Hunain Khalid
Chief Minister (5k+ posts)
اگر میں آپ سب سے یہ سوال پُوچھوں کہ ایسے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے سیاسی جماعت کو ہارون الرشید، رائوف کلاسرا، معید پیرزادہ، جاوید چوہدری، ارشد شریف، طلعت حسین، عارف نظامی، مجیب شامی، مبشرلقمان، حمید بھٹی، حسن نثار، صابر شاکر یا شاہد مسعود کی وجہ سے جوائن کیا ؟
میرا خیال ہے تقریبا سب کا جواب یہی ہو گا کہ ہم نے اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کو جوائن اس کی پالیسی، منشور یا قیادت کی وجہ سے کیا ہے۔۔۔۔۔ ایسی کسی میڈیائی یا اخباری شخصیت کے لیے نہیں ۔۔۔۔
درست۔۔ ہونا بھی ایسا ہی چاہیے۔۔۔ کیونکہ صحافی کوئی بھی ہو ان کا تعلق اور تجربہ صحافت سے ہوا کرتا ہے۔۔۔ انہوں نے اپنی پہچان صحافت میں بنائی ہے۔۔۔۔ سیاست میں نام نہیں کمایا۔۔۔ اگر یہ عملی سیاست کو اتنا ہی سمجھتے تو آج خود ہی اپنی تجاویز اور مشوروں پر عمل کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت کے ہیڈ ہوتے۔۔۔۔۔ سیاست کا ان کو اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا کسی میڈیکل سٹور والے کو ڈاکٹریٹ کے بارے میں ہوتا ہے۔۔۔۔ یہ سیاست پر گفتگو ضرور کرتے ہیں۔۔۔ سیاستدانوں سے روابط ضرور قائم کرتے ہیں لیکن خود عملی سیاست میں نہیں ہوتے۔۔۔ ان کی سیاسی رائے سے اختلاف اور اتفاق کرنے کا حق سب کو حاصل ہے۔۔۔۔ ہمیں ان کی رائے کا احترام ہے۔۔۔ لیکن اگر کوئی صحافی اس خام خیالی میں ہے کہ لوگ صحافیوں کی رائے پر کسی جماعت میں شامل ہوتے یا ان کو رد کرتے ہیں تو اس کو ضرور نطر ثانی کر لینی چاہیے۔۔۔۔
دوسری چیز ان صحافیوں کے ذاتی مفادات ہیں ۔۔۔ جو صرف ان سیاستدانوں سے لفافہ وصول کرنے یا ذاتی کام نکالنے تک محدود نہیں ہیں۔۔ جبکہ اس کے علاوہ کچھ صحافی اپنی ذاتی اناء کی تسکین کے لیے یہ بھی چاہنے لگتے ہیں کہ جماعت کا کوئی بھی فیصلہ ان کی مشاورت اور ایما کے بغیر نہ کیا جائے۔۔۔ ٹکٹوں کی تقسیم سے لے کر کورکمیٹی کے معاملات اور فیصلوں تک میں وہ اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے خواہاں ہونے لگتے ہیں۔۔۔
تیسری چیز یہ ہے کہ وقت کے سلطان کے ساتھ جو بھی ادیب، شاعر، عالم، ملا، صحافی کھڑا نظر آئے وہ پست اخلاق اور کردار کا مالک ہو گا۔۔۔۔ اپوزیشن میں نون لیگ ہو، تحریک انصاف ہو یا پیپلز پارٹی، ان کے ساتھ کھڑا ہونے والا کوئی بھی صحافی، شاعر، ادیب یا دانشور اول الذکر سے بہرحال بہتر ہو گا۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے کلیہ یہ نہیں ہے کہ آپ کس سیاسی جماعت سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ کلیہ یہ ہے کہ جب وہ سیاسی جماعت حکومت میں ہوتی ہے تو آپ اس کے ساتھ کھڑے نظر نا آئیں، اس کے دفاعی سپاہی نہ بن جائیں۔ ایک اصل اور حقیقی دانشور ہمیشہ مزاحمت پسند ہوتا ہے۔ کم سے کم جو وہ کر سکتا ہے وہ ہے خاموشی اختیار کر لینا۔ اس لئے ایسے لوگ جو حکمرانوں کا دفاع کرتے ہیں، کرپشن کی توجیہات پیش کرتے ہیں، وہ اپنے دامن کو خود ہی داغدار کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
عطاء الحق قاسمی صاحب نواز شریف کے ساتھ تھے کافی عرصے سے مگر جب وہ سلطان بن گیا تو کنارہ کشی اختیار کر لینا بہتر تھا۔ یہی ادبی اخلاقیات ہیں۔ یہی صحافیانہ اخلاقیات ہیں۔ صحافی ہمیشہ حزب اختلاف کے ساتھ ہوتا ہے اور حزب اقتدار کا ناقد۔ یہی جمہوری روایات بھی ہیں اور یہی دنیا کے ہر مہذب ملک میں ہوتا ہے۔ اس کا کسی خاص سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔ مثلا ہارون الرشید اور حسن نثار صاحب عمران خان کی عشروں سے وکالت کرنے والے ہیں۔ لیکن اگر یہ لوگ صاحب کردار ہوئے تو عمران خان کے اقتدار میں آتے ہی اس سے کنارہ کشی اختیار کر کے الٹا اپنی توپوں کا رخ اسی کی طرف کر دیں گے۔ اگر نہ کیا تو ان کی اور قاسمی صاحب کی اخلاقی حیثیت میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔ حاکم کی صحبت کسی بھی حقیقی شاعر، ادیب، صحافی اور دانشور کی اعلی اخلاقی برتری کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔۔۔۔
(serious)