سرن میں پاکستانی سائنسدانوں کی بڑی قدر cern

Pak1stani

Prime Minister (20k+ posts)
Something to be proud of:

111213142217_sp_gch_higgs_304x171_reuters_nocredit.jpg


سوئٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں جوہری تحقیق کی یورپی تجربہ گاہ ’سرن ‘سے منسلک ڈاکٹر حفیظ ہورانی کے مطابق سرن لیبارٹری کے ساتھ تیس کے قریب پاکستانی سائنسدان کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سنہ انیس سو چورانوے میں سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کرنے کا معاہدہ طے پایا تھا اور اس وقت سے اب تک تقریباً سو سے زائد سائنسدان سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔
سرن کے ہیڈرون کولائیڈر منصوبے سے وابستہ سائنسدان ڈاکٹر حفیظ ہورانی کے مطابق ایک وقت میں لیبارٹری میں پندرہ کے قریب سائنسدان کام کرتے ہیں اور باقی سائسندان پاکستان میں انٹرنیٹ کے ذریعے تحقیقی کام کرتے ہیں جس کو ویلیو ایڈیشن کہا جاتا ہے۔


’سرن سے مختلف مواد تحقیق کے لیے بھیجا جاتا ہے اور یہاں پاکستان میں اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد مختلف ماڈلز
تیار کر کے واپس بھیجے جاتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کرنے والے زیادہ تر سائنسدانوں کا تعلق نیشنل سینٹر فار فزکس اور
پاکستان کے جوہری ادارے ’پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ پاکستانی سائنسدانوں کی مہارت اور قابلیت کی یورپ میں، خاص طور پر سرن سے متعلق کام کے حوالے سے بہت قدر کی جاتی ہے اور اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کے چالیس سائنسدان سرن کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور پاکستانی سائنسدانوں کی تعداد تیس ہے۔

’سرن میں بھارتی سائنسدان صرف ایک منصوبے میں جبکہ پاکستانی سائنسدان دو پراجیکٹس’سی ایم ایس اور ایلس‘ کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اس شعبے کو( Experimental High Energy Physics) کہتے ہیں اور یہ سرن کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سرن میں دنیا بھر کے اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی اداروں سے سائنسدان کام کرتے ہیں اور پاکستانی سائنسدانوں کو ان کے ساتھ مل کر کام کرنے اور اس سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
’سرن میں دنیا کے جدید ترین آلات موجود ہیں جو کہ دنیا میں کہیں اور نہیں ہیں، اور ان آلات پر ہمیں کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔‘

ڈاکٹر حفیظ ہورانی سے سیکھے گئے تجربات اور علم کو دیگر پاکستانی سائنسدانوں تک منتقل کرنے کے لیے اس شعبے کو نصاب میں شامل کرنے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔


http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2012/07/120704_hafeez_higg_boson_zz.shtml
 
Last edited by a moderator:

OnlyPK

Chief Minister (5k+ posts)
jo bnda pak me kakh pati hy usi ke world me respect hy, bad qismati hamari or hamary mulk ke k is mulk k scholars, scientists, researchers mulk chor kr ja rhy hy, hm is qabil hi nhe k unhy accomodate kr sky..........sad .........xtremely sad...:(
 
تحقیق کی یورپی تجربہ گاہ سرن کے ساتھ تقریب&#15

[h=1]سرن میں پاکستانی سائنسدانوں کی بڑی قدر[/h]
ذیشان ظفر







111213142217_sp_gch_higgs_304x171_reuters_nocredit.jpg

سوئٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں جوہری تحقیق کی یورپی تجربہ گاہ سرن سے منسلک ڈاکٹر حفیظ ہورانی کے مطابق سرن لیبارٹری کے ساتھ تیس کے قریب پاکستانی سائنسدان کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سنہ انیس سو چورانوے میں سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کرنے کا معاہدہ طے پایا تھا اور اس وقت سے اب تک تقریباً سو سے زائد سائنسدان سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔

سرن کے ہیڈرون کولائیڈر منصوبے سے وابستہ سائنسدان ڈاکٹر حفیظ ہورانی کے مطابق ایک وقت میں لیبارٹری میں پندرہ کے قریب سائنسدان کام کرتے ہیں اور باقی سائسندان پاکستان میں انٹرنیٹ کے ذریعے تحقیقی کام کرتے ہیں جس کو ویلیو ایڈیشن کہا جاتا ہے۔
سرن سے مختلف مواد تحقیق کے لیے بھیجا جاتا ہے اور یہاں پاکستان میں اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد مختلف ماڈلز تیار کر کے واپس بھیجے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سرن لیبارٹری کے ساتھ کام کرنے والے زیادہ تر سائنسدانوں کا تعلق نیشنل سینٹر فار فزکس اور پاکستان کے جوہری ادارے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی سائنسدانوں کی مہارت اور قابلیت کی یورپ میں، خاص طور پر سرن سے متعلق کام کے حوالے سے بہت قدر کی جاتی ہے اور اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کے چالیس سائنسدان سرن کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور پاکستانی سائنسدانوں کی تعداد تیس ہے۔
سرن میں بھارتی سائنسدان صرف ایک منصوبے میں جبکہ پاکستانی سائنسدان دو پراجیکٹسسی ایم ایس اور ایلس کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس شعبے کو( Experimental High Energy Physics) کہتے ہیں اور یہ سرن کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سرن میں دنیا بھر کے اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی اداروں سے سائنسدان کام کرتے ہیں اور پاکستانی سائنسدانوں کو ان کے ساتھ مل کر کام کرنے اور اس سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
سرن میں دنیا کے جدید ترین آلات موجود ہیں جو کہ دنیا میں کہیں اور نہیں ہیں، اور ان آلات پر ہمیں کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔
ڈاکٹر حفیظ ہورانی سے سیکھے گئے تجربات اور علم کو دیگر پاکستانی سائنسدانوں تک منتقل کرنے کے لیے اس شعبے کو نصاب میں شامل کرنے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔


Source : http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2012/07/120704_hafeez_higg_boson_zz.shtml
 

Back
Top