صدرعلوی اور ملکی سرکردہ علماء میں دوران رمضان مساجد میں عبادات کا
SOPs
طے پاگیا- ممکنہ احتیاطی تدابیر کے بعد بھی حکومت کے خدشات اگر برقرار رہے تو وہ اس فیصلہ پر نظرثانی کرسکے گی
گزشتہ کچھ دنوں میں میڈیا اور خاص عوامی حلقوں سے حکومتی پالیسی پر اعتراضات اٹھاۓ جاتے رہے- کہا گیا کہ حکومت اس قدر بےبسی کا اظہار کیوں کر رہی ہے؟ ان علماء کو نکیل کیوں نہیں ڈالی جاتی؟ دلیل کے طور پر عرب ممالک کا بالخصوص حوالہ دیا جاتا جہاں مساجد میں مکمل سکوت ہے
عرب ریاستوں کا حوالہ دیتے وقت یہ بات کیوں نظرانداز کی جاتی ہے کہ مطلق العنان ریاستی پالیسی پر اختلافی راۓ کی گنجائش نہیں ہوتی- ان کے معروف علماء (تمام نہیں) ریاستی بیانیہ کے زیراثر اپنی راۓ قائم کرتے ہیں- کلی اخیتارات کے مالک ان حکمرانوں کے جی میں آۓ تو عوام پر جبراً مذہب کا نفاذ کردیں اور منِ یار نہ بھاۓ تو بیک جنبش قلم اسی قانون کو کالعدم- یاد کیجیۓ کیسے ایک نوآمیز شہزادے نے سعودیہ کی اسلامی شبہیہ کو دو سالوں میں تہہ وبالا کردیا- مجال ہے کہ کہیں سے علماء کی اختلافی آواز بلند ہوئی ہو- اس کی بنیادی وجہ
extractive institutionalized
ریاستی ڈھانچہ ہے جہاں مذہب یا نسلی برتری کی بنیاد پر اشرافیہ مسلط ہے- جہاں فیصلے اجتماعی دانش پر نہیں، فرد واحد کی ذات یا مخصوص گروہ کرتا ہے
پاکستان میں اس کے برعکس جمہوریت ہے- آئین وقانون کے تحت ہرفرد کو اظہار راۓ کی آزادی ہے- جن علماء نے حکومتی پالیسی پر تنقید کی تھی وہ اسی سہولت کا استعمال کررہے تھے- اس کا احسن جواب یہی بنتا تھا کہ ان سے مشاورت کی جاتی، طب کے ماہرین سے تبادلہِ خیالات کروایا جاتا تاکہ پالیسی میں یگانگت اور اتفاق راۓ پیدا ہو
صدر اور علماء کی ملاقات سے یہ اختلافات دور ہوگۓ- یہی ایک جمہوری معاشرے کی علامت ہے- انہی روایات کو مضبوط ہونا چاہیے
SOPs
طے پاگیا- ممکنہ احتیاطی تدابیر کے بعد بھی حکومت کے خدشات اگر برقرار رہے تو وہ اس فیصلہ پر نظرثانی کرسکے گی
گزشتہ کچھ دنوں میں میڈیا اور خاص عوامی حلقوں سے حکومتی پالیسی پر اعتراضات اٹھاۓ جاتے رہے- کہا گیا کہ حکومت اس قدر بےبسی کا اظہار کیوں کر رہی ہے؟ ان علماء کو نکیل کیوں نہیں ڈالی جاتی؟ دلیل کے طور پر عرب ممالک کا بالخصوص حوالہ دیا جاتا جہاں مساجد میں مکمل سکوت ہے
عرب ریاستوں کا حوالہ دیتے وقت یہ بات کیوں نظرانداز کی جاتی ہے کہ مطلق العنان ریاستی پالیسی پر اختلافی راۓ کی گنجائش نہیں ہوتی- ان کے معروف علماء (تمام نہیں) ریاستی بیانیہ کے زیراثر اپنی راۓ قائم کرتے ہیں- کلی اخیتارات کے مالک ان حکمرانوں کے جی میں آۓ تو عوام پر جبراً مذہب کا نفاذ کردیں اور منِ یار نہ بھاۓ تو بیک جنبش قلم اسی قانون کو کالعدم- یاد کیجیۓ کیسے ایک نوآمیز شہزادے نے سعودیہ کی اسلامی شبہیہ کو دو سالوں میں تہہ وبالا کردیا- مجال ہے کہ کہیں سے علماء کی اختلافی آواز بلند ہوئی ہو- اس کی بنیادی وجہ
extractive institutionalized
ریاستی ڈھانچہ ہے جہاں مذہب یا نسلی برتری کی بنیاد پر اشرافیہ مسلط ہے- جہاں فیصلے اجتماعی دانش پر نہیں، فرد واحد کی ذات یا مخصوص گروہ کرتا ہے
پاکستان میں اس کے برعکس جمہوریت ہے- آئین وقانون کے تحت ہرفرد کو اظہار راۓ کی آزادی ہے- جن علماء نے حکومتی پالیسی پر تنقید کی تھی وہ اسی سہولت کا استعمال کررہے تھے- اس کا احسن جواب یہی بنتا تھا کہ ان سے مشاورت کی جاتی، طب کے ماہرین سے تبادلہِ خیالات کروایا جاتا تاکہ پالیسی میں یگانگت اور اتفاق راۓ پیدا ہو
صدر اور علماء کی ملاقات سے یہ اختلافات دور ہوگۓ- یہی ایک جمہوری معاشرے کی علامت ہے- انہی روایات کو مضبوط ہونا چاہیے