(تبصرہ: انور عباس انور)
وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی میں کابینہ کے حصوصی اجلاس کے بعد بنا سندھ کے وزیر اعلی کو اعتماد میں لیے اچانک سندھ کے آئی جی پولیس ندیم شاہد بلوچ اور چیف سکریٹری سندھ اعجاز چودہری کو انکے عہدوں سے ہٹا دیا اور انکی جگہ آئی جی سندھ کے عہدے پر شریف خاندان کے درینہ منظور نظر پولیس آفیسر ذوالفقار احمد چیمہ کو لگانے کے احکامات جاری کر دئیے اور چیف سکریٹری کے عہدے پر کمشنر کراچی کے منصب پر خدمات سرانجام دینے والے شعیب صدیقی کو لگا دیا ۔
یہ خبر میڈیا پر نشر ہوتے ہی سندھ حکومت سراپا احتجاج بن گئی وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے میڈیا پر وزیر اعظم نواز شریف کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان کے اس اقدام کو 1990 کی دہائی کی جانب جانے اور سندھ میں گورنر راج کی طرف پہلا قدم اور اسے سندھ حکومت کے خلاف سازش قرار دیا۔
اسکے ساتھ ہی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے بھی وزیر اعظم کے اس اقدام کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔سندھ حکومت اور قائد حزب اختلاف وفاقی حکومت کی جانب سے اختیار کیے گے غیر آئینی اقدام پر بروقت احتجاج کرنےکا درست فیصلہ کیا کیونکہ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی صوبوں میں تعیناتیوں کے حوالے سے اپنی من مانیاں نہیں کر سکتا۔
وفاقی حکومت کو اس ترمیم کے ذریعے اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی صوبے میں آئی اور چیف سکرٹری تعینات کرنے کے لیے تین ناموں پر مشتمل افسران کا پینل صوبے کو ارسال کریگا جس میں سے صوبے کو کسی ایک نام پر اتفاق کرکے وفاق کو اپنی رضامندی سے مطلع کرنا ہوگا۔ لیکن وزیر اعظم نواز شریف اور انکی کچن کابینہ نے سندھ میں آئی جی پولیس اور چیف سکریٹری کی تعیناتی کو بھی آئی پیپیز کو 480 ارب روپے کی ادائیگی اور نندی پور پراجیکٹ کی لاگت میں راتوں رات اربوں روپے اضافہ کرنے کی مانند سمجھا۔اور سندھ کے وزیر اعلی سید قائم علی شاہ سے بنا کسی مشاورت کے ایک ایسے پولیس افسر کو آئی جی سندھ تعینات کرنے کا فیصلہ کیا جس کی شہرت آئین سے ماورا اقدام کرنے والےایک افسر کی ہے۔ذوالفقار احمد چیمہ وزیر اعلی پنجاب کا منظور نظر ہونے کی بنا پر بیک وقت شیخوپورہ اور سرگودہا رینج کے آر پی او کے عہدوں پر فرائضسرانجام دے چکے ہیں
انکی شہرت میں ایمانداری،قوانین کی پابندی کے حوالے سے میڈیا پرسن مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں۔کیونکہ ان کی وجہ شہرے نواز فیمیلی سے قربت اور انکی زیر سرپرستی میں قوانین کی دھجیاں اڑا تے ہوئے ملزمان کو جعلی پولیس مقابلوں میں پار کرنا ہے۔
شیخوپورہ رینج میں بطور آر پی او تعیناتی کے دوران انہوں نے جتنے بھی پولیس مقابلے کیے سب جعلی تھے۔ہلاک کیے جانے والے تمام افراد بشمول فاروق بھٹی جھنڈے والاکی ہلاکت ہو ،گاوں سہجووال میں ایک طالب علم کے اغوا برائے تاوان کے ملزمان ہو یا دیگر سب کو گرفتار کرنے کے بعد پولیس مقابلے کے نام پر موٹ کے گھاٹ اتارا گیا۔
ذوالفقار احمد چیمہ جن دنوں لاہور میں ڈی ایس پی تعینات تھے ان دنوں یہ موصوف شریف فیملی کی آنکھوں کا تارا بنے۔ اور انہوں نے شریف فیملی کے قرب اور روابط کو مذید مستحکم کرنے کے لیے ہر اشارہ ابرو پر جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا تھا
کچھ دیگر افواہیں بھی گردیش میں ہیں ۔لیکن میں انکا ذکر نہیں کرنا چاہتا یہ افواہیں جناب ذوالفقار احمد چیمہ کے مجرد زندگی گذارنے کے متعلق ہیں۔اگر انہیں سندھ اورکراچی کا کمانڈر بنا دیا جاتا ہے تو انکی لگامیں شہباز شریف کے ہاتھ میں ہوں گی اوذوالفقار چیمہ ہر قدام شہباز شریف سے پوچھے بغیر نہیں اٹھائیں گے۔
1988 سے قبل اور بعد میں میں نے یہی روایت دیکھی ہے کہ اگر وفاق نے کسی صوبے میں آئی جی یا چیف سکریٹری تعینات کرنا ہوتا تو وہ صوبے کے چیف منسٹر کو تین افسران کے ناموں پر ایک پینل ارسال کرتا اور اگر ان تین ناموں میں سے صوبے کا چیف منسٹر کسی ایک نام پر اپنی رضامندی کا اظہار کرتا تو اسے آئی جی اور چیف سکریٹری تعینات کر دیا جاتا۔لیکن یہاں تو وزیر اعظم نے سندھ کے چیف منسٹر کی آنکھوں میں دھول جونکھنےکی کوشش کی
سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن کا یہ موقف بھی وزن دار اور حقائق پر مبنی ہے کہاگر پچھلے پانچ سالوں میں پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت پنجاب میں اسی طرح اپنی مرضی کے آئی جی پولیس اور چیف سکریٹری تعینات کرتی تو حالات کچھ اور ہی ہوتے
یہ پیلز پارٹی کی بیڈ گورنس کے باوجود ایک کارنامہ ہے کہ اس نے تمام عرصہ حکومت شہباز شریف کے غیر مہذبانہ ،غیر شائستا انداز حکمرانی کے باوجود ان کی مرضی کے افسران پنجاب میں تعینات کیے اور اگر پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت بھی شہباز شریف کے مسخعے پن کا جواب ایسے ہی دیتی تو آج نہ جمہوریت مستحکم ہوتی اور نہ نواز شریف تیسری بار وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہوتے
ذوالفقار علی چیمہ کی تعیناتی کے حوالے سے سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے تحفظات اس حوالے سے بجا قرار دئیے جائیں گے کہ اس سے قبل نواز شریف کی دوسری حکومت میں انہوں نے ایک پنجابی پولیس افسر رانا مقبول احمد کو آئی جی سندھ لگایا تھا۔تو اس نے آصف علی زرداری کی جان لینے کی دانستہ کوشش کی تھی۔یہ تو آصف علی زرداری کی قسمت اچھی تھی اور خدا کو انکی زندگی عزیز تھی کہ وہ رانا مقبول احمد کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ گے
اس تلخ تجربے کی بنیاد پر بھی پیپلز پارٹی نے ذوالفقار احمد چیمہ کی تعیناتی کا رسک لینے سے انکار کردیا۔
مجھے تو بعض اینکرز کے روئیے پر بھی افسوس ہوتا ہے وہ اس لیے کہ جب شرجیل میمن نے کہا کہ ذوالفقار احمد چیمہ مسلم لیگ نواز کا ورکر ہے کیونکہ اسکا ایک بھائی ریٹا ئرڈ جسٹس افتخار احمد چیمہ گوجرانوالہ سے رکن قومی اسمبلی ہےتو اس اینکر نے شرجیل میمن سے سوال کیا کہ میمن صاحب آپکی حکومت نے بھی تو آغا سراج دورانی کے ھائی کو آئی جی سندھ لگایا تھا؟ جس پر شرجیل میمن نے اس اینکر سے پوچھا کہ بھائی کونسا افسر آغا سراج دورانی کا بھائی تھا؟ تو اینکر نے شکیل دورانی کا نام لیا جس پر شرجیل میمن نے جواب دیا کہ بھائی شکیل دورانی کا آغا سراج دورانی کے خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے اس پر اینکر نے شرجیل میمن سے معافی مانگی اور انکا شکریہ ادا کیا کی انکی وجہ سے انکی درستگی ہو گئی۔
ذوالفقار چیمہ نے جتنے بندے جعلی پولیس مقابلوں میں پار کیے ہیں اگر ایسا سندھ کی پیپلز پارٹی کی حکومت میں ہوتا تو سپریم کورٹ کی جانب سے طوفان برپا کر دیا جاتا لیکن جیسا کہ میں پہلے بھی اپنے کالموں اور رپورٹس میں لکھ چکا ہوں کہ شریف برادران خدا کا شکر ادا کریں کہ انہیں شریف نواز عدلیہ نصیب ہوئی ہے اگر عدلیہ کا ان کے ساتھ بھی پیپلز پارٹی جیسی رویہ ہوتا تو یہ بھائی ایک دن بھی چین سے حکومت نہ کرپاتے اور ایک بار پھر عدلیہ کو راہ راست پر لانے کے لیے عدالت عظمی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی
http://www.topstoryonline.com/sindh-police-chief-controversy
وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی میں کابینہ کے حصوصی اجلاس کے بعد بنا سندھ کے وزیر اعلی کو اعتماد میں لیے اچانک سندھ کے آئی جی پولیس ندیم شاہد بلوچ اور چیف سکریٹری سندھ اعجاز چودہری کو انکے عہدوں سے ہٹا دیا اور انکی جگہ آئی جی سندھ کے عہدے پر شریف خاندان کے درینہ منظور نظر پولیس آفیسر ذوالفقار احمد چیمہ کو لگانے کے احکامات جاری کر دئیے اور چیف سکریٹری کے عہدے پر کمشنر کراچی کے منصب پر خدمات سرانجام دینے والے شعیب صدیقی کو لگا دیا ۔
یہ خبر میڈیا پر نشر ہوتے ہی سندھ حکومت سراپا احتجاج بن گئی وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے میڈیا پر وزیر اعظم نواز شریف کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان کے اس اقدام کو 1990 کی دہائی کی جانب جانے اور سندھ میں گورنر راج کی طرف پہلا قدم اور اسے سندھ حکومت کے خلاف سازش قرار دیا۔
اسکے ساتھ ہی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے بھی وزیر اعظم کے اس اقدام کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔سندھ حکومت اور قائد حزب اختلاف وفاقی حکومت کی جانب سے اختیار کیے گے غیر آئینی اقدام پر بروقت احتجاج کرنےکا درست فیصلہ کیا کیونکہ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی صوبوں میں تعیناتیوں کے حوالے سے اپنی من مانیاں نہیں کر سکتا۔
وفاقی حکومت کو اس ترمیم کے ذریعے اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی صوبے میں آئی اور چیف سکرٹری تعینات کرنے کے لیے تین ناموں پر مشتمل افسران کا پینل صوبے کو ارسال کریگا جس میں سے صوبے کو کسی ایک نام پر اتفاق کرکے وفاق کو اپنی رضامندی سے مطلع کرنا ہوگا۔ لیکن وزیر اعظم نواز شریف اور انکی کچن کابینہ نے سندھ میں آئی جی پولیس اور چیف سکریٹری کی تعیناتی کو بھی آئی پیپیز کو 480 ارب روپے کی ادائیگی اور نندی پور پراجیکٹ کی لاگت میں راتوں رات اربوں روپے اضافہ کرنے کی مانند سمجھا۔اور سندھ کے وزیر اعلی سید قائم علی شاہ سے بنا کسی مشاورت کے ایک ایسے پولیس افسر کو آئی جی سندھ تعینات کرنے کا فیصلہ کیا جس کی شہرت آئین سے ماورا اقدام کرنے والےایک افسر کی ہے۔ذوالفقار احمد چیمہ وزیر اعلی پنجاب کا منظور نظر ہونے کی بنا پر بیک وقت شیخوپورہ اور سرگودہا رینج کے آر پی او کے عہدوں پر فرائضسرانجام دے چکے ہیں
انکی شہرت میں ایمانداری،قوانین کی پابندی کے حوالے سے میڈیا پرسن مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں۔کیونکہ ان کی وجہ شہرے نواز فیمیلی سے قربت اور انکی زیر سرپرستی میں قوانین کی دھجیاں اڑا تے ہوئے ملزمان کو جعلی پولیس مقابلوں میں پار کرنا ہے۔
شیخوپورہ رینج میں بطور آر پی او تعیناتی کے دوران انہوں نے جتنے بھی پولیس مقابلے کیے سب جعلی تھے۔ہلاک کیے جانے والے تمام افراد بشمول فاروق بھٹی جھنڈے والاکی ہلاکت ہو ،گاوں سہجووال میں ایک طالب علم کے اغوا برائے تاوان کے ملزمان ہو یا دیگر سب کو گرفتار کرنے کے بعد پولیس مقابلے کے نام پر موٹ کے گھاٹ اتارا گیا۔
ذوالفقار احمد چیمہ جن دنوں لاہور میں ڈی ایس پی تعینات تھے ان دنوں یہ موصوف شریف فیملی کی آنکھوں کا تارا بنے۔ اور انہوں نے شریف فیملی کے قرب اور روابط کو مذید مستحکم کرنے کے لیے ہر اشارہ ابرو پر جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا تھا
کچھ دیگر افواہیں بھی گردیش میں ہیں ۔لیکن میں انکا ذکر نہیں کرنا چاہتا یہ افواہیں جناب ذوالفقار احمد چیمہ کے مجرد زندگی گذارنے کے متعلق ہیں۔اگر انہیں سندھ اورکراچی کا کمانڈر بنا دیا جاتا ہے تو انکی لگامیں شہباز شریف کے ہاتھ میں ہوں گی اوذوالفقار چیمہ ہر قدام شہباز شریف سے پوچھے بغیر نہیں اٹھائیں گے۔
1988 سے قبل اور بعد میں میں نے یہی روایت دیکھی ہے کہ اگر وفاق نے کسی صوبے میں آئی جی یا چیف سکریٹری تعینات کرنا ہوتا تو وہ صوبے کے چیف منسٹر کو تین افسران کے ناموں پر ایک پینل ارسال کرتا اور اگر ان تین ناموں میں سے صوبے کا چیف منسٹر کسی ایک نام پر اپنی رضامندی کا اظہار کرتا تو اسے آئی جی اور چیف سکریٹری تعینات کر دیا جاتا۔لیکن یہاں تو وزیر اعظم نے سندھ کے چیف منسٹر کی آنکھوں میں دھول جونکھنےکی کوشش کی
سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن کا یہ موقف بھی وزن دار اور حقائق پر مبنی ہے کہاگر پچھلے پانچ سالوں میں پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت پنجاب میں اسی طرح اپنی مرضی کے آئی جی پولیس اور چیف سکریٹری تعینات کرتی تو حالات کچھ اور ہی ہوتے
یہ پیلز پارٹی کی بیڈ گورنس کے باوجود ایک کارنامہ ہے کہ اس نے تمام عرصہ حکومت شہباز شریف کے غیر مہذبانہ ،غیر شائستا انداز حکمرانی کے باوجود ان کی مرضی کے افسران پنجاب میں تعینات کیے اور اگر پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت بھی شہباز شریف کے مسخعے پن کا جواب ایسے ہی دیتی تو آج نہ جمہوریت مستحکم ہوتی اور نہ نواز شریف تیسری بار وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہوتے
ذوالفقار علی چیمہ کی تعیناتی کے حوالے سے سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے تحفظات اس حوالے سے بجا قرار دئیے جائیں گے کہ اس سے قبل نواز شریف کی دوسری حکومت میں انہوں نے ایک پنجابی پولیس افسر رانا مقبول احمد کو آئی جی سندھ لگایا تھا۔تو اس نے آصف علی زرداری کی جان لینے کی دانستہ کوشش کی تھی۔یہ تو آصف علی زرداری کی قسمت اچھی تھی اور خدا کو انکی زندگی عزیز تھی کہ وہ رانا مقبول احمد کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ گے
اس تلخ تجربے کی بنیاد پر بھی پیپلز پارٹی نے ذوالفقار احمد چیمہ کی تعیناتی کا رسک لینے سے انکار کردیا۔
مجھے تو بعض اینکرز کے روئیے پر بھی افسوس ہوتا ہے وہ اس لیے کہ جب شرجیل میمن نے کہا کہ ذوالفقار احمد چیمہ مسلم لیگ نواز کا ورکر ہے کیونکہ اسکا ایک بھائی ریٹا ئرڈ جسٹس افتخار احمد چیمہ گوجرانوالہ سے رکن قومی اسمبلی ہےتو اس اینکر نے شرجیل میمن سے سوال کیا کہ میمن صاحب آپکی حکومت نے بھی تو آغا سراج دورانی کے ھائی کو آئی جی سندھ لگایا تھا؟ جس پر شرجیل میمن نے اس اینکر سے پوچھا کہ بھائی کونسا افسر آغا سراج دورانی کا بھائی تھا؟ تو اینکر نے شکیل دورانی کا نام لیا جس پر شرجیل میمن نے جواب دیا کہ بھائی شکیل دورانی کا آغا سراج دورانی کے خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے اس پر اینکر نے شرجیل میمن سے معافی مانگی اور انکا شکریہ ادا کیا کی انکی وجہ سے انکی درستگی ہو گئی۔
ذوالفقار چیمہ نے جتنے بندے جعلی پولیس مقابلوں میں پار کیے ہیں اگر ایسا سندھ کی پیپلز پارٹی کی حکومت میں ہوتا تو سپریم کورٹ کی جانب سے طوفان برپا کر دیا جاتا لیکن جیسا کہ میں پہلے بھی اپنے کالموں اور رپورٹس میں لکھ چکا ہوں کہ شریف برادران خدا کا شکر ادا کریں کہ انہیں شریف نواز عدلیہ نصیب ہوئی ہے اگر عدلیہ کا ان کے ساتھ بھی پیپلز پارٹی جیسی رویہ ہوتا تو یہ بھائی ایک دن بھی چین سے حکومت نہ کرپاتے اور ایک بار پھر عدلیہ کو راہ راست پر لانے کے لیے عدالت عظمی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی
http://www.topstoryonline.com/sindh-police-chief-controversy