سب کو آزما لیا، اسے بھی ایک مرتبہ موقع ملنا چاہیے
عدنان خان کاکڑ
اس کے بارے میں یہ تسلیم کہ دوران تقریر جوش اس کے ہوش پر غالب آ جاتا ہے اور وہ کچھ کا کچھ بول جاتا ہے۔ اسے واقعی سینس نہیں کہ کس موقعے پر کیا بات کرنی ہے اور کون سی نہیں۔ مانا کہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ اس کے خلاف ہے اور ملکی اسٹیبلشمنٹ بھی اسے طاقت دینا پسند نہیں کرے گی۔ تسلیم کہ وہ بے انتہا ضدی اور بے لچک ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ بد نیت اور بد دیانت نہیں ہے۔ وہ پاکستان کے مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ بین الاقوامی طاقتیں اسے پسند نہیں کرتیں لیکن انہیں آنکھیں دکھانے کی ہمت بھی صرف اسی میں ہے۔
معیشت سنبھالنے کی کوشش بھی وہ دل سے کرے گا کہ اس کی ٹیم میں ایسے لوگ ہیں جو معیشت کی سمجھ بوجھ کی وجہ سے خوب امیر ہو چکے ہیں اور ملک کو بھی امیر کر سکتے ہیں۔ اور ان فرشتوں کے سامنے تن کر کھڑے ہونے کا بھی اس میں حوصلہ ہے جن سے مدد پانے کا اس پر الزام لگتا ہے۔
ممکن ہے اسے حکومت ملے تو اپنی بے جا ضد سے وہ پاکستان کو اقوام عالم میں تنہا کر دے، ہو سکتا ہے وہ معاملات حکومت کو صحیح نہ چلا پائے۔ ہو سکتا ہے اس سے تبدیلی اور انقلاب کی امید لگائے اس کے لاکھوں فالوورز کی قسمت میں بے انتہا مایوسی لکھی ہو۔ جہاں اتنے پڑھے لکھے اورسمجھدار لوگوں کے تجربے ہم برداشت کر چکے ہیں وہاں ایک بے وقوف اورسر پھرے کو آزمانے میں کیا حرج ہے، اور ویسے بھی تاریخ میں بے وقوف اور سر پھرے لوگوں کا مقام کچھ اتنا برا بھی نہیں۔ سو باتوں کی ایک بات کہ جہاں سب کو آزما لیا، اسے بھی ایک مرتبہ موقع ملنا چاہیے۔
پاکستان میں بس وہی ایک شخص ہے جسے عدالت عظمی نے بھی ببانگ دہل نام لے کر صادق اور امین قرار دیا ہے۔ اس کے ادارے کے چلائے ہوئے فلاحی منصوبوں کی لوگ مثال دیتے ہیں۔ وہ خود درویشانہ زندگی بسر کرتا ہے۔ عام سستے کپڑے پہنتا ہے جن میں اکثر پیوند لگے ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ سے تنخواہ سے ہی اس کا گزارا ہوتا ہے۔ فلاحی کاموں کا ایسا شوقین کہ یہ تنخواہ بھی وہ گھر نہیں لے جاتا بلکہ صدقہ خیرات کر دیتا ہے اور دوسروں سے بھی یہی مطالبہ کرتا ہے۔ بقر عید پر اس کے پاس قربانی کا اچھا جانور خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے۔
لیکن مقبول ایسا کہ اس کے ایک اشارے پر خیبر تا کراچی لاکھوں لوگ نکل آئیں اور وہ جلتی آگ میں کود پڑنے کا کہے تو اس کی رضا کی خاطر وہ اس میں کود پڑیں، بھڑکتی آگ کو بجھانے کا کہے تو اپنے اپنے ڈول، کپ اور بوتلیں پکڑ کر سب آگ بجھانے کی کوشش میں لگ جائیں، آگ لگانے کا کہے تو ہر طرف آگ لگا دیں، دھرنا دینے کا کہے تو ایسا دھرنا دیں کہ حکومت کے ایوان لرز جائیں۔
قابل قبول ایسا کہ ایک طرف بے تحاشا امیر اس غریب کے حامی ہوں تو دوسری طرف نوجوانوں کی ایک نمایاں تعداد اس کا دم بھرتی ہو۔ اقبال نے بھی حکم دیا ہے کہ خرد کو غلامی سے آزاد کر، جوانوں کو پیروں کا استاد کر۔ موجودہ سیاسی قیادت میں اس سے کم عمر بھی کوئی دوسرا نہیں ہے۔
اس کی حماقتوں سے انکار نہیں مگر اس کے اخلاص میں کسی کو رتی بھر شبہ نہیں۔ طالبان سے لے کر روشن خیال تک اس کا دم بھرتے ہیں۔ طالبان کو وہی اس دہشت گردی سے روک سکتا ہے کیونکہ وہ اس پر اعتبار کرتے ہیں اور اسے اپنا بھائی جانتے ہیں۔ باقی سب سیاست دانوں کو جب بھی حکومت میں حصہ ملا ہے انہوں نے خوب مال بنایا ہے اور اپنا گھر بھر لیا ہے لیکن وہ جس طرح خالی ہاتھ حکومت کرنے گیا تھا ویسے ہی واپس آیا ہے۔
ٹھیک ہے کہ اسے کچھ لوگ فسطائی رجحانات کا حامل کہتے ہیں، مانا کہ اس کی حکومت آنے پر اس کے حامی چند سرپھرے نوجوان بے قابو ہو کر دنگا فساد اور مار پیٹ کر سکتے ہیں، یہ بھی تسلیم کہ اس کے ماضی کے پیش نظر اس سے بات چیت کرتے ہوئے کچھ ممالک پریشانی کا اظہار کریں گے اور اسے مذہبی انتہاپسند کہیں گے، یہ بھی مانا کہ وہ پہلے کچھ بول دیتا ہے اور بعد میں اپنی اصلاح کر لیتا ہے، مگر یہ بات بھی تسلیم کرنی ہو گی کہ وہ بہت مخلص اور مقبول ہے۔ جہاں سب کو آزما لیا، ایک موقع اسے بھی دیں۔ کیا پتہ وہی آپ کے وطن کی قسمت سنوار دے۔ بس دوستو، ٹھپا لگاتے وقت سراج الحق ترازو والے کو مت بھولنا کیونکہ پورے ملک میں وہی ایک صادق، امین، ایماندار اور غریب سیاست دان ہے۔
source