سنبل بیٹی کے نام
سنبل بیٹی کے نام ، اس کے پیارے ہاتھوں معصوم چہرے کے نام ، اس کے مجروح جسم کے نام ، اور اس رب سے کلام جس نے کہا میں نے انسان کو احسن تقویم پر تخلیق کیا ، بنام رب کے جس نے شیطان کو دھتکارا ، انسان کو خلیفہ بنایا ، چرند پرند کے رب ، تو سنبل کا بھی تو رب ہے ، بس تجھ سے ہی کلام ،
ہمجھولیاں ، ہاۓ ہمجھولیاں ، آج سکول جائیں گی ، میں نا جا سکوں گی ، ماں ہاتھ سے چوری بناۓ گی ، پر میں کھا نا سکوں گی ،
تختی سلیٹ اور قاعدہ بستے کے اندھیرے میں اداس پڑے رہیں گے ، ان سے کہو آج میں سکول نا جا سکوں گی ،
رات اتنی طویل ، بستر بھی بہت انجانا انجانا سا ، ماں کی آغوش ہاۓ میری بدقسمتی میں آج تجھ میں سما نا سکوں گی
والد اے میرے والد ، آج میں آپ سے سکے آنے مانگ نا سکوں گی ، میں چیز و شکر ، لباس و چپل بلکل نا مانگوں گی ،
استانی جی ، آج میں لب پہ آتی ہے دعا بلکل بھی تو نا سنا سکوں گی ، آج آپ ہی نے دعا کرنی ہے ، زندگی میری شمع کی صورت ، خدا سے دعا نا کرنا ، بس صاف صاف کہہ دینا آج دعا لب پر نہیں ، دل چیر چکی ، کلیجہ پھٹ چکا ، آج میری دعا تیرے آسمان کو شق نا کرے تو ، اس آسمان کو ہم پر گرا دینا ، میں تو اب دعا بھی نا کرسکوں گی
فرشتوں سے کہو ، مجھے لوری نا سنائیں ، پروں سے پنکھا نا جھلائیں ، میں جب پھر سے انسان دیکھتی ہوں تو ، واپس سو جاتی ہوں ، آنکھیں موند لیتی ہوں ، اس تکلف کی کیا ضرورت ، ان دلاسوں کا کیا فائدہ ، یہ ہیولے ، یہ ساۓ ، بہت کریہہ اور بدصورت ، مجھے جنت کے کسی باغ میں جھولا لگا دو ، میں اپنے گلے سے ، گن گن پیسے دوں گی ، وہ عیدی جو خرچ نا کی ، وہ سکے جو میلے نا ہونے دئیے ، وہ سب لے لو ، مجھے جنت میں بلا لو ، کسی درخت پر جھولا لگا دو ، میں اب انسانوں میں رہ نا سکوں گی ،