Zia Hydari
Chief Minister (5k+ posts)
سمجھنا ہے تو سمجھ جاؤ
پچھلے دنوں کم سِن گھریلو ملازمہ طیبہ کا مقدمہ راضی نامے کے ذریعے خاموشی سے نمٹا دیا گیا تھا۔ ان عدالتوں میں خوف ناک بدعنوانی، رشوت ستانی، ہیر پھیر کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ کہانی وہ نہیں ہے، لیکن پڑھ لیں شاید اس طرح کچھ رازوں پر پڑے پردے اٹھ جائیں۔
ہمارے ظالمانہ اور استحصالی نظام کی سیاہیوں سے ہمارے معاشرہ کا چہرہ کالا ہوگیا ہے۔ ہمارے معاشرہ کا المیہ ہے کہ خالی جھولی والوں کی مجبوری یہ ہے کہ غریب، لاچار لوگ انصاف سے محروم ہیں، وہ سو بار مرتے اور سو بار جیتے ہیں؟ ان کے بچے اپنی ننھی مُنی آرزوؤں کو مجبوری کی قبروں میں دفن ہوتے دیکھتے رہتے ہیں؟ اور دوسری طرف زردار، بااختیار حاکم طبقے کی لوٹ مار اور دھونس دھاندلی، اور بدعنوانیاں بےحس قہقہے لگاتی ہیں، ظالم لوگ ہنستے ہیں اور مظلوم، نادار لوگ خون کے گھونٹ پیتے ہیں، سسک سسک کر جتے ہیں۔
فضلو نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بیٹی کسی کے گھر کام کرے، وہ تو اسے پڑھانا چاہتا تھا، لیکن بیروزگاری کے ہاتھوں بہت مجبور ہوکراس نے اپنی پھول سی دس سالہ بیٹی نگینہ کو گھریلو ملازمہ بنانے کا سوچا تھا۔
ایک بڑے سرکاری ملازم کے بچوں کی خادمہ۔۔۔۔۔۔
دس سال کی معصوم سی بچی سےگھر کاسارا کام لیا جاتا تھا، ایک دن استری کرتے ہوئے مالکہ کی قمیص جل گئی تو مالکہ نے اسی استری سے اسکا جسم جگہ جگہ سے داغ دیا، گملہ اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا۔
اس کا باپ رپورٹ کرنے تھانے جاتا ہے۔۔۔۔۔
سر جی! یہ میری بچی ہے، یہ ایک گھر میں کام کرتی ہے۔ اس سے استری کرتے ہوئے غلطی سے مالکن کی قمیص جل گئی، تو اسے بہت مارا جی، جھاڑو سے مارا، بیلٹ سے مارا، استری لگا کر اس کے ہاتھ، پاؤں کمر جلادی۔
اوئے، تم لوگ کسی کا نقصان کروگے تو وہ تمھیں پیار کرے گا؟ کس کے گھر کام کرتی ہے یہ؟
ارے، قاضی برلاس صاحب کے گھر جی۔۔۔
ایس ایچ او برلاس کا نام سنتے ہی فضلو کو ڈانٹنے لگا۔
او چل دفع ہو یہاں سے، منہ اٹھا کے آجاتے ہو، کسی کی بھی شکایت لے کر، تیری اوقات ہے، جو تو برلاس صاحب کی بیوی کے خلاف پرچہ کرائے؟
سر جی رپورٹ ۔۔۔
اوئے چل اوئے، تیری تو۔۔۔بھگا اس کتے کو!
کانسٹیبل اپنا فرض پورا کرنے کے لیے آگے بڑھا، لیکن اس سے پہلے ہی فضلو بچی کا ہاتھ تھامے تیز تیز قدموں سے چلتا تھانے سے نکل گیا۔
فضلو، بہت ظلم ہوا ہے، میری بچی پر، مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔۔۔وہ زرینہ خالہ کا پڑوسی ہے، وہ کسی ٹی وی والے کے ہاں ڈرائیور لگ گیا ہے، اس سے بات کرتے، وہ ہمیں انصاف دلا سکتا ہے۔
فضلو کی آنکھوں میں امید روشن ہوگئیں،
۔معروف کرائم رپورٹر، کامران کی لاٹری لگ گئی تھی۔ میڈیا ٹرائل ہی ہمارا ہتھیار ہے، کمائی کا بڑا ذریعہ۔ ایک دو این جی اوز کی ضرورت تھی۔ جتنے دن اسٹعری چلے گا، اتنا فائدہ ہوگا۔
وہ تو ہوجائے گا، مگر۔۔۔ این جی او کی آواز میں شکوہ تھا۔ پچھلی بار آپ نے ہمارا صحیح طرح خیال نہیں رکھا تھا۔
کامران نے قہقہہ لگایا۔ ابھی طے کرلیتے ہیں!
کرپشن کے الزامات، دھشت گردی، ٹریفک حادثے، بیروزگاری پانی اور بجلی کی حالت۔۔۔ ہر خبر بے معنی ہوئی۔
ملک بھر کے میڈیا کی توجہ نگینہ کیس پر مرکوز تھی۔ ہر چینل پر ننھی نگینہ کا زخموں سے چور چہرہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے گھر پرلوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ سماجی تنظیمیں راشن اور کپڑے لیے پہنچیں۔ فوٹو سیشن شروع ہوگیا۔ کامران سائے کی طرح اس کے ساتھ تھا۔
برلاس فورا تھانے پہنچا۔ تھانے دار اسے دیکھ کر کھڑا ہوگیا۔ سر جھکا کر اپنی مجبوری بیان کی۔ اب معاملہ میڈیا میں آگیا ہے سر۔ بہتر ہے، کوئی اچھا وکیل کیا جائے۔
وہ باہر نکلا تو ایک آدمی نے اسے ایک پرچی دی،
کامران نے لکھا تھا، کہ معاملہ حل ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔
کامن سینس کی بات ہے، دولت بگڑا معاملہ بھی سدھار دیتی ہے۔
رقم ٹرانسفر کردی گئی۔ اور جلدی معاملہ نمٹا گیا۔
فضلو اسکی بیوی نگینہ سب خوف زدہ بیٹھے تھے، کامران مسلسل اُسے گھور رہا تھا۔
ہمیں یہاں کیوں لائے صاحب۔ فضلو خاصا بے چین تھا۔
کیوں کہ برلاس بڑا خطرناک آدمی ہے۔ وہ تمھیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔ کامران نے ایک کاغذ سامنے رکھا۔ اس پر انگوٹھا لگاؤ۔
یہ کیا ہے صاحب۔ فضلو نے پوچھا۔
معافی نامہ۔ وکیل ہنسا۔ بھائی، تم نے اتنی چھوٹی بچی سے نوکری کروائی۔ تم پر کیس بنتا ہے۔ معافی نامہ پر انگوٹھا لگا دو، ورنہ پولیس تمھیں پکڑ لے گی، بچی کسی یتیم خانے میں ڈال دی جائے گی۔
نگینہ ڈر گئی۔ فضلو کانپ گیا۔ جب فضلو نے انگوٹھا لگایا، کامران کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔ اس نے موبائل پر ایک ایس ایم ایس ٹائپ کیا۔ راضی نامہ ہوگیا!
یہ پیغام بہ یک وقت کئی لوگوں کو وصول ہوا، سب کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔
دولت اثر و رسوخ بگڑا معاملہ سدھار دیتی ہے۔