dangerous tears
Senator (1k+ posts)
آجکل کے دور میں اگر کوئی بہت بڑی اچھی یا بُری خبر ہو تو وہ میڈیا پر فوراً جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے۔
لیکن ایسا سب بڑی خبروں کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ ایسی ہی ایک خبر پاکستانی لڑکی ستارہ بروج اکبر کے حالیہ عالمی اعزاز کی بھی ہے
۔ابتدا میں یہ خبر چند سطروں کی صورت میں ایک ادارے کی جانب سے نشر ہوئی
۔ پھر ایک ادارےنےایک مختصر ٹی وی انٹرویو نشر کیا۔
اس دوران عوامی سطح پر سوشل میڈیا پر پاکستانی عوام کی طرف سے اس پر کوئ خاطر خواہ حوصلہ افزائی کا عمل یا ٹرینڈ دیکھنے میں نہ آیا۔
پھر کچھ وقت کے بعد ایک دو اور اداروں نے اس خبر کو مختصراً نشر کیا۔
آئیےپہلے پاکستان کے اس چمکتے ہوئے ستارے پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر اس اندھیرے کا بھی تجزیہ کریں گے
جو ستارہ بروج اکبر جیسے کئیں چمکتے دمکتے ستاروں سےمُنہ پھیرے ہوئے ہے۔
ستارہ بروج اکبر اس وقت پندرہ سال کی پاکستانی شہری ہیں۔
ستارہ نے نو سال کی عمر میں کیمسٹری میں او لیول کا امتحان پاس کرکے پاکستان کی سطح پر نیشنل ریکارڈ بنایا۔
دس سال کی عمر میں بائیولوجی میں او لیول کرکے عالمی ریکارڈ بنایا۔
گیارہ سال کی عمر میں او لیول کا امتحان ریاضی، سائنس اور انگلش میں پاس کرکے دنیا کی کم ترین بچی ہونے کا ورلڈ ریکارڈ بنایا
۔ پھر ریاضی،فزکس،بائیولوجی ، کیمسٹری اور انگلش میں او لیول کرکے ورلڈ ریکارڈ قائم کیا۔
اور اب 2015 میں کچھ دن قبل یہ سننے اور پڑھنے میں آیا کہ ستارہ بروج اکبر نے15 سال کی عمر میں انگریزی کےبین
الاقوامی امتحان IELTS میں 9 میں سے 9 بینڈ حاصل کرکے یہ کارنامہ سرانجام دینے والی دنیا کی کم ترین لڑکی ہونےکا
ورلڈ ریکارڈ قائم کیا ہے۔ IELTS کے ادارے کے مطابق 9 بینڈسب سے بڑا بینڈ یا سکور ہےاور 9 بینڈ حاصل کرنے والا
انگریزی زبان کا ماہر یا expert سمجھا جاتاہے۔ ستارہ بروج اکبر کا تعلق نہ ہی پاکستان کے بہت بڑے شہر سے ہے
اور نہ ہی انہوں نے ماضی میں کسی بہت بڑے اور مشہور تعلیمی ادارے یا سکول سے تعلیم حاصل کی۔
ستارہ بروج اکبر کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے علاقے چناب نگر سے ہے،
جس کا پرانا نام ربوہ تھا جو اس میں رہنے والی احمدی اکثریتی آبادی کی مرضی کیخلاف احمدی مخالف مذہبی شخصیات کےمطالبے
پر بدل کر چناب نگر کردیا گیا اور اب بعض اوقات میڈیا پر لوگ چناب نگر کا نام لینے سے بھی گریز کرتے ہیں اور اسکی جگہ چنیوٹ کا نام لیا جاتاہے
ستارہ نے اسی چناب نگر (ربوہ ) کےاسکولوں سے ابتدائ تعلیم حاصل کی۔
ستارہ بروج اکبر کی باتیں سننے کے لائق ہیں، اس کی کوئی بھی بات اپنے ملک پاکستان کے ذکر اور اسکا نام روشن کرنے کے عزم کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔
لیکن کیا اس کے ملک کے لوگ بھی اسکی اسی طرح حوصلہ افزائی کرتے ہیں؟
ستارہ بروج اکبر کے اس حالیہ ورلڈ ریکارڈ پر ابھی تک سوشل میڈیا اور عام میڈیا پر پاکستانیوں کی طرف سےکوئی خاطر خواہ حوصلہ افزائی کا عمل نظر نہیں آیا
۔وہ سوشل میڈیا اور ٹی وی میڈیا جو دو پاکستانی لڑکیوں کو انگریزی گانا گاتے سن کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیتاہے،
اس میڈیا کے پاس انگریزی زبان کےایک معیاری ادارے سے انگریزی کےمعیاری امتحان IELTS میں انگریزی کے ماہرانہ درجے پر 9 بینڈ لیتی ہوئ
پاکستانی ستارہ بروج اکبر کے لئے ذیادہ وقت نہ تھا، لیکن کیوں؟
اس کیوں کے جواب کا ایک پس منظر ہے جو سب کے سامنے ہے لیکن اسے ناانصافی ماننے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے والے
مرد میدان بہت کم نظر آتے ہیں ۔ستارہ بروج اکبر کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے، اس مذہبی جماعت کے افراد احمدی کہلاتےہیں
اور انہیں عوامی سطح پر قادیانی اور مرزائی کے ناموں سے بھی پکارا جاتاہے۔
اس مذہبی برادری کا ذکر اس ضمن میں اس لئے مناسب معلوم ہوا
کیونکہ اس برادری سےتعلق رکھنے والے لوگوں کیخلاف سوشل بائیکاٹ کی تحریک زوروں پر رہتی ہے اور اگر اس برادری سے تعلق رکھنے والے کوئی بڑے
سے بڑا کارنامہ بھی سر انجام دیں تو ملک میں اکثر لوگ انکی حوصلہ افزائی تو کیا اس کارنامے کا ذکر تک نہیں کرتے۔
پاکستان کے کئی شہروں میں کھلے عام احمدیوں کے سوشل بائیکاٹ کے اشتہارات ملتے ہیں جن میں انہیں دکان میں داخل ہونے سے منع کیاجاتاہے
اور احمدیوں کے کاروباروں کے نام شائع کرکے ان کےبائیکاٹ کی تحریک کی جاتی ہے۔

اگر اس برادری سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کے کسی خاص شعبہ میں بڑےکارنامے پر کوئی سیاستدان انصاف سے کام لیتے ہوئے اسے ملکی انتظام میں بڑے
عہدے پر فائز کرنے کا اعلان کرے تو اس کیخلاف بھر پور احتجاج ہوتا ہے اور اس سیاستدان کو یہ بتانا پڑتا ہے کہ اسکا جماعت احمدیہ سے تعلق نہیں
اور وہ ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط یقین رکھتاہے اور وہ مسلمان ہے اور پھر وہ احمدیوں کے معاملے میں خاموشی اختیار کرلیتاہے۔
ان حالات میں عوامی سطح پر اخبارات اور دوسرے میڈیا کے ذرائع پر جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والےتاریخی،
سیاسی، عسکری، اور سائنسی قومی ہیروز کا تذکرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستانی نئی نسل ، جو کہ اب سوشل میڈیا کے
دور میں اپنے ملک میں کم اور گلوبل ولیج میں زیادہ رہتی ہے کو درج ذیل اقسام کےسوالات کا اکثر سامنا رہتاہے:
تحریک پاکستان کے اہم لیڈر، قرارداد پاکستان کے خالق، پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ، اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے اور
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر و عالمی عدالت انصاف کےصدر اور بانیانِ پاکستان سےتعلق رکھنے والے قائد اعظم کے
دست راست سر چوہدری ظفر اللہ کا مطالعہ پاکستان کے نصاب میں خاطر خواہ ذکر کیوں نہیں؟،
پاکستانی آزاد میڈیا کے ہر موضوع پر کھل کر تجزیہ کرنے والے اینکرز، چوہدری ظفراللہ خان جیسی تاریخی اور عالمی پاکستانی شخصیت
کی خدمات پر کیوں پروگرام نہیں کرتے؟ پاکستان کے بڑے بڑے لکھاری سر ظفر اللہ خان کی پاکستان اور عالم اسلام کیلئے خدمات پر قلم اٹھاتے ہوئے کیوں کتراتے ہیں؟
اسی طرح ڈاکٹر عبدالسلام جیسی عالمی شخصیت کا تعلق بھی پاکستان اور جماعت احمدیہ سے ہے جو مرتے دم تک پاکستانی شہری رہے۔
ڈاکٹر سلام کے نوبل انعام، انکی پاکستان سے محبت و خدمات اور انکی انسان دوستی کو کون نہیں جانتا، پر انکی خدمات کا ذکر پاکستانی میڈیا اور خبارات میں کیوں نہیں ملتا؟
کیوں سائنس کے ہیرو کی مثال دیتے ہوئے پاکستانی شہریوں کے لب اور قلم ڈاکٹر عبدالسلام کیلئےجنبش نہیں کھاتے؟
کیوں پاکستانی عالمی شخصیات کی مثال دیتے ہوئے ظفراللہ خان کا نام اکثر پاکستانیوں کے لبوں پر نہیں آتا؟ان سب کا جواب بڑا سادہ ہے کہ ان سب شخصیات کا ذکر کرنے سے ہر چھوٹا بڑا اس لئے کتراتا ہے
کیونکہ ان شخصیات کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے، اور جو بھی احمدیوں کی جائز تعریف کرے یا ان سے
ہمدردی ظاہر کرےتو اسے احمدی /قادیانی اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھا جانےلگتاہے۔
اگر احمدیوں کیلئے کوئی اچھا لفظ بولنے والا شخص ایک بڑا ملکی عہدیدار ، لیڈر یا سیاستدان ہو تو اسےٹی وی پر آکر بتانا پڑتا ہے کہ
وہ احمدی/قادیانی نہیں اور وہ ختم نبوت پر مکمل یقین رکھتاہے اور اسکا احمدیوں/قادیانیوں کے متعلق ان قوانین کو ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں
جن کے تحت احمدی/قادیانی مسلمانوں جیسی کوئی حرکت نہیں کرسکتے۔
یہ بات دیانتداری کیخلاف ہوگی کہ کہا جائے کہ پاکستان میں کوئی بھی احمدیوں کے کارناموں کو نہیں سراہتا، سراہنے والے کم ہی سہی
لیکن ہر شعبہ میں موجود ہیں اور احمدیوں کیخلاف اس عمومی معاشرتی بائیکاٹ کے باوجود ان چند بہادر لکھاریوں،
مقرروں اور میڈیا والوں کی بروقت اور مؤثرتحریرات ، تقاریر، اور پروگرامز کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اب زمانہ بدل رہاہے اور ہم دنیا سے کٹے ایک چھوٹے سے گاؤں میں کسی زمیندار کی غلامی میں نہیں بلکہ آزاد سوشل میڈیا کے آفاقی گاؤں میں رہتے ہیں
جہاں کسی کی عوامی ساکھ ہی اسکا سب کچھ ہے۔ حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے بخوبی واقف ہیں کہ اگر بڑے سے بڑا ادارہ بھی اپنی عوامی ساکھ
کھو دے تو بے انتہا سرمایہ اور پیشہ ورانہ لوگوں کی فوج ظفر موج بھی اس ساکھ کو آسانی سے بحال نہیں کرسکتی۔
اس دور میں کوئی بھی کسی نا انصافی اور ظالمانہ رویے پر کسی سے بھی سوال کرسکتا ہے، اور اس ملک، ادارے یا شخص کو اپنی عوامی ساکھ برقرار رکھنے
کیلئے انصاف سے کام لیتے ہوئے بنیادی انسانی اور معاشرتی اقدار کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔
امید ہے کہ پاکستان کی سمجھدار پرانی و نئی نسل کسی طور بھی پاکستان کی ساکھ پر سودا کرنے کو تیار نہیں ہوگی۔
ان حالات میں محب وطن پاکستانی کے سامنے ایک ہدف ہونا چاہئے اور وہ ہے عالمی برادری میں انصاف پسند اور انسان دوست ملک کےطور پر پاکستان کی ساکھ بحال کرنا۔
مذکورہ تناظر میں پاکستان کی ساکھ بچانے اور اسے قائم رکھنے کا نہایت اہم طریقہ یہ ہے کہ پاکستان کے تمام شہریوں سے
بلا تفریق مذہب اور عقیدہ، یکساں سلوک کیا جائے اور سمجھا جائے کہ یہ ہر شہری کا ملک ہےتاکہ کوئی بھی یہ کہتےہوئےاس ملک کو خیر باد نہ کہےکہ:اے میرے ہم نشیں چل کہیں اور چل ، اس چمن میں اب اپنا گزارا نہیں
بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم ، اب تو کانٹوں پے بھی حق ہمارا نہیں
سورس
Last edited by a moderator: