سکرپٹ مل گیا
____________
By: Muhammad Tahseen
پیارے پاکستانیوں عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنے سے بہت سے لوگوں کو اختلاف ہوسکتا ہے اور بہت سے لوگ دھرنے کے حق میں بھی ہیں لیکن ایک بات جس سے تقریبا سارے پاکستانی ہی متفق ہیں وہ یہ کہ عمران خان اور طاہرالقادری کے زیادہ تر مطالبات درست ہیں لیکن کچھ لوگوں کو طریقہ کار سے اختلاف ہے۔ طاہرالقادری سے جو لوگ اختلاف رکھتے ہیں تو اس کے پیچھے بنیادی وجہ فرقہ پرستی ہے اور عمران خان سے اختلاف صرف وہ لوگ کررہے ہیں جو جدی پشتی بغیر کسی نظریہ کے کسی ایک سیاسی جماعت کو سپورٹ کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی تقاریر اٹھا کر دیکھ لیں تو ہر کوئی کہہ رہا ہے کے دھاندلی ہوئی ہے ان کے مطالبات جائز ہیں لیکن طریقہ کار سے اختلاف ہے۔
ان دھرنوں کو کیا نتیجہ ہوگا وہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن ایک چیز جو ان دھرنوں کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوچکی ہے وہ عوام الناس میں اپنے حقوق کے لیے شعور ہے۔ اس کی کچھ مثالیں ان دنوں آپ دیکھ بھی رہے ہیں۔ لوگوں کے اندر موجودہ نظام اور حکمرانوں سے نفرت بڑھتی جارہی ہے اور ایک لاوہ ہے جو اندر ہی اندر پک رہا ہے۔ حکومت نے بے پناہ طاقت کا مظاہرہ بھی کرکے دیکھ لیا اور حکومت اور اس کے حواریوں نے ہر طرح کی چرب زبانی بھی استعمال کرکے دیکھ لی لیکن لوگوں کی اکژیت انکی باتیں سننا تو دور کی بات انکی شکل دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتی۔ تمام تر حربے استعمال کرنے کے بعد اب حکومت نے ایک نئی حکمتِ عملی پر کام شروع کردیا ہے جو نہایت گھناؤنی ہے۔ وہ حکمتِ عملی ہے اسلام اور لوگوں کے مذہبی جذبات کو اپنی سیاست بچانے کے لیے استعمال کرنا۔
اس سلسلے میں سکرپٹ مل گیا کے نام سے ایک ویڈیو بھی بنائی گئی ہے جس میں لوگوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی ہے کہ عمران خان اور طاہرالقادری کے پیچھے یہودی ہیں اور وہ ان دونوں کی استعمال کرکے اسلام اور پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اگر آپ عمران خان کی تقاریر کو دیکھ لیں تو اس کے سترہ سالہ سیاسی کریئر میں آپ کو ایک بھی تقریر پاکستان یا اسلام کے خلاف نہیں ملے گی۔ خاص طور پر آپ عمران خان کی آجکل کی تقاریر کو سنیں تو وہ آپ کو احادیثِ مبارکہ کے حوالے دیتے نظر آئیں گے۔ ریاستِ مدینہ اور خلفاءراشدین کو ایک نمونہ کے طور پر پیش کرتے نظر آئیں گے اور سب سے بڑھ کر ہمیشہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے بڑے لیڈر کے طور ان کی حیاتِ طیبہ سے مثالیں دیتے نظر آئیں گے۔
دین کو سیاست کے لیے استعمال کرنے کی روایت مولانا فضل الرحمٰن نے ڈالی۔ ابتدائی طور پر وہ کامیاب ہوا لین اگر آپ حالیہ انتخابات کے نتائج دیکھیں تو لوگوں نے اسے بری طرح سے مسترد کردیا۔ اسکا بیٹا اور بھائی اپنی آبائی نشستوں سے ہی ہار گئے۔ اس لیے لوگوں کے شعور کو دیکھتے ہوئے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کا یہ آخری حربہ بھی ناکام ہوگا اور دین کو اپنی منافقانہ سیاست بچانے کے لیے استعمال کرنے کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ آپ سب سے بھی درخواست ہے کہ اس طرح کے کسی بھی پراپیگنڈا کا شکار نہ ہوں اور ہم سب مل کر اس نظام کے خلاف اس کے خاتمہ تک جدوجہد جاری رکھیں۔ لوگوں میں شعور بیدار کرنے کے لیے اپنی صلاحیتیں استعمال کریں اور انھیں اس قسم کی سازشوں سے آگاہ کریں۔
(محمد تحسین)
http://www.facebook.com/Muhammad.Tahseen.Ch