لمبی ڈاڑھی، اونچی پگڑی، نورانی صورت۔۔ قرآن اور حدیث کی باتیں۔
جنت کے نقشے، جہنم کے ڈراوے۔۔ اور تان ٹوٹتی ہے زکوٰۃ، خیرات، چندہ اور کھالیں۔
اس امت کا فتنہ مال
ابرارالحق اور ان کے جیسے باقی لوگوں کو عمران کی دیکھا دیکھی ہیرو بننے کا شوق چرایا؛ زکوٰۃ ان کو بھی چاہیے۔
ایک زمانہ تھا، ایم کیو ایم الطاف گروپ، کراچی اور اندرون سندھ سے ریکارڈ کھالیں ڈرا دھمکا کر، چھین کر اور چونا لگا کر حاصل کرتا تھا۔ اب ان بیچاروں پر پابندی ہے۔ آج کل بس مولوی لوگ، مدرسے والے، پیر و مرشد، جماعت اسلامی وغیرہ وغیرہ کی چاندی ہے۔ یہ لوگ خوب کھالیں جمع کر رہے ہیں۔
مطلب جنت جہنم، اللہ رسول کی باتیں کرنے والوں کو کھالیں جمع کرنا آتا ہے، مگر کھالوں کے ڈھیر کے ساتھ اوجھڑی اور غلاظت کے انبار نظر نہیں آتے۔ پیسہ جمع کرتے وقت صفائی نصف ایمان نہیں رہتی۔ اس وقت یہ مولوی لوگ، یہ مفتیان کرام اور لمبی لمبی باتیں کرنے والے مذہبی پیشوا، الطاف حسین کی طرح لالچی، خود غرض اور بدمعاش بن جاتے ہیں۔
ان بے شرموں کو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ خلق خدا کی تھوڑی خدمت ہی کر لیں۔ مدارس میں زکوٰۃ، خیرات کے ذریعے ہزاروں بلکہ لاکھوں کی فورس تو جمع کر لی ہے، مگر اس فورس کو عوامی خدمت کے لیے باہر نکالتے ہوئے ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں۔
ادھر پی ٹی آئی کا ڈرامے باز عارف علوی، کراچی شہر کی طوفانی برسات میں اپنی موٹر بوٹ لیے لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال کر سوشل میڈیا کی دھوکے باز تصویروں تک کامیابی سے پہنچاتا نظر آیا۔ ان بے غیرتوں میں خدمت انسانیت کا ایسا ہی جذبہ ہے تو ذرا اٹھاؤ نہ یہ اوجھڑیاں! کھودو خندقیں، لگاؤ ان کو ٹھکانے۔
کہاں گیا وہ تمہارا کینسر ہسپتال؟ سارا پاکستان کیا کینسر کا مریض ہے۔ کبھی ان لوگوں کا سوچا جن کو کینسر نہیں؟ زکوٰۃ جن لوگوں سے لیتے ہو کبھی ان کے کام بھی آجاؤ۔
ایم کیو ایم کا دہشت گرد وسیم اختر جو کراچی شہر کا میئر بنا پھرتا ہے، اس کو شکوہ ہے کہ سندھ حکومت فنڈز نہیں دیتی۔ فنڈز نہیں دیتی تو نظامت سے استعفیٰ دے دے، گھر بیٹھ، دفع ہو جا۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ حکومت فنڈز تو دے رہی ہو گی، مگر صرف بلز کی ادائیگی کر رہی ہو گی۔ مطلب بلدیہ کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات۔ ایم کیو ایم والوں کا جسم اور خون چوں کہ مال حرام سے بنا ہوتا ہے، ان کا کھانا اس وقت تک ہضم نہیں ہوتا جب تک حرام نوالے ان کے حلق سے نیچے نہ اتر جائیں، اس لیے ان کو شکوہ ہے کہ زرداری چور کے حواری اکیلے ہی کھا رہے ہیں، ایم کیو ایم والوں کو کھانے نہیں دے رہے۔
جماعت اسلامی، جس کا ٹریڈمارک ہے منفافقت، کمینگی اور رسوائی۔۔ ان کی الخدمت کے بھی بڑے بڑے اور ستھرے کام ہیں۔ یہ لوگ بھی اوجھڑی میں ہاتھ کیوں ڈالنے لگے۔ کچرا اٹھانا تو کمی کمین، اور بھنگیوں کا کام ہے۔ جس غریب مسیحی برادری کو ملا لوگ کافر اور جہنمی کہتے ہیں، یہ غلاظت اٹھانا تو ان کا کام ہے نا؟ ملاؤں کا کام تو سفید پوشاک پر عطر لگا کر، لمبی ٹوپی اور لمبی ڈاڑھی رکھ کر یہ لمبے لمبے لیکچرز دینا ہے۔
تبلیغی شعبدے باز بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ طارق جمیل کو شوبز والیوں کو مسلمان کرنے اور سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر بھاشن دینے سے فرصت نہیں۔ یا پھر تبلیغیوں نے بھولے بھالے غریب مسلمانوں کو چونا لگا کر 40 دن کے چلے پر لے جانا ہے۔ اب چاہے ان 40 دنوں میں پیچھے بوڑھی ماں بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائے۔ بیوی بچے خوار ہو جائیں، تبلیغی کا جہاد ہو کے رہے گا۔
نون لیگ کے بے حیا لیڈران کو بھی عوامی خدمت سے چڑ ہے۔ ان کو کراچی والے ووٹ نہیں دیتے، تو جائیں جہنم میں۔
جنت کے نقشے، جہنم کے ڈراوے۔۔ اور تان ٹوٹتی ہے زکوٰۃ، خیرات، چندہ اور کھالیں۔
اس امت کا فتنہ مال
ابرارالحق اور ان کے جیسے باقی لوگوں کو عمران کی دیکھا دیکھی ہیرو بننے کا شوق چرایا؛ زکوٰۃ ان کو بھی چاہیے۔
ایک زمانہ تھا، ایم کیو ایم الطاف گروپ، کراچی اور اندرون سندھ سے ریکارڈ کھالیں ڈرا دھمکا کر، چھین کر اور چونا لگا کر حاصل کرتا تھا۔ اب ان بیچاروں پر پابندی ہے۔ آج کل بس مولوی لوگ، مدرسے والے، پیر و مرشد، جماعت اسلامی وغیرہ وغیرہ کی چاندی ہے۔ یہ لوگ خوب کھالیں جمع کر رہے ہیں۔
مطلب جنت جہنم، اللہ رسول کی باتیں کرنے والوں کو کھالیں جمع کرنا آتا ہے، مگر کھالوں کے ڈھیر کے ساتھ اوجھڑی اور غلاظت کے انبار نظر نہیں آتے۔ پیسہ جمع کرتے وقت صفائی نصف ایمان نہیں رہتی۔ اس وقت یہ مولوی لوگ، یہ مفتیان کرام اور لمبی لمبی باتیں کرنے والے مذہبی پیشوا، الطاف حسین کی طرح لالچی، خود غرض اور بدمعاش بن جاتے ہیں۔
ان بے شرموں کو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ خلق خدا کی تھوڑی خدمت ہی کر لیں۔ مدارس میں زکوٰۃ، خیرات کے ذریعے ہزاروں بلکہ لاکھوں کی فورس تو جمع کر لی ہے، مگر اس فورس کو عوامی خدمت کے لیے باہر نکالتے ہوئے ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں۔
ادھر پی ٹی آئی کا ڈرامے باز عارف علوی، کراچی شہر کی طوفانی برسات میں اپنی موٹر بوٹ لیے لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال کر سوشل میڈیا کی دھوکے باز تصویروں تک کامیابی سے پہنچاتا نظر آیا۔ ان بے غیرتوں میں خدمت انسانیت کا ایسا ہی جذبہ ہے تو ذرا اٹھاؤ نہ یہ اوجھڑیاں! کھودو خندقیں، لگاؤ ان کو ٹھکانے۔
کہاں گیا وہ تمہارا کینسر ہسپتال؟ سارا پاکستان کیا کینسر کا مریض ہے۔ کبھی ان لوگوں کا سوچا جن کو کینسر نہیں؟ زکوٰۃ جن لوگوں سے لیتے ہو کبھی ان کے کام بھی آجاؤ۔
ایم کیو ایم کا دہشت گرد وسیم اختر جو کراچی شہر کا میئر بنا پھرتا ہے، اس کو شکوہ ہے کہ سندھ حکومت فنڈز نہیں دیتی۔ فنڈز نہیں دیتی تو نظامت سے استعفیٰ دے دے، گھر بیٹھ، دفع ہو جا۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ حکومت فنڈز تو دے رہی ہو گی، مگر صرف بلز کی ادائیگی کر رہی ہو گی۔ مطلب بلدیہ کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات۔ ایم کیو ایم والوں کا جسم اور خون چوں کہ مال حرام سے بنا ہوتا ہے، ان کا کھانا اس وقت تک ہضم نہیں ہوتا جب تک حرام نوالے ان کے حلق سے نیچے نہ اتر جائیں، اس لیے ان کو شکوہ ہے کہ زرداری چور کے حواری اکیلے ہی کھا رہے ہیں، ایم کیو ایم والوں کو کھانے نہیں دے رہے۔
جماعت اسلامی، جس کا ٹریڈمارک ہے منفافقت، کمینگی اور رسوائی۔۔ ان کی الخدمت کے بھی بڑے بڑے اور ستھرے کام ہیں۔ یہ لوگ بھی اوجھڑی میں ہاتھ کیوں ڈالنے لگے۔ کچرا اٹھانا تو کمی کمین، اور بھنگیوں کا کام ہے۔ جس غریب مسیحی برادری کو ملا لوگ کافر اور جہنمی کہتے ہیں، یہ غلاظت اٹھانا تو ان کا کام ہے نا؟ ملاؤں کا کام تو سفید پوشاک پر عطر لگا کر، لمبی ٹوپی اور لمبی ڈاڑھی رکھ کر یہ لمبے لمبے لیکچرز دینا ہے۔
تبلیغی شعبدے باز بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ طارق جمیل کو شوبز والیوں کو مسلمان کرنے اور سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر بھاشن دینے سے فرصت نہیں۔ یا پھر تبلیغیوں نے بھولے بھالے غریب مسلمانوں کو چونا لگا کر 40 دن کے چلے پر لے جانا ہے۔ اب چاہے ان 40 دنوں میں پیچھے بوڑھی ماں بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائے۔ بیوی بچے خوار ہو جائیں، تبلیغی کا جہاد ہو کے رہے گا۔
نون لیگ کے بے حیا لیڈران کو بھی عوامی خدمت سے چڑ ہے۔ ان کو کراچی والے ووٹ نہیں دیتے، تو جائیں جہنم میں۔