سکولوں میں مذہبی تعلیم نہیں دینی چاہئے

Baadshaah

MPA (400+ posts)
آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 22 کلاز 1 کہتا ہے

22. Safeguards as to educational institutions in respect of religion, etc.

(1) No person attending any educational institution shall be required to receive religious instruction, or take part in any religious ceremony, or attend religious worship, if such instruction, ceremony or worship relates to a religion other than his own.

یعنی آپ تعلیمی اداروں میں کسی بھی شخص کو اس کے اپنے مذہب کی بجائے کسی دوسرے مذہب کی تعلیم نہیں دے سکتے۔۔ پاکستان میں سکولوں کے نصاب میں اردو، انگلش، مطالعہ پاکستان سے لے کر سائنس کی کتابوں تک سب میں مذہبِ اسلام کو داخل کیا ہوا ہے۔ فرض کریں ایک کلاس میں بیٹھے ہوئے بچوں میں کچھ ہندو بچے ہیں، کچھ عیسائی ہیں۔ ان کو جب زبردستی ان درسی کتابوں کے ذریعے اسلام پڑھایا جائے گا تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہے اور ان اقلیتوں کے حقوق سلب کرنے والی بات ہے۔۔ بیالوجی میں جگہ جگہ لکھا پایا جاتا ہے کہ فلاں چیز اللہ نے یوں بنائی اور فلاں چیز یوں بنائی، کئی چیزوں کو بیان کرتے وقت، جیسا کہ پیدائش کے مراحل کو بیان کرتے وقت قرآن کی آیتیں لکھ دی جاتی ہیں، یہ بھی آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

کچھ لوگ اس مسئلے کا یہ حل پیش کرتے ہیں کہ ساری اسلامی تعلیمات ایک ہی کتاب میں جمع کردی جائیں، مثلاً اسلامیات میں اور دیگر مذاہب کے بچوں کو اسلامیات کے متبادل اخلاقیات کا مضمون پڑھایا جائے۔۔ اس "حل" میں بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ فرض کریں جب بچوں کو اسلامیات پڑھانے کا پیریڈ ہوگا تو ٹیچر اعلان کرے گا کہ جو بچے غیر مسلم ہیں، وہ کلاس سے نکل جائیں، یا پھر اگر اسی وقت ان کے اخلاقیات کے مضمون کا پیریڈ ہوگا تو انہیں الگ ہوکر اخلاقیات پڑھنے جانا ہوگا، یہاں کلاس میں واضح طور پر تفریق پیدا ہوجائے گی کہ کون مسلمان ہے، کون ہندو ہے،کون عیسائی ہے۔ جو بچے کل تک بغیر کسی مذہبی تعصب کے، بغیر کسی تقسیم کے گھل مل کر پڑھتے تھے، جب مذہب کی بنیاد پر ان کو الگ الگ کیا جائے گا تو ان کے ذہنوں پر کیا اثر پڑھے گی۔ کیا ہم اپنی نسلوں کو مذہبی منافرت کے ساتھ بڑا کرنا چاہتے ہیں۔۔


ایک ایسا سکول جس میں سارے ہی مسلمان بچے پڑھتے ہوں، وہاں بھی مذہبی تعلیم نہیں دی جانی چاہئے۔ کیونکہ مسلمانوں میں کافی سارے فرقے ہیں اور ہر فرقے کا اپنا اپنا اسلام کا ورژن ہے۔ فرض کریں آپ کلاس میں خلفائے راشدین پڑھاتے ہیں، حضرت عمر، حضرت ابوبکر ، حضرت عثمان کی شان پڑھاتے ہیں، حضرت عائشہ کی خدماتِ اسلام پڑھاتے ہیں تو یہ کلاس میں بیٹھے شیعہ بچوں کے عقیدے کے خلاف جائے گا۔

موجودہ حکومت نے تمام تعلیمی کتابوں میں پیغمبر اسلام کے نام کے ساتھ خاتم النبین کے سابقے کا اضافہ کردیا ہے اور جہاں جہاں پیغمبر اسلام کا نام آئے گا وہیں، وہیں خاتم النبین لکھا جائے گا۔ اب یہاں بھی بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے۔ آئینِ پاکستان کی رو سے احمدی / قادیانی اقلیت ہیں اور وہ پیغمبر اسلام کی ختمِ نبوت کے قائل نہیں۔ تو جب آپ زبردستی ان کو خاتم النبیین پڑھانے پر مجبور کریں گے تو یہ آئین کے آرٹیکل 22 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوگی۔۔۔

اس سارے مسئلے کا حل صرف اور صرف ایک ہے کہ سکولوں میں مذہب کی تعلیم بالکل نہ دی جائے، سارا نصاب سیکولر ہو۔ جب بچے مذہب کی تعلیم پہلے ہی اپنے گھروں سے حاصل کرتے ہیں تو سکولوں میں ان کو اس بکھیڑے میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے
۔
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 22 کلاز 1 کہتا ہے

22. Safeguards as to educational institutions in respect of religion, etc.



یعنی آپ تعلیمی اداروں میں کسی بھی شخص کو اس کے اپنے مذہب کی بجائے کسی دوسرے مذہب کی تعلیم نہیں دے سکتے۔۔ پاکستان میں سکولوں کے نصاب میں اردو، انگلش، مطالعہ پاکستان سے لے کر سائنس کی کتابوں تک سب میں مذہبِ اسلام کو داخل کیا ہوا ہے۔ فرض کریں ایک کلاس میں بیٹھے ہوئے بچوں میں کچھ ہندو بچے ہیں، کچھ عیسائی ہیں۔ ان کو جب زبردستی ان درسی کتابوں کے ذریعے اسلام پڑھایا جائے گا تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہے اور ان اقلیتوں کے حقوق سلب کرنے والی بات ہے۔۔ بیالوجی میں جگہ جگہ لکھا پایا جاتا ہے کہ فلاں چیز اللہ نے یوں بنائی اور فلاں چیز یوں بنائی، کئی چیزوں کو بیان کرتے وقت، جیسا کہ پیدائش کے مراحل کو بیان کرتے وقت قرآن کی آیتیں لکھ دی جاتی ہیں، یہ بھی آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

کچھ لوگ اس مسئلے کا یہ حل پیش کرتے ہیں کہ ساری اسلامی تعلیمات ایک ہی کتاب میں جمع کردی جائیں، مثلاً اسلامیات میں اور دیگر مذاہب کے بچوں کو اسلامیات کے متبادل اخلاقیات کا مضمون پڑھایا جائے۔۔ اس "حل" میں بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ فرض کریں جب بچوں کو اسلامیات پڑھانے کا پیریڈ ہوگا تو ٹیچر اعلان کرے گا کہ جو بچے غیر مسلم ہیں، وہ کلاس سے نکل جائیں، یا پھر اگر اسی وقت ان کے اخلاقیات کے مضمون کا پیریڈ ہوگا تو انہیں الگ ہوکر اخلاقیات پڑھنے جانا ہوگا، یہاں کلاس میں واضح طور پر تفریق پیدا ہوجائے گی کہ کون مسلمان ہے، کون ہندو ہے،کون عیسائی ہے۔ جو بچے کل تک بغیر کسی مذہبی تعصب کے، بغیر کسی تقسیم کے گھل مل کر پڑھتے تھے، جب مذہب کی بنیاد پر ان کو الگ الگ کیا جائے گا تو ان کے ذہنوں پر کیا اثر پڑھے گی۔ کیا ہم اپنی نسلوں کو مذہبی منافرت کے ساتھ بڑا کرنا چاہتے ہیں۔۔


ایک ایسا سکول جس میں سارے ہی مسلمان بچے پڑھتے ہوں، وہاں بھی مذہبی تعلیم نہیں دی جانی چاہئے۔ کیونکہ مسلمانوں میں کافی سارے فرقے ہیں اور ہر فرقے کا اپنا اپنا اسلام کا ورژن ہے۔ فرض کریں آپ کلاس میں خلفائے راشدین پڑھاتے ہیں، حضرت عمر، حضرت ابوبکر ، حضرت عثمان کی شان پڑھاتے ہیں، حضرت عائشہ کی خدماتِ اسلام پڑھاتے ہیں تو یہ کلاس میں بیٹھے شیعہ بچوں کے عقیدے کے خلاف جائے گا۔

موجودہ حکومت نے تمام تعلیمی کتابوں میں پیغمبر اسلام کے نام کے ساتھ خاتم النبین کے سابقے کا اضافہ کردیا ہے اور جہاں جہاں پیغمبر اسلام کا نام آئے گا وہیں، وہیں خاتم النبین لکھا جائے گا۔ اب یہاں بھی بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے۔ آئینِ پاکستان کی رو سے احمدی / قادیانی اقلیت ہیں اور وہ پیغمبر اسلام کی ختمِ نبوت کے قائل نہیں۔ تو جب آپ زبردستی ان کو خاتم النبیین پڑھانے پر مجبور کریں گے تو یہ آئین کے آرٹیکل 22 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوگی۔۔۔

اس سارے مسئلے کا حل صرف اور صرف ایک ہے کہ سکولوں میں مذہب کی تعلیم بالکل نہ دی جائے، سارا نصاب سیکولر ہو۔ جب بچے مذہب کی تعلیم پہلے ہی اپنے گھروں سے حاصل کرتے ہیں تو سکولوں میں ان کو اس بکھیڑے میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے
۔
مذہبی تعلیم و تبلیغ میں فرق ہے۔ ادھر ملحد سیکولر ناروے میں ہمارے بچوں کو پہلی جماعت سے لیکر کالج تک مختلف مذاہب کی تعلیم دی جاتی ہے۔ جیسے ان مذاہب کے ماننے والے کیا سوچتے ہیں، پہنتے ہیں، کھاتے ہیں۔ ان کی مذہبی رسومات کون کونسی ہیں۔
جبکہ پاکستانی اسکولوں میں اسلام کی تبلیغ کی جاتی ہیں۔ قادیانیوں کو کافر کہا جاتا ہے۔ فرقہ بازی کو ہوا دی جاتی ہے۔ مذہبی جہالت پھیلائی جاتی ہے۔
 

Baadshaah

MPA (400+ posts)
مذہبی تعلیم و تبلیغ میں فرق ہے۔ ادھر ملحد سیکولر ناروے میں ہمارے بچوں کو پہلی جماعت سے لیکر کالج تک مختلف مذاہب کی تعلیم دی جاتی ہے۔ جیسے ان مذاہب کے ماننے والے کیا سوچتے ہیں، پہنتے ہیں، کھاتے ہیں۔ ان کی مذہبی رسومات کون کونسی ہیں۔
جبکہ پاکستانی اسکولوں میں اسلام کی تبلیغ کی جاتی ہیں۔ قادیانیوں کو کافر کہا جاتا ہے۔ فرقہ بازی کو ہوا دی جاتی ہے۔ مذہبی جہالت پھیلائی جاتی ہے۔

 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
سفید فام انتہا پسند کہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان فیکٹریوں کو بند کیا جائے

کالے انگریز پیدا کرنے والے کارخانوں کا نصاب بدلا جائے
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
غیر مسلم اقوام کے مذہبی و غیر مذہبی افراد ان کی قوم کے لئے مل جل کر کام کر ہے. دونوں طبقے آپسی اتحاد و اتفاق کے ساتھ مذہبی و قومی اہداف حاصل کر رہے ہیں. جبکہ کے پاکستانی و مسلم سیکولرز کے نزدیک سیکولر ہونے کے مطلب اسلام مخالف ہونا ہے اور وہ یہی ہدف حاصل کرنے میں مصروف ہیں. کچھ اور کرنا ان کے بس کی بات نہیں ان کی پروگرامنگ میں مذہب مخالفت ہی لکھی گئی ہے
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
غیر مسلم اقوام کے مذہبی و غیر مذہبی افراد ان کی قوم کے لئے مل جل کر کام کر ہے. دونوں طبقے آپسی اتحاد و اتفاق کے ساتھ مذہبی و قومی اہداف حاصل کر رہے ہیں. جبکہ کے پاکستانی و مسلم سیکولرز کے نزدیک سیکولر ہونے کے مطلب اسلام مخالف ہونا ہے اور وہ یہی ہدف حاصل کرنے میں مصروف ہیں. کچھ اور کرنا ان کے بس کی بات نہیں ان کی پروگرامنگ میں مذہب مخالفت ہی لکھی گئی ہے
یہ تم جیسے اسلامی انتہا پسندوں کا ردعمل ہے جو مذہبی تعلیم و تبلیغ میں فرق نہیں کرتے
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
یہ تم جیسے اسلامی انتہا پسندوں کا ردعمل ہے جو مذہبی تعلیم و تبلیغ میں فرق نہیں کرتے
یہ تمہارے جیسے ذہنی غلام ہیں جو اسلام دشمنی میں تحقیق و ترقی کر رہے ہیں
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
یہ تمہارے جیسے ذہنی غلام ہیں جو اسلام دشمنی میں تحقیق و ترقی کر رہے ہیں
عرب یہود و عیسائی دشمن نہیں تھے۔ ان کے اندر یہودیوں اور عیسائیوں سے دشمنی اسلام نے ڈالی۔ اپنا گریبان جھانکو پہلے
 

Baadshaah

MPA (400+ posts)
غیر مسلم اقوام کے مذہبی و غیر مذہبی افراد ان کی قوم کے لئے مل جل کر کام کر ہے. دونوں طبقے آپسی اتحاد و اتفاق کے ساتھ مذہبی و قومی اہداف حاصل کر رہے ہیں. جبکہ کے پاکستانی و مسلم سیکولرز کے نزدیک سیکولر ہونے کے مطلب اسلام مخالف ہونا ہے اور وہ یہی ہدف حاصل کرنے میں مصروف ہیں. کچھ اور کرنا ان کے بس کی بات نہیں ان کی پروگرامنگ میں مذہب مخالفت ہی لکھی گئی ہے

حضرت صاحب۔۔ موضوع پر بات کریں۔۔ کیا غیر مسلموں کو زبردستی اسلام کی تعلیم دینا آئین کے آرٹیکل 22 کی خلاف ورزی ہے یا نہیں۔۔۔؟؟
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
حضرت صاحب۔۔ موضوع پر بات کریں۔۔ کیا غیر مسلموں کو زبردستی اسلام کی تعلیم دینا آئین کے آرٹیکل 22 کی خلاف ورزی ہے یا نہیں۔۔۔؟؟
لوگوں کو جاہل رکھ کر زبردستی پٹواری جیالا بنانا بھی آئین کی خلاف ورزی ہے
 

Hunter_

MPA (400+ posts)
آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 22 کلاز 1 کہتا ہے

22. Safeguards as to educational institutions in respect of religion, etc.



یعنی آپ تعلیمی اداروں میں کسی بھی شخص کو اس کے اپنے مذہب کی بجائے کسی دوسرے مذہب کی تعلیم نہیں دے سکتے۔۔ پاکستان میں سکولوں کے نصاب میں اردو، انگلش، مطالعہ پاکستان سے لے کر سائنس کی کتابوں تک سب میں مذہبِ اسلام کو داخل کیا ہوا ہے۔ فرض کریں ایک کلاس میں بیٹھے ہوئے بچوں میں کچھ ہندو بچے ہیں، کچھ عیسائی ہیں۔ ان کو جب زبردستی ان درسی کتابوں کے ذریعے اسلام پڑھایا جائے گا تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہے اور ان اقلیتوں کے حقوق سلب کرنے والی بات ہے۔۔ بیالوجی میں جگہ جگہ لکھا پایا جاتا ہے کہ فلاں چیز اللہ نے یوں بنائی اور فلاں چیز یوں بنائی، کئی چیزوں کو بیان کرتے وقت، جیسا کہ پیدائش کے مراحل کو بیان کرتے وقت قرآن کی آیتیں لکھ دی جاتی ہیں، یہ بھی آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

کچھ لوگ اس مسئلے کا یہ حل پیش کرتے ہیں کہ ساری اسلامی تعلیمات ایک ہی کتاب میں جمع کردی جائیں، مثلاً اسلامیات میں اور دیگر مذاہب کے بچوں کو اسلامیات کے متبادل اخلاقیات کا مضمون پڑھایا جائے۔۔ اس "حل" میں بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ فرض کریں جب بچوں کو اسلامیات پڑھانے کا پیریڈ ہوگا تو ٹیچر اعلان کرے گا کہ جو بچے غیر مسلم ہیں، وہ کلاس سے نکل جائیں، یا پھر اگر اسی وقت ان کے اخلاقیات کے مضمون کا پیریڈ ہوگا تو انہیں الگ ہوکر اخلاقیات پڑھنے جانا ہوگا، یہاں کلاس میں واضح طور پر تفریق پیدا ہوجائے گی کہ کون مسلمان ہے، کون ہندو ہے،کون عیسائی ہے۔ جو بچے کل تک بغیر کسی مذہبی تعصب کے، بغیر کسی تقسیم کے گھل مل کر پڑھتے تھے، جب مذہب کی بنیاد پر ان کو الگ الگ کیا جائے گا تو ان کے ذہنوں پر کیا اثر پڑھے گی۔ کیا ہم اپنی نسلوں کو مذہبی منافرت کے ساتھ بڑا کرنا چاہتے ہیں۔۔


ایک ایسا سکول جس میں سارے ہی مسلمان بچے پڑھتے ہوں، وہاں بھی مذہبی تعلیم نہیں دی جانی چاہئے۔ کیونکہ مسلمانوں میں کافی سارے فرقے ہیں اور ہر فرقے کا اپنا اپنا اسلام کا ورژن ہے۔ فرض کریں آپ کلاس میں خلفائے راشدین پڑھاتے ہیں، حضرت عمر، حضرت ابوبکر ، حضرت عثمان کی شان پڑھاتے ہیں، حضرت عائشہ کی خدماتِ اسلام پڑھاتے ہیں تو یہ کلاس میں بیٹھے شیعہ بچوں کے عقیدے کے خلاف جائے گا۔

موجودہ حکومت نے تمام تعلیمی کتابوں میں پیغمبر اسلام کے نام کے ساتھ خاتم النبین کے سابقے کا اضافہ کردیا ہے اور جہاں جہاں پیغمبر اسلام کا نام آئے گا وہیں، وہیں خاتم النبین لکھا جائے گا۔ اب یہاں بھی بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے۔ آئینِ پاکستان کی رو سے احمدی / قادیانی اقلیت ہیں اور وہ پیغمبر اسلام کی ختمِ نبوت کے قائل نہیں۔ تو جب آپ زبردستی ان کو خاتم النبیین پڑھانے پر مجبور کریں گے تو یہ آئین کے آرٹیکل 22 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوگی۔۔۔

اس سارے مسئلے کا حل صرف اور صرف ایک ہے کہ سکولوں میں مذہب کی تعلیم بالکل نہ دی جائے، سارا نصاب سیکولر ہو۔ جب بچے مذہب کی تعلیم پہلے ہی اپنے گھروں سے حاصل کرتے ہیں تو سکولوں میں ان کو اس بکھیڑے میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے
۔
mirza
آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 22 کلاز 1 کہتا ہے

22. Safeguards as to educational institutions in respect of religion, etc.



یعنی آپ تعلیمی اداروں میں کسی بھی شخص کو اس کے اپنے مذہب کی بجائے کسی دوسرے مذہب کی تعلیم نہیں دے سکتے۔۔ پاکستان میں سکولوں کے نصاب میں اردو، انگلش، مطالعہ پاکستان سے لے کر سائنس کی کتابوں تک سب میں مذہبِ اسلام کو داخل کیا ہوا ہے۔ فرض کریں ایک کلاس میں بیٹھے ہوئے بچوں میں کچھ ہندو بچے ہیں، کچھ عیسائی ہیں۔ ان کو جب زبردستی ان درسی کتابوں کے ذریعے اسلام پڑھایا جائے گا تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہے اور ان اقلیتوں کے حقوق سلب کرنے والی بات ہے۔۔ بیالوجی میں جگہ جگہ لکھا پایا جاتا ہے کہ فلاں چیز اللہ نے یوں بنائی اور فلاں چیز یوں بنائی، کئی چیزوں کو بیان کرتے وقت، جیسا کہ پیدائش کے مراحل کو بیان کرتے وقت قرآن کی آیتیں لکھ دی جاتی ہیں، یہ بھی آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

کچھ لوگ اس مسئلے کا یہ حل پیش کرتے ہیں کہ ساری اسلامی تعلیمات ایک ہی کتاب میں جمع کردی جائیں، مثلاً اسلامیات میں اور دیگر مذاہب کے بچوں کو اسلامیات کے متبادل اخلاقیات کا مضمون پڑھایا جائے۔۔ اس "حل" میں بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ فرض کریں جب بچوں کو اسلامیات پڑھانے کا پیریڈ ہوگا تو ٹیچر اعلان کرے گا کہ جو بچے غیر مسلم ہیں، وہ کلاس سے نکل جائیں، یا پھر اگر اسی وقت ان کے اخلاقیات کے مضمون کا پیریڈ ہوگا تو انہیں الگ ہوکر اخلاقیات پڑھنے جانا ہوگا، یہاں کلاس میں واضح طور پر تفریق پیدا ہوجائے گی کہ کون مسلمان ہے، کون ہندو ہے،کون عیسائی ہے۔ جو بچے کل تک بغیر کسی مذہبی تعصب کے، بغیر کسی تقسیم کے گھل مل کر پڑھتے تھے، جب مذہب کی بنیاد پر ان کو الگ الگ کیا جائے گا تو ان کے ذہنوں پر کیا اثر پڑھے گی۔ کیا ہم اپنی نسلوں کو مذہبی منافرت کے ساتھ بڑا کرنا چاہتے ہیں۔۔


ایک ایسا سکول جس میں سارے ہی مسلمان بچے پڑھتے ہوں، وہاں بھی مذہبی تعلیم نہیں دی جانی چاہئے۔ کیونکہ مسلمانوں میں کافی سارے فرقے ہیں اور ہر فرقے کا اپنا اپنا اسلام کا ورژن ہے۔ فرض کریں آپ کلاس میں خلفائے راشدین پڑھاتے ہیں، حضرت عمر، حضرت ابوبکر ، حضرت عثمان کی شان پڑھاتے ہیں، حضرت عائشہ کی خدماتِ اسلام پڑھاتے ہیں تو یہ کلاس میں بیٹھے شیعہ بچوں کے عقیدے کے خلاف جائے گا۔

موجودہ حکومت نے تمام تعلیمی کتابوں میں پیغمبر اسلام کے نام کے ساتھ خاتم النبین کے سابقے کا اضافہ کردیا ہے اور جہاں جہاں پیغمبر اسلام کا نام آئے گا وہیں، وہیں خاتم النبین لکھا جائے گا۔ اب یہاں بھی بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے۔ آئینِ پاکستان کی رو سے احمدی / قادیانی اقلیت ہیں اور وہ پیغمبر اسلام کی ختمِ نبوت کے قائل نہیں۔ تو جب آپ زبردستی ان کو خاتم النبیین پڑھانے پر مجبور کریں گے تو یہ آئین کے آرٹیکل 22 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوگی۔۔۔

اس سارے مسئلے کا حل صرف اور صرف ایک ہے کہ سکولوں میں مذہب کی تعلیم بالکل نہ دی جائے، سارا نصاب سیکولر ہو۔ جب بچے مذہب کی تعلیم پہلے ہی اپنے گھروں سے حاصل کرتے ہیں تو سکولوں میں ان کو اس بکھیڑے میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے
۔
kia aaj Qadyanio ko Musalman samaghtay hain
 

Hunter_

MPA (400+ posts)
آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 22 کلاز 1 کہتا ہے

22. Safeguards as to educational institutions in respect of religion, etc.



یعنی آپ تعلیمی اداروں میں کسی بھی شخص کو اس کے اپنے مذہب کی بجائے کسی دوسرے مذہب کی تعلیم نہیں دے سکتے۔۔ پاکستان میں سکولوں کے نصاب میں اردو، انگلش، مطالعہ پاکستان سے لے کر سائنس کی کتابوں تک سب میں مذہبِ اسلام کو داخل کیا ہوا ہے۔ فرض کریں ایک کلاس میں بیٹھے ہوئے بچوں میں کچھ ہندو بچے ہیں، کچھ عیسائی ہیں۔ ان کو جب زبردستی ان درسی کتابوں کے ذریعے اسلام پڑھایا جائے گا تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہے اور ان اقلیتوں کے حقوق سلب کرنے والی بات ہے۔۔ بیالوجی میں جگہ جگہ لکھا پایا جاتا ہے کہ فلاں چیز اللہ نے یوں بنائی اور فلاں چیز یوں بنائی، کئی چیزوں کو بیان کرتے وقت، جیسا کہ پیدائش کے مراحل کو بیان کرتے وقت قرآن کی آیتیں لکھ دی جاتی ہیں، یہ بھی آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

کچھ لوگ اس مسئلے کا یہ حل پیش کرتے ہیں کہ ساری اسلامی تعلیمات ایک ہی کتاب میں جمع کردی جائیں، مثلاً اسلامیات میں اور دیگر مذاہب کے بچوں کو اسلامیات کے متبادل اخلاقیات کا مضمون پڑھایا جائے۔۔ اس "حل" میں بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ فرض کریں جب بچوں کو اسلامیات پڑھانے کا پیریڈ ہوگا تو ٹیچر اعلان کرے گا کہ جو بچے غیر مسلم ہیں، وہ کلاس سے نکل جائیں، یا پھر اگر اسی وقت ان کے اخلاقیات کے مضمون کا پیریڈ ہوگا تو انہیں الگ ہوکر اخلاقیات پڑھنے جانا ہوگا، یہاں کلاس میں واضح طور پر تفریق پیدا ہوجائے گی کہ کون مسلمان ہے، کون ہندو ہے،کون عیسائی ہے۔ جو بچے کل تک بغیر کسی مذہبی تعصب کے، بغیر کسی تقسیم کے گھل مل کر پڑھتے تھے، جب مذہب کی بنیاد پر ان کو الگ الگ کیا جائے گا تو ان کے ذہنوں پر کیا اثر پڑھے گی۔ کیا ہم اپنی نسلوں کو مذہبی منافرت کے ساتھ بڑا کرنا چاہتے ہیں۔۔


ایک ایسا سکول جس میں سارے ہی مسلمان بچے پڑھتے ہوں، وہاں بھی مذہبی تعلیم نہیں دی جانی چاہئے۔ کیونکہ مسلمانوں میں کافی سارے فرقے ہیں اور ہر فرقے کا اپنا اپنا اسلام کا ورژن ہے۔ فرض کریں آپ کلاس میں خلفائے راشدین پڑھاتے ہیں، حضرت عمر، حضرت ابوبکر ، حضرت عثمان کی شان پڑھاتے ہیں، حضرت عائشہ کی خدماتِ اسلام پڑھاتے ہیں تو یہ کلاس میں بیٹھے شیعہ بچوں کے عقیدے کے خلاف جائے گا۔

موجودہ حکومت نے تمام تعلیمی کتابوں میں پیغمبر اسلام کے نام کے ساتھ خاتم النبین کے سابقے کا اضافہ کردیا ہے اور جہاں جہاں پیغمبر اسلام کا نام آئے گا وہیں، وہیں خاتم النبین لکھا جائے گا۔ اب یہاں بھی بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے۔ آئینِ پاکستان کی رو سے احمدی / قادیانی اقلیت ہیں اور وہ پیغمبر اسلام کی ختمِ نبوت کے قائل نہیں۔ تو جب آپ زبردستی ان کو خاتم النبیین پڑھانے پر مجبور کریں گے تو یہ آئین کے آرٹیکل 22 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوگی۔۔۔

اس سارے مسئلے کا حل صرف اور صرف ایک ہے کہ سکولوں میں مذہب کی تعلیم بالکل نہ دی جائے، سارا نصاب سیکولر ہو۔ جب بچے مذہب کی تعلیم پہلے ہی اپنے گھروں سے حاصل کرتے ہیں تو سکولوں میں ان کو اس بکھیڑے میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے
۔
bhai sahab aap apna kuch tarauf karain, aap ke qualification aap ka kis school of thought sy talauq hy , or abhe Pakistan main hain ya bairon e Mulk main, aisay he koi bhe aai or yahan mashwara dy jae as an anonymous or soochay Pakistan ke taqdeer badal dy ga bhai itne bhe khush fahmi sahi nahi
 

Hunter_

MPA (400+ posts)
عرب یہود و عیسائی دشمن نہیں تھے۔ ان کے اندر یہودیوں اور عیسائیوں سے دشمنی اسلام نے ڈالی۔ اپنا گریبان جھانکو پہلے
yea aap ko kis ny kaha, Yahoodion ny to Hazrat Isa A.S ko sooli pr charhany ka kia vo alag baat hy aisa ho nahi saka, ain ky larai to Islam sy pahly sy he hy aap ko apny comment pr nazar sani krni ho ge
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
بلو رانی و بھٹو کے غلاموں پر

images


 

FahadBhatti

Chief Minister (5k+ posts)
Asal mein islami taleem ke elehda madrassay nahin hone chahye , ye dunyawi taleem ke saath hee chalni chahye.

saray maslay hee jab peda huye aur firqa wariat bhee jab deeni madrassay ban gaye ,deoband ,barelvi ,ahle hadith aur shia madaras hee bunyad hen burai aur firqa wariat ki
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
عرب یہود و عیسائی دشمن نہیں تھے۔ ان کے اندر یہودیوں اور عیسائیوں سے دشمنی اسلام نے ڈالی۔ اپنا گریبان جھانکو پہلے
مسلمانوں نے عیسائیوں کے ساتھ مل کر یہودیوں کا بیت المقدس میں داخلہ بند کر رکھا تھا. یہودیوں کو حضرت عیسی علیہ سلام اور ان کے پیروکاروں کی دشمنی کا سبق مسلمانوں نے پڑھایا تھا
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
yea aap ko kis ny kaha, Yahoodion ny to Hazrat Isa A.S ko sooli pr charhany ka kia vo alag baat hy aisa ho nahi saka, ain ky larai to Islam sy pahly sy he hy aap ko apny comment pr nazar sani krni ho ge
اسلام کی مدینہ آمد سے قبل یہودی قبائل وہاں پہلے سے آباد۔ پھر جیسے جیسے مدینہ میں مسلمانوں کا اثر رسوخ بڑھا ایک ایک کر کے سب کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ یعنی وہی عرب جو اسلام کی آمد سے قبل یہودیوں کے دوست تھے، اسلام کی مدینہ آمد کے بعد یہودیوں کیخلاف ہو گئے۔
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
مسلمانوں نے عیسائیوں کے ساتھ مل کر یہودیوں کا بیت المقدس میں داخلہ بند کر رکھا تھا. یہودیوں کو حضرت عیسی علیہ سلام اور ان کے پیروکاروں کی دشمنی کا سبق مسلمانوں نے پڑھایا تھا
حضرت عیسی خود یہودی خاندان سے تھے۔ یہودی علمانے حضرت عیسی کو صلیب دینے میں کردار ادا کیا کیونکہ بقول ان کے حضرت عیسی کذاب تھے۔ یہ ان کی باہمی لڑائی تھی۔ آپ کیوں دشمنی کر کے بیٹھ گئے