آئینی ترمیمی مسودے پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا ردعمل سامنے آگیا ہے، وکلاء کی سب سے بڑی تنظیم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے آئینی عدالت کے قیام پر اتفاق کرلیا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدرشہزاد شوکت کا کہنا ہے کہ آئینی عدالت کے قیام پر سب کے ساتھ اتفاق کیا ہے لیکن ہمیں آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر تحفظات ہیں۔
شہزاد شوکت نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر ہمارے تحفظات ہیں، ہم نے اس معاملے پر ایک درخواست بھی دائر کر رکھی ہے اور ہمارا سپریم کورٹ سے مطالبہ ہے کہ آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کے خلاف ہماری درخواست پر سماعت کی جائے۔
بعد ازاں صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شہزاد شوکت نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل کا مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا، جس میں کہا گیا کہ آئین میں ترمیم پارلیمان کا اختیار ہے، آئین کے بنیادی خدوخال سے متصادم ترمیم نہیں ہونی چاہیے۔
اعلامیہہ کے مطابق نمائندہ اجلاس پارلیمان کی ہر قسم کی قانون سازی بشمول آئینی ترامیم کرنے کا اختیار تسلیم کرتا ہے تاہم کوئی بھی قانون سازی یا آئینی ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچہ سے متصادم نہیں ہو سکتی ہیں
اجلاس حکومت کو باور کرواتا ہے کہ وکلا کی نمائندہ تنظیموں کی مشاورت کے بغیر اور ان کو اعتماد میں لیے بغیر کسی بھی قسم کی آئینی ترامیم کا پیکج بے سود ہوگا۔اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وکلاء تنظیموں کی مشاورت اور مذاکرات کے بعد ہی تمام آئینی ترامیم کو حتمی حیثیت دے
اجلاس فوری طور پرمجوزہ آئینی مسودے کو مشتہر کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔اجلاس ایسی تمام ریشہ دوانیوں کی پرزور مذمت کرتا ہے جن کو بروئے کار لاتے ہوئے سازشی عناصر جھوٹے اور بے بنیاد مسودوں کی بنیاد پر پوری قوم کو ہیجان میں ڈال کر یرغمال بنائے رکھا
اجلاس میں کہا گیا کہ وکلا کے منتخب نمائندوں کے سوا کسی دوسرے کو ہڑتال کی کال دینے کا اختیار نہیں ہے، آئینی عدالت کی تشکیل کا معاملہ وکلا سے مشاورت کے بعد آگے بڑھایا جائے گا اور مطالبہ کیا گیا کہ 63 اے میں عدالتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کی جائے۔
اجلاس ایسے تمام شر پسند عناصر کو باور کرواتا ہے کہ وہ اپنے ان مضموم افعال سے ملک کی جمہوریت اور آئین کی بقا کو خطرے میں ڈالنے سے باز رہیں
اس موقع پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وکلا نمائندوں نے جو تجاویز دیں وہ آپ کی امانت ہیں، تجاویز پارلیمانی کمیٹی کے سامنے رکھوں گا، جوڈیشل پیکج عام آدمی کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کی کوشش ہے، تنقید کا حق اپوزیشن سمیت سب کو ہے۔
دوسری جانب حامد خان نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے کردار کو شرمناک قرار دیا ہے۔
مطیع اللہ جان کے شو میں انکا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار کا کردار انتہائی شرمناک ہے یہ ایک مردہ بار ایسوسی ایشن ہے یہ صرف اپنے مفاد کے لیے باتیں کرتے ہیں اور یہی حال پاکستان بار کونسل کا ہے
ربیعہ باجوہ نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ایک قبرستان بن چکی ہے ایک سرکاری بار بن چکی ہے۔