؓ جو زینب الصغری کہلاتی تھیں ،،ان سے عمر ابن الخطابؓ نے شادی کی اور ام کلثوم سے رقیہ اور زید بن عمر پیدا ھوئے ،،
اس طرح حضرت عمر فاروق داماد علی کا رشتہ رکھتے تھے، یہ رشتہ علی اور اہل بیت سے حضرت عمر کی محبت کی ایک مثال ہے۔

 
Last edited by a moderator:
Status
Not open for further replies.

Back
Top