سود اور کرائے میں کیا فرق ہے

Amal

Chief Minister (5k+ posts)
سود اور کرائے میں کیا فرق ہے

بعض لوگ کہتے ہیں کہ کرائے اور سود میں کوئی فرق نہیں۔
جبکہ سود اور کرائے میں ایک واضح فرق ہے۔

مثال کے طور پر ہم اگر کسی کمپنی یا بینک سے کوئی سامان قرض پر اٹھاتے ہیں مثلا گاڑی، گھر، فرنیچر وغیرہ اور اس قرض کے علاوہ اوپر سے مذید جو بھی رقم دیتے ہیں وہ کرایہ کہلاتی ہے۔کیونکہ وہ اشیاء جو استعمال ہوتی ہیں لیکن اپنا وجود نہیں کھوتیں، جب ان اشیاء کو استعمال کیا جاتا ہے تو ان کے اوپر سے دی جانے والی رقم کو سود نہیں بلکہ کرایہ کہا جائے گا۔

عموما یہ کہا جاتا ہے کہ گاڑی کی قیمت استعمال کے نتیجے میں کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ بنسبت گھر یا پلاٹ کے جس کی قیمت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ لہذا جب گاڑی کی قیمت کم ہو رہی ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ کنزیوم ہو رہی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک گاڑی یا گھر قرض لینے والے کے پاس رہتے ہیں

تک وہ ان کا کرایا ہی ادا کر رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر گاڑی کو کوئی نقصان ہو جاتا ہے یا گاڑی چوری ہوجاتی ہے یا کسی زلزلے کی وجہ سے گھر تباہ ہو جاتا ہے تو پھر یہ اس استعمال کرنے والے کی نہیں بلکہ مالک کی ذمہ داری ہوتی ہے یا ہونی چاہیے۔ یعنی تمام تر نقصان کا ذمہ دار اس حالت میں قرض دینے والا ہی ہوتا ہے۔

جبکہ سود کے معاملے میں لیا گیا مال استعمال کے نتیجے میں ختم ہو جاتا ہے اور اسے دوبارہ پیدا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے گندم، چاول روپیہ وغیرہ اور اگر وہ مال چوری یا ضائع ہو جاتا ہے تو وہ مالک یعنی قرض دینے والے کی ذمہ داری نہیں ہوتا بلکہ جس نے قرض لیا ہوتا ہے اس ہی کی ذمہ داری ہوتا ہے لہذا اصل کے ساتھ اوپر سے دی گئی رقم کو سود کہا جاتا ہے جو کہ ظلم ہے۔

سود کی حرمت

سود کی حرمت قرآن وحدیث سے واضح طور پر ثابت ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَاَحَلَّ اللّٰہ ُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا(سورہٴ البقرہ ۲۷۵) اللہ تعالیٰ نے خریدوفروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ (سورہٴ البقرہ ۲۷۶) اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ جب سود کی حرمت کاحکم نازل ہوا تو لوگوں کا دوسروں پر جو کچھ بھی سود کا بقایا تھا، اس کو بھی لینے سے منع فرمادیاگیا: وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا اِنْ کُنْتُمْ مْوٴمِنِیْنَ (سورہٴ البقرہ ۲۷۸) یعنی سود کا بقایا بھی چھوڑدو اگر تم ایمان والے ہو۔

سود لینے اور دینے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کا اعلانِ جنگ

سود کو قرآنِ کریم میں اتنا بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے کہ شراب نوشی، خنزیر کھانے اور زنا کاری کے لیے قرآن کریم میں وہ لفظ استعمال نہیں کیے گئے جو سود کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے استعمال کیے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یَا اَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُوٴمِنِیْنَ۔ فَاِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَاْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ (سورہٴ البقرہ ۲۷۸ ۔ ۲۷۹) اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑدو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہوجاوٴ! سود کھانے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے اور یہ ایسی سخت وعید ہے جو کسی اور بڑے گناہ، مثلاً زنا کرنے، شراب پینے کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ مشہور صحابیِ رسول حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفہٴ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑادے۔ (تفسیر ابن کثیر)

سود کھانے والوں کے لیے قیامت کے دن کی رسوائی وذلّت

اللہ تبارک وتعالیٰ نے سود کھانے والوں کے لیے کل قیامت کے دن جو رسوائی وذلت رکھی ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں کچھ اس طرح فرمایا: اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُونَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُونَ اِلَّا کَمَا یَقُومُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ (سورہٴ البقرہ ۲۷۵) جولوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر پاگل بنادیا ہو۔ سود کی بعض شکلوں کو جائز قرار دینے والوں کے لیے فرمانِ الٰہی ہے: ذَلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا (سورہٴ البقرہ ۲۷۵) یہ ذلت آمیز عذاب اس لیے ہوگا کہ انھوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو سود کی طرح ہوتی ہے؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بیع یعنی خرید وفروخت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔

سودکھانے سے توبہ نہ کرنے والے لوگ جہنم میں جائیں گے

فَمَنْ جَآئَہُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّہِ فَانْتَہیٰ فَلَہ مَاسَلَفَ، وَاَمْرُہٓ اِلَی اللّٰہِ، وَمَنْ عَادَ فَاُولٓئِکَ اَصْحَابُ النَّارِ، ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ (سورہٴ البقرہ ۲۷۵) لہٰذا جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئی اور وہ (سودی معاملات سے) باز آگیا تو ماضی میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا ہے اور اس کی (باطنی کیفیت) کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالہ ہے۔ اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی کام کیاتو ایسے لوگ دوزخی ہیں، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔

غرضیکہ سورہٴ بقرہ کی ان آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو ہلاک کرنے والے گناہ سے سخت الفاظ کے ساتھ بچنے کی تعلیم دی ہے اور فرمایاکہ سود لینے اور دینے والے اگر توبہ نہیں کرتے ہیں تو وہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہوجائیں، نیز فرمایا کہ سود لینے اور دینے والوں کو کل قیامت کے دن ذلیل ورسوا کیا جائے گا اور وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے۔۔۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سود سے بچنے کی بہت تاکید فرمائی ہے اور سود لینے اور دینے والوں کے لیے سخت وعیدیں سنائی ہیں جن میں سے بعض احادیث ذیل میں ذکرکی جارہی ہیں:

سود کے متعلق نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر سود کی حرمت کا اعلان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: (آج کے دن) جاہلیت کا سود چھوڑ دیا گیا، اور سب سے پہلا سود جو میں چھوڑتا ہوں وہ ہمارے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سود ہے۔ وہ سب کا سب ختم کردیا گیا ہے؛ چونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سود کی حرمت سے قبل لوگوں کو سود پر قرض دیا کرتے تھے؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ آج کے دن میں اُن کا سودجو دوسرے لوگوں کے ذمہ ہے وہ ختم کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم ، باب حجة النبی )

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ صحابہٴ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ سات بڑے گناہ کونسے ہیں (جو انسانوں کو ہلاک کرنے والے ہیں)؟ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما: (۱)شرک کرنا، (۲) جادو کرنا، (۳)کسی شخص کو ناحق قتل کرنا، (۴)سود کھانا، (۵)یتیم کے مال کو ہڑپنا، (۶)(کفار کے ساتھ جنگ کی صورت میں) میدان سے بھاگنا، (۷)پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔ (بخاری ومسلم)

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے اور دینے والے، سودی حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والے سب پر لعنت فرمائی ہے۔ سود لینے اور دینے والے پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کے الفاظ حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں موجود ہیں۔ (مسلم، ترمذی، ابوداود، نسائی)

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: چار شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے لازم کرلیا ہے کہ ان کو جنت میں داخل نہیں کریں گے اور نہ ان کو جنت کی نعمتوں کا ذائقہ چکھائیں گے۔ پہلا شراب کا عادی، دوسرا سود کھانے والا، تیسرا ناحق یتیم کا مال اڑانے والا، چوتھا ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا (کتاب الکبائر للذہبی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سود کے ۷۰ سے زیادہ درجے ہیں اور ادنی درجہ ایسا ہے جیسے اپنی ماں سے زناکرے۔(رواہ حاکم، البیہقی، طبرانی، مالک)


 
Last edited by a moderator:

Wake Up Pakistan

Chief Minister (5k+ posts)
Har banda Alm-e-Din bana huwa hai

Kia baat hai

Whenever u will deal with bank for any loan its interest either Islami bank or other banks
 

thinking

Prime Minister (20k+ posts)
Islam is very clear about Sood..
I don't think rented services are come in Sood..or rent..
If we leave aside the religion preaching... Sood is a Zulam on the needy and the poor and benefits for the riches..wealthy..
 

Qalumkar

Senator (1k+ posts)
کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں ہی بغیر محنت کئے گھر بیٹھے مل جاتے ہیں۔
 

Citizen X

(50k+ posts) بابائے فورم
سود اور کرائے میں کیا فرق ہے

بعض لوگ کہتے ہیں کہ کرائے اور سود میں کوئی فرق نہیں۔
جبکہ سود اور کرائے میں ایک واضح فرق ہے۔

مثال کے طور پر ہم اگر کسی کمپنی یا بینک سے کوئی سامان قرض پر اٹھاتے ہیں مثلا گاڑی، گھر، فرنیچر وغیرہ اور اس قرض کے علاوہ اوپر سے مذید جو بھی رقم دیتے ہیں وہ کرایہ کہلاتی ہے۔کیونکہ وہ اشیاء جو استعمال ہوتی ہیں لیکن اپنا وجود نہیں کھوتیں، جب ان اشیاء کو استعمال کیا جاتا ہے تو ان کے اوپر سے دی جانے والی رقم کو سود نہیں بلکہ کرایہ کہا جائے گا۔

عموما یہ کہا جاتا ہے کہ گاڑی کی قیمت استعمال کے نتیجے میں کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ بنسبت گھر یا پلاٹ کے جس کی قیمت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ لہذا جب گاڑی کی قیمت کم ہو رہی ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ کنزیوم ہو رہی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک گاڑی یا گھر قرض لینے والے کے پاس رہتے ہیں

تک وہ ان کا کرایا ہی ادا کر رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر گاڑی کو کوئی نقصان ہو جاتا ہے یا گاڑی چوری ہوجاتی ہے یا کسی زلزلے کی وجہ سے گھر تباہ ہو جاتا ہے تو پھر یہ اس استعمال کرنے والے کی نہیں بلکہ مالک کی ذمہ داری ہوتی ہے یا ہونی چاہیے۔ یعنی تمام تر نقصان کا ذمہ دار اس حالت میں قرض دینے والا ہی ہوتا ہے۔

جبکہ سود کے معاملے میں لیا گیا مال استعمال کے نتیجے میں ختم ہو جاتا ہے اور اسے دوبارہ پیدا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے گندم، چاول روپیہ وغیرہ اور اگر وہ مال چوری یا ضائع ہو جاتا ہے تو وہ مالک یعنی قرض دینے والے کی ذمہ داری نہیں ہوتا بلکہ جس نے قرض لیا ہوتا ہے اس ہی کی ذمہ داری ہوتا ہے لہذا اصل کے ساتھ اوپر سے دی گئی رقم کو سود کہا جاتا ہے جو کہ ظلم ہے۔

سود کی حرمت

سود کی حرمت قرآن وحدیث سے واضح طور پر ثابت ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَاَحَلَّ اللّٰہ ُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا(سورہٴ البقرہ ۲۷۵) اللہ تعالیٰ نے خریدوفروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ (سورہٴ البقرہ ۲۷۶) اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ جب سود کی حرمت کاحکم نازل ہوا تو لوگوں کا دوسروں پر جو کچھ بھی سود کا بقایا تھا، اس کو بھی لینے سے منع فرمادیاگیا: وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا اِنْ کُنْتُمْ مْوٴمِنِیْنَ (سورہٴ البقرہ ۲۷۸) یعنی سود کا بقایا بھی چھوڑدو اگر تم ایمان والے ہو۔

سود لینے اور دینے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کا اعلانِ جنگ

سود کو قرآنِ کریم میں اتنا بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے کہ شراب نوشی، خنزیر کھانے اور زنا کاری کے لیے قرآن کریم میں وہ لفظ استعمال نہیں کیے گئے جو سود کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے استعمال کیے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یَا اَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُوٴمِنِیْنَ۔ فَاِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَاْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ (سورہٴ البقرہ ۲۷۸ ۔ ۲۷۹) اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑدو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہوجاوٴ! سود کھانے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے اور یہ ایسی سخت وعید ہے جو کسی اور بڑے گناہ، مثلاً زنا کرنے، شراب پینے کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ مشہور صحابیِ رسول حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفہٴ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑادے۔ (تفسیر ابن کثیر)

سود کھانے والوں کے لیے قیامت کے دن کی رسوائی وذلّت

اللہ تبارک وتعالیٰ نے سود کھانے والوں کے لیے کل قیامت کے دن جو رسوائی وذلت رکھی ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں کچھ اس طرح فرمایا: اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُونَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُونَ اِلَّا کَمَا یَقُومُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ (سورہٴ البقرہ ۲۷۵) جولوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر پاگل بنادیا ہو۔ سود کی بعض شکلوں کو جائز قرار دینے والوں کے لیے فرمانِ الٰہی ہے: ذَلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا (سورہٴ البقرہ ۲۷۵) یہ ذلت آمیز عذاب اس لیے ہوگا کہ انھوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو سود کی طرح ہوتی ہے؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بیع یعنی خرید وفروخت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔

سودکھانے سے توبہ نہ کرنے والے لوگ جہنم میں جائیں گے

فَمَنْ جَآئَہُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّہِ فَانْتَہیٰ فَلَہ مَاسَلَفَ، وَاَمْرُہٓ اِلَی اللّٰہِ، وَمَنْ عَادَ فَاُولٓئِکَ اَصْحَابُ النَّارِ، ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ (سورہٴ البقرہ ۲۷۵) لہٰذا جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئی اور وہ (سودی معاملات سے) باز آگیا تو ماضی میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا ہے اور اس کی (باطنی کیفیت) کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالہ ہے۔ اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی کام کیاتو ایسے لوگ دوزخی ہیں، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔

غرضیکہ سورہٴ بقرہ کی ان آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو ہلاک کرنے والے گناہ سے سخت الفاظ کے ساتھ بچنے کی تعلیم دی ہے اور فرمایاکہ سود لینے اور دینے والے اگر توبہ نہیں کرتے ہیں تو وہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہوجائیں، نیز فرمایا کہ سود لینے اور دینے والوں کو کل قیامت کے دن ذلیل ورسوا کیا جائے گا اور وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے۔۔۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سود سے بچنے کی بہت تاکید فرمائی ہے اور سود لینے اور دینے والوں کے لیے سخت وعیدیں سنائی ہیں جن میں سے بعض احادیث ذیل میں ذکرکی جارہی ہیں:

سود کے متعلق نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر سود کی حرمت کا اعلان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: (آج کے دن) جاہلیت کا سود چھوڑ دیا گیا، اور سب سے پہلا سود جو میں چھوڑتا ہوں وہ ہمارے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سود ہے۔ وہ سب کا سب ختم کردیا گیا ہے؛ چونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سود کی حرمت سے قبل لوگوں کو سود پر قرض دیا کرتے تھے؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ آج کے دن میں اُن کا سودجو دوسرے لوگوں کے ذمہ ہے وہ ختم کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم ، باب حجة النبی )

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ صحابہٴ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ سات بڑے گناہ کونسے ہیں (جو انسانوں کو ہلاک کرنے والے ہیں)؟ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما: (۱)شرک کرنا، (۲) جادو کرنا، (۳)کسی شخص کو ناحق قتل کرنا، (۴)سود کھانا، (۵)یتیم کے مال کو ہڑپنا، (۶)(کفار کے ساتھ جنگ کی صورت میں) میدان سے بھاگنا، (۷)پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔ (بخاری ومسلم)

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے اور دینے والے، سودی حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والے سب پر لعنت فرمائی ہے۔ سود لینے اور دینے والے پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کے الفاظ حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں موجود ہیں۔ (مسلم، ترمذی، ابوداود، نسائی)

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: چار شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے لازم کرلیا ہے کہ ان کو جنت میں داخل نہیں کریں گے اور نہ ان کو جنت کی نعمتوں کا ذائقہ چکھائیں گے۔ پہلا شراب کا عادی، دوسرا سود کھانے والا، تیسرا ناحق یتیم کا مال اڑانے والا، چوتھا ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا (کتاب الکبائر للذہبی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سود کے ۷۰ سے زیادہ درجے ہیں اور ادنی درجہ ایسا ہے جیسے اپنی ماں سے زناکرے۔(رواہ حاکم، البیہقی، طبرانی، مالک)



 

Amal

Chief Minister (5k+ posts)
Har banda Alm-e-Din bana huwa hai

Kia baat hai

Whenever u will deal with bank for any loan its interest either Islami bank or other banks


92877002_2905141239607038_2657215396095983616_n.jpg