
وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف پرویز الہٰی کی درخواست پر وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کا آغاز ہوگیا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ سماعت اب ویڈیو لنک پر ہوگی۔
سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں رش کی وجہ سے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی گئی۔
سماعت کے دوبارہ آغازکے موقع پر کمرہ عدالت وکلا اور لوگوں سے کھچا کھچ بھر گیا، دلائل کیلئے وکلا کے کھڑے ہونے کی جگہ کم پڑگئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کمرۂ عدالت سے کچھ لوگ باہر چلے جائیں،کیس کی سماعت اب ویڈیو لنک کے ذریعے ہوگی۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ویڈیو لنک والا کمرہ کھول دیا گیا، بینچ کے روبرو صرف وکلا پیش ہوں گے، ویڈیو لنک کا فیصلہ لوگوں کے رش کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر طلب، حمزہ کو نوٹس جاری
اس سے قبل سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کو 2 بجے طلب کیا تھا، چیف سیکرٹری اورحمزہ شہباز کو بھی نوٹس جاری کیا گیا، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر کو ذاتی طور پر سننا چاہتے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن کے معاملے پر پرویز الہٰی کی سپریم کورٹ رجسٹری میں درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب پر مشتمل بینچ کی جانب سے درخواست پر سماعت کی گئی۔
درخواست کی سماعت کے آغاز پر پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ کل پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے دوسرا راؤنڈ ہوا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ اسمبلی میں کتنے ارکان موجود تھے؟ بیرسٹرعلی ظفر نے جواب دیا کہ ایوان میں 370 ارکان تھے، پرویز الہٰی کو 186ووٹ، حمزہ کو 179ووٹ ملے، آئینی طور پر پرویز الہٰی وزیر اعلیٰ کا الیکشن جیت گئے۔
بیرسٹر علی ظفر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے ق لیگ کے 10 ووٹ مسترد کردیے، آئینی طور پر پرویز الہٰی وزیراعلی پنجاب ہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں آرٹیکل 63 اے کے تحت پارلیمانی پارٹی کی ہدایت پر ہی ارکان ووٹ ڈال سکتے ہیں، پارلیمانی پارٹی کے ارکان نے پرویز الہٰی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا، 21جولائی کو لیٹر بھی جاری کیا۔
بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے اپنی رولنگ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھا، ڈپٹی اسپیکر نے پارٹی صدر کے خط کو جواز بنا کر 10ووٹ مسترد کیے، پارلیمانی پارٹی کے کردار کو نظر انداز کیا گیا۔
چیف جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر کو ذاتی طور پر طلب کر لیتے ہیں، دیگر فریقین کو بھی نوٹس جاری کر دیتے ہیں اور ایڈووکیٹ جنرل کو بھی معاونت کے لیے طلب کر لیتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر ہی بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے کس پیراگراف کا حوالہ دیا۔
چیف جسٹس عمرعطابندیال نے بیرسٹر علی ظفر سے سوال کیا کہ بتائیں کتنی دیر میں ڈپٹی اسپیکر کو طلب کریں، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کو 2 گھنٹے میں بلوا لیں۔
سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کو 2 بجے طلب کر لیا اور ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر کو ذاتی طور پر سننا چاہتے ہیں، عدالت نے چیف سیکرٹری اور حمزہ شہباز کو بھی نوٹس جاری کر دیے، عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو بھی طلب کر لیا ساتھ ہی کہا کہ اگر اٹارنی جنرل نہیں ہیں تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوجائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایسے معاملات غیر تجربہ کاری سے پیش آتے ہیں،یہ معاملہ تشریح سے زیادہ سمجھنے کا ہے، عدالت نے کیس کی سماعت 2 بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔
کیس کی سماعت کے آغاز سے قبل تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر بھی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری پہنچے، انہوں نے بتایا کہ پرویز الہٰی کی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہوچکی ہے۔
Source
https://twitter.com/x/status/1550786669011427329
https://twitter.com/x/status/1550786671544877057
https://twitter.com/x/status/1550788174653411328
وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن کے معاملے پر پرویز الہٰی کی سپریم کورٹ رجسٹری میں درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب پر مشتمل بینچ کی جانب سے درخواست پر سماعت کی گئی۔
درخواست کی سماعت کے آغاز پر پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ کل پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے دوسرا راؤنڈ ہوا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ اسمبلی میں کتنے ارکان موجود تھے؟ بیرسٹرعلی ظفر نے جواب دیا کہ ایوان میں 370 ارکان تھے، پرویز الہٰی کو 186ووٹ، حمزہ کو 179ووٹ ملے، آئینی طور پر پرویز الہٰی وزیر اعلیٰ کا الیکشن جیت گئے۔
بیرسٹر علی ظفر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے ق لیگ کے 10 ووٹ مسترد کردیے، آئینی طور پر پرویز الہٰی وزیراعلی پنجاب ہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں آرٹیکل 63 اے کے تحت پارلیمانی پارٹی کی ہدایت پر ہی ارکان ووٹ ڈال سکتے ہیں، پارلیمانی پارٹی کے ارکان نے پرویز الہٰی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا، 21جولائی کو لیٹر بھی جاری کیا۔
بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے اپنی رولنگ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھا، ڈپٹی اسپیکر نے پارٹی صدر کے خط کو جواز بنا کر 10ووٹ مسترد کیے، پارلیمانی پارٹی کے کردار کو نظر انداز کیا گیا۔
چیف جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر کو ذاتی طور پر طلب کر لیتے ہیں، دیگر فریقین کو بھی نوٹس جاری کر دیتے ہیں اور ایڈووکیٹ جنرل کو بھی معاونت کے لیے طلب کر لیتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر ہی بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے کس پیراگراف کا حوالہ دیا۔
چیف جسٹس عمرعطابندیال نے بیرسٹر علی ظفر سے سوال کیا کہ بتائیں کتنی دیر میں ڈپٹی اسپیکر کو طلب کریں، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کو 2 گھنٹے میں بلوا لیں۔
سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کو 2 بجے طلب کر لیا اور ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر کو ذاتی طور پر سننا چاہتے ہیں، عدالت نے چیف سیکرٹری اور حمزہ شہباز کو بھی نوٹس جاری کر دیے، عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو بھی طلب کر لیا ساتھ ہی کہا کہ اگر اٹارنی جنرل نہیں ہیں تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوجائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایسے معاملات غیر تجربہ کاری سے پیش آتے ہیں،یہ معاملہ تشریح سے زیادہ سمجھنے کا ہے، عدالت نے کیس کی سماعت 2 بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔
کیس کی سماعت کے آغاز سے قبل تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر بھی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری پہنچے، انہوں نے بتایا کہ پرویز الہٰی کی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہوچکی ہے۔
Source
https://twitter.com/x/status/1550786669011427329
https://twitter.com/x/status/1550786671544877057
https://twitter.com/x/status/1550788174653411328
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/WnmwhFK/smt-ttr.jpg