پیارے بچو، 6 ستمبر 1965ء کا ذکر ہے کہ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح پاکستان کے دل لاہور پر حملہ کر دیا۔ ہم سب بچپن سے ہی اس نصابی جملے سے بہت مانوس ہیں، اور یہ الفاظ ہمارے ذہنوں میں اس وقت تک ایک لازوال تاریخی حقیقت کے طور پر ثبت رہے جب تک ہماری نسل خود جوان ہو کر صحافی، سپاہی اور لکھاری نہ بن گئی۔ ہمیں اس سے ایک پرجوش، محب وطن نوجوان نسل تو مل گئی، لیکن وہ نسل کچھ قیمتی اسباق سے محروم رہ گئی۔ یوم دفاع آج بھی ہمیں چلا چلا کر کہہ رہا ہے کہ ہم اس محرومی کا ازالہ کریں۔ ذیل کے مضمون میں ہم اس تاریخی غلط فہمی سے خصوصی بحث کریں گے کہ جنگ کا آغاز کس جانب سے ہوا اور اس جنگ کے شروع کرنے میں کس فریق کا کتنا کردار رہا۔ ہماری عمومی بحث اس کے نتائج سے متعلق ہو گی۔
پاکستان کی سرکاری تاریخ میں 65 کی جنگ کا آغاز ہندوستان کے سر ڈال کر اُن تاریخی حقائق سے چشم پوشی اختیار کی گئی ہے جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ جنگ بھارتی فوج کی طرف سے بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی سے قبل سیز فائر لائن کے اُس پار پاکستان کی دخل اندازی کی وجہ سے چھڑی ۔ جنگ کا آغاز تب ہی ہو گیا تھا جب مئی 1965ء میں آپریشن جبرالٹر کے نام سے پاکستان نے کشمیر میں کمانڈوز بھیجے تاکہ وہاں گوریلا کارروائیوں کے ذریعے علیحدگی پسندی کی تحریک کو ہوا دیں اور کشمیر میں اندرونی سیاسی انتشار کو پاکستانی قومی مفاد میں استعمال کریں۔ جنرل موسی خاں کا کہنا تھا کہ اس آپریشن کی ہدایات ایوان صدر سے آئی تھیں جو کہ اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے ذہن رسا کی تخلیق تھیں[1]۔ پہلی بار کسی آپریشن کی پلاننگ، ڈائریکٹوریٹ جنرل ملٹری آپریشنز کی بجائے ایوان صدر میں ہوئی تھی۔ جنرل موسی نے سابق کمانڈر ایس ایس جی کرنل ابوبکر عثمان مٹھا سےاس مشن پر مشاورت لی تو مٹھا نے بتا دیا کہ کشمیر کے حالات اس مشن کے لیے سازگار نہ تھے۔ جنرل موسی خاں نے آپریشن جبرالٹر کی کمان 12 ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کے حوالے کی ۔اس مقصد کے لیے مئی 1965ء میں مری میں اس وقت کے کمانڈر کرنل سید غفار مہدی نے چیف آف جنرل سٹاف جنرل شیر بہادر کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کشمیر میں کمانڈوز آپریشن کے لیے حالات قطعی سازگار نہیں ہیں۔ لیکن مہدی کو جواب دیا گیا کہ جنرل اختر کامیابی کے بارے میں پر امید ہیں[2]۔ کشمیر میں بھیجے گئے کمانڈوز کو مطلوبہ حد تک مقامی لوگوں کا تعاون حاصل نہ ہو سکا اور بھارتی مورخین کے مطابق اکثر کمانڈوز کی نشاندہی بھارتی فوج کو مقامی لوگوں نے کی۔ ان گوریلوں کے لوٹ آنے کے بعد ان کشمیریوں پر، جنہوں نے ان گوریلوں کو پناہیں دے رکھی تھیں، جو بیتی وہ ان کشمیریوں کے جذبۂ حریت اور ہمارے کمانڈوز کے جذبۂ حب الوطنی کے لیے ایک دردناک تجربہ رہا۔ یوں آپریشن جبرالٹر ایک طفلانہ سیاسی و عسکری مذاق ثابت ہوا۔ پاکستان میں جنگی جنون میں مبتلا فوجی و سیاسی قیادت ایک عرصے تک 65 کی طرح کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئےسفارتی ذرائع کے استعمال کی بجائےمبالغے کی حد تک اپنی عسکری قوت پر بھروسہ کئے ہندوستان سے جنگ کی خواہاں رہی ہے، لیکن جنگ سے قبل اور جنگ کے دوران ہونے والے واقعات پاکستان کی فوجی قوت اور دفاعی صلاحیت پر سوالیہ نشان ہیں۔
بھارت نے آپریشن جبرالٹر کے ردِعمل کے طور پر لائن آف کنٹرول کے علاقے میں12 ڈویژن کی متعدد پوزیشنوں پر حملہ کر دیا۔ ان پے در پے حملوں سے مظفرآباد شہر کے علاوہ کشمیر کی سرحد پر کمانڈوز کے کئی بیس کیمپ جو پاکستانی علاقوں میں تھے، خطرے میں پڑ گئے۔ یکم ستمبر 1965ء کو آپریشن گرینڈ سلام (Grand Slam) کے نام سے پاک فوج نے ایک جوابی حملہ شروع کیا، جس کا مقصد کشمیر میں بھارت کی اہم ترین سپلائی لائن کو اکھنور سے دھمکانا (Threat) اور کشمیر کی مقبوضہ پوزیشنیں واپس لے کر 12 ڈویژن پر سے دباؤ کم کرنا تھا۔ پاک فوج نے آپریشن گرینڈ سلام کے تحت پونچھ، اُڑی اور ٹیٹوال کے اہم فوجی مقامات قبضہ میں لے لیے۔ جبکہ بھارتی فوج درۂ حاجی پیر پر قابض ہوئی۔ ایسے میں پاکستانی ہائی کمان اور وزارت خارجہ مطمئن تھے کہ بھارت کی طرف سے کوئی بڑی کارروائی نہیں ہو گی، لہذا پاک فوج کی پچیس فیصد نفری 6 ستمبر کی صبح تک بھی چھٹی پر تھی۔ جبکہ فضائیہ اور بحریہ مطلق بے خبر تھیں کہ ایک بڑی جنگ سر پر ہے، کیوں کہ پاکستانی قیادت کا خیال تھا کہ 48 کی طرح جنگ کا دائرہ کشمیر تک محدود رہے گا۔ لیکن جنگ شروع ہونے سے پہلے کے سرحدی حالات ایک جنگ کے امکان کو ظاہر کر رہے تھے جو پاکستانی مہم جو قیادت کی آنکھوں سے اوجھل رہے۔ دہلی میں اس وقت کے پاکستانی ہائی کمشنر نے 4 ستمبر کو ترک سفارت خانے کی وساطت سے بھارت کے ممکنہ حملے کے بارے میں پاکستانی وزارت خارجہ کو لکھ دیا تھا۔ دوسری طرف مغربی پاکستان کی جنوب مشرقی سرحد پر رن کچھ کا علاقہ بھی اپریل 1965ء سے میدان جنگ بن چکا تھا، جہاں بیاربیٹ پر قبضہ کی لڑائی میں بھارت کو بریگیڈ سطح کے آپریشن میں شکست کھانا پڑی۔ بریگیڈیئر افتخار جنجوعہ نے پاکستان کی فوجی تاریخ کے سب سے پہلے بکتر حملے (Armored Assault) کی کمان 26 اپریل کو رن کچھ میں ایک کیولری سکواڈرن کی صورت میں تب کی جب بھارتی بارڈر پولیس اور پاک رینجرز کی جھڑپیں شدت اختیار کر گئی تھیں۔ اس لڑائی میں بھارت نے فضائیہ کو شامل کرنے کی کوشش بھی کی، جس پر پاک فضائیہ نے بھی مداخلت کی۔ بیاربیٹ میں اپنے طیارے سمیت جنگی قیدی بننے والے بھارتی پائلٹ رانا لال چند کو 14 اگست 1965ء کے یوم آزادی کے موقع پر جذبۂ خیر سگالی کے تحت رہا کر دیا گیا، لیکن فوجی مہم جوئی کے تریاق ایسے سفارتی چونچلوں سے نہیں ہوتے۔ فوجی مہم جوئی کے یہ اثرات بعدازاں 7۱، سیاچن اور کارگل کے معرکوں میں بھی محسوس ہوئے۔ ستمبر کے آغاز سے قبل ہی پاکستان رن کچھ اور کشمیر میں بھارتی فوج کو بھاری نقصان سے دوچار کر چکا تھا، جس پر بھارتی پارلیمنٹ میں شدید ردعمل ظاہر ہوا۔ بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری نے علی الاعلان پاکستان کو دھمکی دی کہ وہ پاکستان کے خلاف مرضی کا محاذ کھولیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ اس پر بھٹو صاحب نے صدر ایوب سے کہا تھا کہ شاستری کمزور پروفائل کے تھُڑدلّے آدمی ہیں، وہ کچھ نہیں کریں گے[3]۔
پاکستان کی سرکاری تاریخ میں 65 کی جنگ کا آغاز ہندوستان کے سر ڈال کر اُن تاریخی حقائق سے چشم پوشی اختیار کی گئی ہے جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ جنگ بھارتی فوج کی طرف سے بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی سے قبل سیز فائر لائن کے اُس پار پاکستان کی دخل اندازی کی وجہ سے چھڑی ۔ جنگ کا آغاز تب ہی ہو گیا تھا جب مئی 1965ء میں آپریشن جبرالٹر کے نام سے پاکستان نے کشمیر میں کمانڈوز بھیجے تاکہ وہاں گوریلا کارروائیوں کے ذریعے علیحدگی پسندی کی تحریک کو ہوا دیں اور کشمیر میں اندرونی سیاسی انتشار کو پاکستانی قومی مفاد میں استعمال کریں۔ جنرل موسی خاں کا کہنا تھا کہ اس آپریشن کی ہدایات ایوان صدر سے آئی تھیں جو کہ اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے ذہن رسا کی تخلیق تھیں[1]۔ پہلی بار کسی آپریشن کی پلاننگ، ڈائریکٹوریٹ جنرل ملٹری آپریشنز کی بجائے ایوان صدر میں ہوئی تھی۔ جنرل موسی نے سابق کمانڈر ایس ایس جی کرنل ابوبکر عثمان مٹھا سےاس مشن پر مشاورت لی تو مٹھا نے بتا دیا کہ کشمیر کے حالات اس مشن کے لیے سازگار نہ تھے۔ جنرل موسی خاں نے آپریشن جبرالٹر کی کمان 12 ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کے حوالے کی ۔اس مقصد کے لیے مئی 1965ء میں مری میں اس وقت کے کمانڈر کرنل سید غفار مہدی نے چیف آف جنرل سٹاف جنرل شیر بہادر کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کشمیر میں کمانڈوز آپریشن کے لیے حالات قطعی سازگار نہیں ہیں۔ لیکن مہدی کو جواب دیا گیا کہ جنرل اختر کامیابی کے بارے میں پر امید ہیں[2]۔ کشمیر میں بھیجے گئے کمانڈوز کو مطلوبہ حد تک مقامی لوگوں کا تعاون حاصل نہ ہو سکا اور بھارتی مورخین کے مطابق اکثر کمانڈوز کی نشاندہی بھارتی فوج کو مقامی لوگوں نے کی۔ ان گوریلوں کے لوٹ آنے کے بعد ان کشمیریوں پر، جنہوں نے ان گوریلوں کو پناہیں دے رکھی تھیں، جو بیتی وہ ان کشمیریوں کے جذبۂ حریت اور ہمارے کمانڈوز کے جذبۂ حب الوطنی کے لیے ایک دردناک تجربہ رہا۔ یوں آپریشن جبرالٹر ایک طفلانہ سیاسی و عسکری مذاق ثابت ہوا۔ پاکستان میں جنگی جنون میں مبتلا فوجی و سیاسی قیادت ایک عرصے تک 65 کی طرح کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئےسفارتی ذرائع کے استعمال کی بجائےمبالغے کی حد تک اپنی عسکری قوت پر بھروسہ کئے ہندوستان سے جنگ کی خواہاں رہی ہے، لیکن جنگ سے قبل اور جنگ کے دوران ہونے والے واقعات پاکستان کی فوجی قوت اور دفاعی صلاحیت پر سوالیہ نشان ہیں۔
بھارت نے آپریشن جبرالٹر کے ردِعمل کے طور پر لائن آف کنٹرول کے علاقے میں12 ڈویژن کی متعدد پوزیشنوں پر حملہ کر دیا۔ ان پے در پے حملوں سے مظفرآباد شہر کے علاوہ کشمیر کی سرحد پر کمانڈوز کے کئی بیس کیمپ جو پاکستانی علاقوں میں تھے، خطرے میں پڑ گئے۔ یکم ستمبر 1965ء کو آپریشن گرینڈ سلام (Grand Slam) کے نام سے پاک فوج نے ایک جوابی حملہ شروع کیا، جس کا مقصد کشمیر میں بھارت کی اہم ترین سپلائی لائن کو اکھنور سے دھمکانا (Threat) اور کشمیر کی مقبوضہ پوزیشنیں واپس لے کر 12 ڈویژن پر سے دباؤ کم کرنا تھا۔ پاک فوج نے آپریشن گرینڈ سلام کے تحت پونچھ، اُڑی اور ٹیٹوال کے اہم فوجی مقامات قبضہ میں لے لیے۔ جبکہ بھارتی فوج درۂ حاجی پیر پر قابض ہوئی۔ ایسے میں پاکستانی ہائی کمان اور وزارت خارجہ مطمئن تھے کہ بھارت کی طرف سے کوئی بڑی کارروائی نہیں ہو گی، لہذا پاک فوج کی پچیس فیصد نفری 6 ستمبر کی صبح تک بھی چھٹی پر تھی۔ جبکہ فضائیہ اور بحریہ مطلق بے خبر تھیں کہ ایک بڑی جنگ سر پر ہے، کیوں کہ پاکستانی قیادت کا خیال تھا کہ 48 کی طرح جنگ کا دائرہ کشمیر تک محدود رہے گا۔ لیکن جنگ شروع ہونے سے پہلے کے سرحدی حالات ایک جنگ کے امکان کو ظاہر کر رہے تھے جو پاکستانی مہم جو قیادت کی آنکھوں سے اوجھل رہے۔ دہلی میں اس وقت کے پاکستانی ہائی کمشنر نے 4 ستمبر کو ترک سفارت خانے کی وساطت سے بھارت کے ممکنہ حملے کے بارے میں پاکستانی وزارت خارجہ کو لکھ دیا تھا۔ دوسری طرف مغربی پاکستان کی جنوب مشرقی سرحد پر رن کچھ کا علاقہ بھی اپریل 1965ء سے میدان جنگ بن چکا تھا، جہاں بیاربیٹ پر قبضہ کی لڑائی میں بھارت کو بریگیڈ سطح کے آپریشن میں شکست کھانا پڑی۔ بریگیڈیئر افتخار جنجوعہ نے پاکستان کی فوجی تاریخ کے سب سے پہلے بکتر حملے (Armored Assault) کی کمان 26 اپریل کو رن کچھ میں ایک کیولری سکواڈرن کی صورت میں تب کی جب بھارتی بارڈر پولیس اور پاک رینجرز کی جھڑپیں شدت اختیار کر گئی تھیں۔ اس لڑائی میں بھارت نے فضائیہ کو شامل کرنے کی کوشش بھی کی، جس پر پاک فضائیہ نے بھی مداخلت کی۔ بیاربیٹ میں اپنے طیارے سمیت جنگی قیدی بننے والے بھارتی پائلٹ رانا لال چند کو 14 اگست 1965ء کے یوم آزادی کے موقع پر جذبۂ خیر سگالی کے تحت رہا کر دیا گیا، لیکن فوجی مہم جوئی کے تریاق ایسے سفارتی چونچلوں سے نہیں ہوتے۔ فوجی مہم جوئی کے یہ اثرات بعدازاں 7۱، سیاچن اور کارگل کے معرکوں میں بھی محسوس ہوئے۔ ستمبر کے آغاز سے قبل ہی پاکستان رن کچھ اور کشمیر میں بھارتی فوج کو بھاری نقصان سے دوچار کر چکا تھا، جس پر بھارتی پارلیمنٹ میں شدید ردعمل ظاہر ہوا۔ بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری نے علی الاعلان پاکستان کو دھمکی دی کہ وہ پاکستان کے خلاف مرضی کا محاذ کھولیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ اس پر بھٹو صاحب نے صدر ایوب سے کہا تھا کہ شاستری کمزور پروفائل کے تھُڑدلّے آدمی ہیں، وہ کچھ نہیں کریں گے[3]۔
کون جیتا، کون ہارا
اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ یہ جنگ کون جیتا۔ ہم اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں بیٹھ کربالیقین یہ کہ سکتے ہیں کہ دراصل جنگ کا آغاز ہی مہذ ب اقوام کی سیاست،ڈپلومیسی اور تدبر کے ہار جانے کا نام ہے، سیاسی اورمعاشی مقاصد کے حصول کے لئے جنگ میں جیت ہار کا تعین صرف دونوں طرف ہونے والے جانی اور مالی نقصان سے نہیں بلکہ جنگ شروع کرنے کے مقاصد کے حصول سے لگایا جاتا ہے ۔ ہم نے اس جنگ کو جِن مبہم مقاصد کے ساتھ ہوا دی تھی، وہ مقاصد کبھی پُورے نہ ہو سکے۔ بھارت نے 6 ستمبر 1965ء کو تین اطراف سے حملہ کیا جو کہ تزویراتی لحاظ سے (Strategically) جارحانہ تھا اوراس کے مقاصد واضح تھے:۔اولین:سیالکوٹ کے پورے سیلیئنٹ (یعنی شکر گڑھ،نارووال،چونڈہ،ظفروال،بڈیانہ،چارواہ،ڈسکہ ،پسرور اور چک امروکے شہر و دیہات)کو ایک ہی حملے میں قبضے میں لے کر نتیجتا دو راستوں سے جی ٹی روڈ پر ملاپ کرنا اور مرالہ،راوی رابطہ نہر کے مشرقی کنارے تک کا تمام علاقہ باقی پاکستان سے اور لاہور کا زمینی رابطہ راولپنڈی سے کاٹنا ۔
دوم:لاہور پر دو اطراف سے حملہ کر کے قبضہ۔
سوم: کھوکھراپار کی جانب سے حیدرآباد پر قبضہ کرکے کراچی اور سندھ کو بالائی پاکستان سے کاٹ دینا۔
لیکن پاکستانی سپاہی کی غیر متوقع مزاحمت، بھارت کی کمتر تربیت،کمتر آرمراورناقص کمانڈ اور اسٹاف کی وجہ سے اُن کے مقاصد بھی کبھی پورے نہ ہو سکے لہذا یہ جنگ فیصلہ کُن لڑائی لڑے بغیر ہی ختم ہو گئی۔اسکی وجہ عسکری مبصر میجر آغاہمایوں امین کے مطابق یہ تھی کہ اندرونی امن و امان قائم رکھنے اور معمولی ریاستوں سے جنگ و جدل کے لیے کھڑی کی گئی برٹش انڈین آرمی سے ہمیں ورثے میں ہی فیصلہ کن لڑائیاں لڑنے کا فن نہیں مل سکا۔ تاہم دونوں طرف کے حکمران اپنی جیت کے شادیانے بجاتے رہے۔ خاص طور پر پاکستان میں یہ خیال بہت عام تھا کہ پاکستان جنگ جیت گیا تھا جسے مذاکرات کی میز پر ہار دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ بغیر کسی حتمی نتیجے کے ختم ہوگئی ۔
کیا سیکھا
ہم بغیر کسی بڑی ذلت اور بغیر کسی بڑی کامیابی کے، امن قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن حکومتی سطح پر حقائق کو پرکھنے، جنگ کے بعد سامنے آنے والی دشمن کی کمزوریوں یا طاقتوں کو اپنی کوتاہیوں کا اندازہ لگانے اور انہیں کماحقہ اگلی نسلوں تک پہنچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ فقط 65ء سے تشویق (Motivation) حاصل کر کے فوج میں آنے والی نئی نسل کو یہ باور کرا دیا گیا کہ ایک پاکستانی سپاہی اپنے جذبۂ ایمانی کی بدولت چھ ہندؤوں پر بھاری ہے۔ اگرچہ ہمارے کئی اصل ہیرو گمنام رہ گئے لیکن ہم نے یہ کمی یوں پوری کی کہ من حیث القوم پاکستانی فوجی کو ایک ایسا سپرمین بنا دیا جسے کہ وہ خود بھی تسلیم نہ کرسکتا تھا۔ باٹاپور کے محاذ کا رشتہ بدر سے جوڑ کر اس جنگ کو جو الوہی رنگ دیا گیا وہ پاکستانی فوج اور قوم کے لیے وقتی طور پر تو باعث افتخار تھا، لیکن ٹھیک چھ سال بعد ہم مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی بازو پر نہ کر سکے اور 65ء سے چند تدبیراتی (Tactical) اسباق کے سوا اور کچھ نہ سیکھنے اور اس غیر فیصلہ کن جنگ سے کچھ غلط فہمیوں میں مبتلا ہونے کی بہت بھاری قیمت ہمیں ادا کرنا پڑی۔ ملک دولخت ہوا، سیاست ناکام ہو گئی، سپاہی کا خون پھر رائیگاں گیا اور 35,000 کے قریب فوجی دشمن کی قید میں چلے گئے، جنہیں 90,000 بتا کر حریفوں نے ہمیشہ کے لیے اپنے سر ایک طرّہ سجا لیا[4]۔ لیکن ہم نے اس صریح شکست سے بھی کیا سیکھا۔ یہی، کہ ہارے کیوں؟ بنگالیوں کی غداری! کون ہارا؟ فقط نیازی! کس وجہ سے ہارے؟ عورت اور شراب کی وجہ سے!۔ہم اپنے حریف کو کمتر اور بزدل سمجھنے سے زیادہ اپنے تئیں عظیم مغلوں اور عرب شاہسواروں کا جانشین سمجھنے کی سزا بھگت رہے تھے۔
اس جنگ کے نتیجے میں دونوں طرف ایک دوسرے کے خلاف پیدا ہونے والی نفرت نے وقت کے ساتھ جنگی جنون اور ہتھیاروں کی دوڑ کی شکل اختیار کرلی اور اب یہ مسابقت جوہری میدان میں داخل ہو چکی ہے۔ دونوں ممالک میں داخلی سیاست میں ہمسایہ ملک سے دشمنی کی بنا پر ووٹ مانگے جانے لگے اور اپنے ہاں موجود اقلیتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ نصابی کتب میں تاریخ کی ایسی تعبیر پڑھائی جانے لگی جس کی بنیاد حقائق کی بجائے حریف کے مقابلے میں اپنی برتری ثابت کرنے پر رکھی گئی۔
اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو جو سبق سیکھنا چاہئے تھا وہ سیاست اور حکومت سے فوج کی علیحدگی تھا، لیکن اس کے برعکس پاکستان میں فوج کو ملکی سلامتی کا ذمہ دار ہونے کی بنا پر خارجہ پالیسی، قومی سلامتی اور حکومتی امور میں مزید دخل دینے کا جواز مل گیا۔ سیاست میں فوج کی مسلسل مداخلت بھی پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی تخریب کا باعث بنی ہے۔
حرف اختتام
سن 65ء میں تقسیم ہند کے بعد پہلی بار ہم کسی بڑے اسکیل کی ایسی جنگ میں اترے تھے جو کہ خالصتا پاکستان کی جنگ تھی۔ جو کہ پاکستانی فوج اور عوام نے مل کر لڑی، اسی لیے پاکستانی قوم پرستی کا پہلا مظہر ثابت ہوئی۔ شاید اسی وجہ سے اسے عقل و خرد سے زیادہ جذبۂ دل کی نظر سے دیکھا گیا۔ ہمیں اب بھی اس جنگ پر تخلیق کیے گئے ادب میں تاریخی و تنقیدی مواد سے زیادہ جذباتی مواد ملے گا۔ دونوں طرف کے عوام نے 65 جنگ کو ایک نہ ختم ہونے والی دشمنی (Unending Vendetta) کی تمہید بنایا۔ ہم نے ہمیشہ بھارت کو اس جنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا لہذا انتقام کے رشتے استوار ہوتے گئے، ایک جنگ کی کوکھ سے دوسری جنگ نے جنم لیا، اور سیاست دوراں بدلتی گئی لیکن یہ روش نہ بدلی۔ ہم ریڈکلف لائن کے پار بیٹھے دشمنوں کی نفرت میں اپنے اندر پلتے دشمنوں سے غافل رہے۔ جہاں دونوں ہمسایہ ممالک میں بھوک، افلاس اور جہالت جنگی جنون کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتی گئی اور کسی نے پروا نہ کی، وہاں ہمارے ہاں بھی درون خانہ انتہاپسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کا عفریت، اسی مقدس مجاہدانہ جذبے کی گود میں ہمارے اپنے خون پر پلتا رہا، اور ہم نے اپنے دشمن کی فہرست از سر نو ترمیم کرنے کی زحمت کبھی نہ کی۔
آج ہم جس خونخوار دشمن سے بر سر جنگ ہیں، اس کے لیے ہمیں ناصرف حال میں درپیش ملکی سلامتی کے مسائل بہ طریق احسن سمجھنے، اپنے حقیقی دشمن کو پہچاننے اور اپنی جنگ کو اپنا سمجھنے کی ضرورت ہے، بلکہ ماضی کی جنگوں کو بھی غیر نصابی اور حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم یہ سچ جان سکیں کہ ہر ایک جنگ کی بھٹی سےہمارا کون سا چہرہ برآمد ہوا۔
حوالہ جات:-
1۔ جنرل موسیٰ خاں (My Version of 1965 War)
2۔ میجر آغا ہمایوں امین، کرنل غفار مہدی (Role of SSG para-commandos in operation Gibraltar)
3۔ کرنل اسکندر خاں بلوچ (عسکریت پسندیاں)
4۔ شرمیلا بوس (Dead Reckoning)
ہم بغیر کسی بڑی ذلت اور بغیر کسی بڑی کامیابی کے، امن قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن حکومتی سطح پر حقائق کو پرکھنے، جنگ کے بعد سامنے آنے والی دشمن کی کمزوریوں یا طاقتوں کو اپنی کوتاہیوں کا اندازہ لگانے اور انہیں کماحقہ اگلی نسلوں تک پہنچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ فقط 65ء سے تشویق (Motivation) حاصل کر کے فوج میں آنے والی نئی نسل کو یہ باور کرا دیا گیا کہ ایک پاکستانی سپاہی اپنے جذبۂ ایمانی کی بدولت چھ ہندؤوں پر بھاری ہے۔ اگرچہ ہمارے کئی اصل ہیرو گمنام رہ گئے لیکن ہم نے یہ کمی یوں پوری کی کہ من حیث القوم پاکستانی فوجی کو ایک ایسا سپرمین بنا دیا جسے کہ وہ خود بھی تسلیم نہ کرسکتا تھا۔ باٹاپور کے محاذ کا رشتہ بدر سے جوڑ کر اس جنگ کو جو الوہی رنگ دیا گیا وہ پاکستانی فوج اور قوم کے لیے وقتی طور پر تو باعث افتخار تھا، لیکن ٹھیک چھ سال بعد ہم مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی بازو پر نہ کر سکے اور 65ء سے چند تدبیراتی (Tactical) اسباق کے سوا اور کچھ نہ سیکھنے اور اس غیر فیصلہ کن جنگ سے کچھ غلط فہمیوں میں مبتلا ہونے کی بہت بھاری قیمت ہمیں ادا کرنا پڑی۔ ملک دولخت ہوا، سیاست ناکام ہو گئی، سپاہی کا خون پھر رائیگاں گیا اور 35,000 کے قریب فوجی دشمن کی قید میں چلے گئے، جنہیں 90,000 بتا کر حریفوں نے ہمیشہ کے لیے اپنے سر ایک طرّہ سجا لیا[4]۔ لیکن ہم نے اس صریح شکست سے بھی کیا سیکھا۔ یہی، کہ ہارے کیوں؟ بنگالیوں کی غداری! کون ہارا؟ فقط نیازی! کس وجہ سے ہارے؟ عورت اور شراب کی وجہ سے!۔ہم اپنے حریف کو کمتر اور بزدل سمجھنے سے زیادہ اپنے تئیں عظیم مغلوں اور عرب شاہسواروں کا جانشین سمجھنے کی سزا بھگت رہے تھے۔
اس جنگ کے نتیجے میں دونوں طرف ایک دوسرے کے خلاف پیدا ہونے والی نفرت نے وقت کے ساتھ جنگی جنون اور ہتھیاروں کی دوڑ کی شکل اختیار کرلی اور اب یہ مسابقت جوہری میدان میں داخل ہو چکی ہے۔ دونوں ممالک میں داخلی سیاست میں ہمسایہ ملک سے دشمنی کی بنا پر ووٹ مانگے جانے لگے اور اپنے ہاں موجود اقلیتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ نصابی کتب میں تاریخ کی ایسی تعبیر پڑھائی جانے لگی جس کی بنیاد حقائق کی بجائے حریف کے مقابلے میں اپنی برتری ثابت کرنے پر رکھی گئی۔
اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو جو سبق سیکھنا چاہئے تھا وہ سیاست اور حکومت سے فوج کی علیحدگی تھا، لیکن اس کے برعکس پاکستان میں فوج کو ملکی سلامتی کا ذمہ دار ہونے کی بنا پر خارجہ پالیسی، قومی سلامتی اور حکومتی امور میں مزید دخل دینے کا جواز مل گیا۔ سیاست میں فوج کی مسلسل مداخلت بھی پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی تخریب کا باعث بنی ہے۔
حرف اختتام
سن 65ء میں تقسیم ہند کے بعد پہلی بار ہم کسی بڑے اسکیل کی ایسی جنگ میں اترے تھے جو کہ خالصتا پاکستان کی جنگ تھی۔ جو کہ پاکستانی فوج اور عوام نے مل کر لڑی، اسی لیے پاکستانی قوم پرستی کا پہلا مظہر ثابت ہوئی۔ شاید اسی وجہ سے اسے عقل و خرد سے زیادہ جذبۂ دل کی نظر سے دیکھا گیا۔ ہمیں اب بھی اس جنگ پر تخلیق کیے گئے ادب میں تاریخی و تنقیدی مواد سے زیادہ جذباتی مواد ملے گا۔ دونوں طرف کے عوام نے 65 جنگ کو ایک نہ ختم ہونے والی دشمنی (Unending Vendetta) کی تمہید بنایا۔ ہم نے ہمیشہ بھارت کو اس جنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا لہذا انتقام کے رشتے استوار ہوتے گئے، ایک جنگ کی کوکھ سے دوسری جنگ نے جنم لیا، اور سیاست دوراں بدلتی گئی لیکن یہ روش نہ بدلی۔ ہم ریڈکلف لائن کے پار بیٹھے دشمنوں کی نفرت میں اپنے اندر پلتے دشمنوں سے غافل رہے۔ جہاں دونوں ہمسایہ ممالک میں بھوک، افلاس اور جہالت جنگی جنون کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتی گئی اور کسی نے پروا نہ کی، وہاں ہمارے ہاں بھی درون خانہ انتہاپسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کا عفریت، اسی مقدس مجاہدانہ جذبے کی گود میں ہمارے اپنے خون پر پلتا رہا، اور ہم نے اپنے دشمن کی فہرست از سر نو ترمیم کرنے کی زحمت کبھی نہ کی۔
آج ہم جس خونخوار دشمن سے بر سر جنگ ہیں، اس کے لیے ہمیں ناصرف حال میں درپیش ملکی سلامتی کے مسائل بہ طریق احسن سمجھنے، اپنے حقیقی دشمن کو پہچاننے اور اپنی جنگ کو اپنا سمجھنے کی ضرورت ہے، بلکہ ماضی کی جنگوں کو بھی غیر نصابی اور حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم یہ سچ جان سکیں کہ ہر ایک جنگ کی بھٹی سےہمارا کون سا چہرہ برآمد ہوا۔
حوالہ جات:-
1۔ جنرل موسیٰ خاں (My Version of 1965 War)
2۔ میجر آغا ہمایوں امین، کرنل غفار مہدی (Role of SSG para-commandos in operation Gibraltar)
3۔ کرنل اسکندر خاں بلوچ (عسکریت پسندیاں)
4۔ شرمیلا بوس (Dead Reckoning)
http://www.laaltain.com/سن-پینسٹھ-کی-بازگشتکون-جیتا،-کون-ہارا/