گھوڑا گھا س سے محبت میں مبتلا ہوجائے تو بھوک سے مر جائے گا۔ سیاست دان اور ان کی آنیاں جانیاں مجھ ایسے رپورٹروں کی گھاس ہیں۔ کبھی کبھار ان سے
بہت پیار اور ذاتی تعلق کے باوجود خبر لکھنا مگر ضروری ہوجاتا ہے۔
جاوید ہاشمی میری یہ مجبوری اکثر سمجھ نہیں پاتے ۔ جذباتی آدمی ہیں۔ ناراض ہو جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کا گلہ مگر ٹھوس وجوہات کی بنا پر جائز بھی تھا۔ توہین
رسالتؐ کے نام پر بنے قوانین کے غلط استعمال کا اپنے جیل میں گزرے ایام کے حوالے سے تذکرہ انہوں نے قومی اسمبلی کے ایک اجلاس میں کیا تو اس کالم اور ایک ٹی وی پروگرام میں جس انداز میں اسے میں نے رپورٹ کیا ، اسے مذہبی انتہاء پسندوں کے ایک گروہ نے سفاکانہ انداز میں استعمال کیا۔
ملتان کی چند مخصوص مساجد سے ان کے خلاف کفر کے فتوے جاری ہونا شروع ہو گئے۔ ایسے فتوے جاری ہو جائیں تو ممتاز قادری بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ جاوید ہاشمی ایک بہادر آدمی ہیں۔ ممتاز قادریوں سے ہرگز نہیں گھبراتے۔ عملی سیاست میں آنے کے بعد مگر ووٹوں کے محتاج ضرور ہو چکے ہیں اور بے بنیاد وجوہات کی بناء پر جاری ہوئے فتوے مخالفین کے بہت کام آتے ہیں۔ ان کا نشانہ بنا سیاستدان بے بس ہوا وضاحتیں دینے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ جاوید ہاشمی کو میری رپورٹنگ کی وجہ سے بہت تکلیف ہوئی۔ جذباتی آدمی ناراض ہوگیا۔ تعلق ہم دونوں کا لیکن بہت پرانا ہے۔ چند روز کے دھواں دھار گلے شکووں کے بعد معاف کردیا کرتے ہیںاور غم وخوشی کے ہر موقع پر یاد بھی کرلیتے ہیں۔
گزشتہ چند دنوں سے مختلف کالم نگار ان کی تازہ کتاب زندہ تاریخ کا تذکرہ کررہے تھے۔ میں یہ کالم پڑھ کر حیران ہوتا رہا کہ یہ کتاب ابھی تک میرے پاس کیوں نہیں پہنچی۔گزشتہ جمعرات کی شب ارادہ باندھا تھا کہ کتابوں کی دوکان میں گیا تو زندہ تاریخکو بھی ڈھونڈوں گا۔ اپنے پلے سے اسے خرید کر چند ایسے اقتباسات ڈھونڈوں گا جن کا ذکر میری خرچ کی ہوئی رقم کا حساب برابر کرسکیں۔جاوید ہاشمی نے مگر یہ موقع ہی نہ دیا۔ ہفتے کی صبح وہ کتاب میرے ہاں پارسل کے ذریعے پہنچ گئی۔ اتوار کی رات تک 500سے زیادہ صحافت پر مشتمل اس کتاب کو میں نے ختم کرلیا۔
یہ کتاب درحقیقت وہ ڈائری ہے جو ہماری سیاست کے ایک اہم سال -2006-کے دوران جاوید ہاشمی نے قید تنہائی میں بیٹھ کرلکھی۔ اس کتاب میں بلیوں اورپھولوں کا ذکر ہے جو قیدی کی تنہائی باٹنے کا بہت اخلاص کے ساتھ ذمہ اپنے سرلے لیتے ہیں۔ جیل حکام کا رویہ جنہیں ہر صورت قیدی کی تذلیل کرنا ہے اور ان سب سے زیادہ اس بات کا مستقل دُکھ کہ اپنی آشفتہِ سری کی بدولت جاوید ہاشمی نے بغیر کوئی جرم کئے جنرل مشرف کے دور میں جو اذیت بھگتی اسے پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت اور دیگر لوگوں نے شک وشبے سے دیکھا۔دلوں میں وسوسے پیدا ہوئے کہ جاوید ہاشمی شایدنیلسن منڈیلا بن کر نواز شریف کی جگہ لینا چاہ رہے ہیں۔
پیپلزپارٹی کی مسلسل جدوجہد کی بدولت قومی اسمبلی کے قواعد وضوابط جیل میں بند ہوئے کسی رکن کی قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کو یقینی بناتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے یہ جدوجہد نواز شریف کی پہلی حکومت کے دوران آصف علی زرداری کی خاطر کی تھی۔ شرم ناک حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کے دوسرے دورِ حکومت میں شیخ رشید کو اس حق سے محروم رکھا گیا۔ سید یوسف رضا گیلانی نے بحیثیت سپیکر قومی اسمبلی اس ضمن میں اصولی مؤقف لیا اور اس پر ڈٹ گئے۔
لال حویلی کے شیر کو مگر ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو لکھے چند خطوط کی بدولت بالآخر قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں آنے کی سہولت حاصل ہوگئی۔ جیل سے رہائی کے بعد موصوف قومی اسمبلی کے اجلاس میں محترمہ کی دوسری حکومت کے خاتمے تک متانت بھری خاموشی کے ساتھ تشریف لاتے اور حاضری لگواکر کھسک جاتے۔موصوف کی شہرئہ آفاق بلند آہنگی کچھ عرصے کے لئے رخصت پر چلی گئی۔ 24/7چینلز آجانے کے بعد مگر ان کے ساتھ وہ کہے اور سنا کرے کوئی والا معاملہ ہوچکا ہے۔ افواہیں یہ بھی ہیں کہ شاید بقراطِ لال حویلی اب ایک چینل کے لئے اپنی اینکری کا الگ سے چھابا بھی لگائیں گے۔ خوب رونق رہے گی۔
2002ء کے انتخابات کے ذریعے آئی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ نون کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے لوگوں کی تعداد بہت متاثر کن نہیں تھی۔ چودھری نثار علی خان نے مگر اس تعداد کو بھی جاوید ہاشمی کی قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شمولیت کو یقینی بنانے کے لئے کبھی استعمال نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کے چند دیوانے ہی ان کی عدم موجودگی کا گلہ کرتے رہے اور کبھی کبھار قاضی حسین احمد مرحوم کو بھی جاوید ہاشمی کی یاد آجاتی۔ آشفتہ سر ہاشمی کو نیلسن منڈیلا نہیں بننے دیا گیا۔
جاوید ہاشمی کے ساتھ ان کی قیادت اور ساتھیوں کا برتارویہ عیاں کرتا ہے کہ سیاست کتنا بے رحم کھیل ہے۔ جاوید ہاشمی نے اس رویے کا ذکر مگر جذباتی ہوئے بغیر کیا ہے۔ عملی سیاست میں گزارے کئی برسوں نے شاید انہیں سمجھادیا ہے کہ اقتدار کے کھیل میں کوئی کسی کا سجن نہیں ہوتا۔ اپنی صلیب ہرایک کو اپنے ہی کاندھے پر اٹھانا ہوتی ہے۔ اذیت وتنہائی کے اس سفر کا مگر انہیں ملال بھی نہیں۔ نہایت دیانت داری سے بغیر کسی کی مذمت کئے جو محسوس کیا وہ لکھ ڈالا۔خودترسی کی بیماری سے بچی زندہ تاریخ کا بغور مطالعہ مگر ہمیں یہ سمجھادیتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں ابھی تک اداروں کی صورت منظم کیوں نہیں ہوپائیں۔ ہرجگہ دربار کا ماحول ہے۔ پارٹی کی قیادت،بادشاہت ہے۔ ہر بادشاہ کے مصاحب ہیں۔ دربان اور فرستادے۔ہر وقت یہ خوف بھی کہ اورنگ زیب کا کوئی داراشکوہ پیدا نہ ہوجائے۔
اپنی قیادت کوداراشکوہ سے بچاتے مصاحبین بالآخر وہ ماحول بناتے ہیں کہ جنرل مشرف سے مک مکا کئے بغیر شہباز شریف اور بعدازاں نواز شریف جلاوطنی ختم کرکے وطن لوٹنا چاہتے ہیں تو ہمہ وقت قدم بڑھائوکی رجز پڑھنے والے تاریخی استقبال کو پہنچ نہیں پاتے۔
دوتہائی اکثریت رکھنے والا وزیر اعظم بھی میرے عزیز ہم وطنو کے خوف میں مبتلا رہتا ہے۔وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھا ہوا اپنے چہرے کی فطری بشاشت کھودیتا ہے۔ ان سے غلط فہمیاں دور کرنے والے پیغامبروں کا محتاج رہتا ہے۔ مجھے شاید وہ نام لکھنے کی ضرورت نہیں جو نواز شریف کے لئے ان کے ساتھ پل بنائے رکھنے کے کئی دہائیوں سے دعوے دار ہیں۔ جاوید ہاشمی نے اس نام کا ذکر مگر غیر جذباتی انداز میں کردیا ہے۔ زندہ تاریخ کو پڑھ کر خود معلوم کرلیجئے۔
زندہ تاریخ کا ایک پہلو مگر میرے کئی محترم کالم نگار اجاگر نہیں کر پائے۔ مخدوم رشید کے روایت پرست معاشرے میں پیدا ہوکر لاہور کی یونیورسٹیوں میں ایک بہادرآدمی مشہور ہوا جاوید ہاشمی اصل میں متعصب اور جاگیردارانہ ماحول،روایات اور رسوم کا قیدی بھی ہے۔ اس ماحول کے اسیر خود کو مضبوط بنانے کے لئے بیٹوں کی خواہش پالتے ہیں۔ جاوید ہاشمی کوبیٹیاں نصیب ہوئیں۔ ایک لمحے کو بھی لیکن ہاشمی نے انہیں اپنی کمزوری نہ سمجھا۔ ان کے لاڈ اٹھائے۔ بے پناہ شفقت فراہم کی اور جاوید ہاشمی کی بیٹیوںنے بھی اپنے باپ کا مان رکھا۔سخت ترین مشکل کے دورمیں بھی ان کے ساتھ پہاڑ بن کر کھڑی رہیں۔ فرسودہ روایات میں جکڑے ہمارے معاشرے میں جاوید ہاشمی اور ان کی بیٹیوں کا تعلق خوش گوار حیرتوں کے کئی باب کھول دیتا ہے۔کاش یہ حیرت بھی اب ٹھوس روایت بن ہی جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭
http://www.nawaiwaqt.com.pk/columns/20-Dec-2016/544475
بہت پیار اور ذاتی تعلق کے باوجود خبر لکھنا مگر ضروری ہوجاتا ہے۔
جاوید ہاشمی میری یہ مجبوری اکثر سمجھ نہیں پاتے ۔ جذباتی آدمی ہیں۔ ناراض ہو جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کا گلہ مگر ٹھوس وجوہات کی بنا پر جائز بھی تھا۔ توہین
رسالتؐ کے نام پر بنے قوانین کے غلط استعمال کا اپنے جیل میں گزرے ایام کے حوالے سے تذکرہ انہوں نے قومی اسمبلی کے ایک اجلاس میں کیا تو اس کالم اور ایک ٹی وی پروگرام میں جس انداز میں اسے میں نے رپورٹ کیا ، اسے مذہبی انتہاء پسندوں کے ایک گروہ نے سفاکانہ انداز میں استعمال کیا۔
ملتان کی چند مخصوص مساجد سے ان کے خلاف کفر کے فتوے جاری ہونا شروع ہو گئے۔ ایسے فتوے جاری ہو جائیں تو ممتاز قادری بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ جاوید ہاشمی ایک بہادر آدمی ہیں۔ ممتاز قادریوں سے ہرگز نہیں گھبراتے۔ عملی سیاست میں آنے کے بعد مگر ووٹوں کے محتاج ضرور ہو چکے ہیں اور بے بنیاد وجوہات کی بناء پر جاری ہوئے فتوے مخالفین کے بہت کام آتے ہیں۔ ان کا نشانہ بنا سیاستدان بے بس ہوا وضاحتیں دینے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ جاوید ہاشمی کو میری رپورٹنگ کی وجہ سے بہت تکلیف ہوئی۔ جذباتی آدمی ناراض ہوگیا۔ تعلق ہم دونوں کا لیکن بہت پرانا ہے۔ چند روز کے دھواں دھار گلے شکووں کے بعد معاف کردیا کرتے ہیںاور غم وخوشی کے ہر موقع پر یاد بھی کرلیتے ہیں۔
گزشتہ چند دنوں سے مختلف کالم نگار ان کی تازہ کتاب زندہ تاریخ کا تذکرہ کررہے تھے۔ میں یہ کالم پڑھ کر حیران ہوتا رہا کہ یہ کتاب ابھی تک میرے پاس کیوں نہیں پہنچی۔گزشتہ جمعرات کی شب ارادہ باندھا تھا کہ کتابوں کی دوکان میں گیا تو زندہ تاریخکو بھی ڈھونڈوں گا۔ اپنے پلے سے اسے خرید کر چند ایسے اقتباسات ڈھونڈوں گا جن کا ذکر میری خرچ کی ہوئی رقم کا حساب برابر کرسکیں۔جاوید ہاشمی نے مگر یہ موقع ہی نہ دیا۔ ہفتے کی صبح وہ کتاب میرے ہاں پارسل کے ذریعے پہنچ گئی۔ اتوار کی رات تک 500سے زیادہ صحافت پر مشتمل اس کتاب کو میں نے ختم کرلیا۔
یہ کتاب درحقیقت وہ ڈائری ہے جو ہماری سیاست کے ایک اہم سال -2006-کے دوران جاوید ہاشمی نے قید تنہائی میں بیٹھ کرلکھی۔ اس کتاب میں بلیوں اورپھولوں کا ذکر ہے جو قیدی کی تنہائی باٹنے کا بہت اخلاص کے ساتھ ذمہ اپنے سرلے لیتے ہیں۔ جیل حکام کا رویہ جنہیں ہر صورت قیدی کی تذلیل کرنا ہے اور ان سب سے زیادہ اس بات کا مستقل دُکھ کہ اپنی آشفتہِ سری کی بدولت جاوید ہاشمی نے بغیر کوئی جرم کئے جنرل مشرف کے دور میں جو اذیت بھگتی اسے پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت اور دیگر لوگوں نے شک وشبے سے دیکھا۔دلوں میں وسوسے پیدا ہوئے کہ جاوید ہاشمی شایدنیلسن منڈیلا بن کر نواز شریف کی جگہ لینا چاہ رہے ہیں۔
پیپلزپارٹی کی مسلسل جدوجہد کی بدولت قومی اسمبلی کے قواعد وضوابط جیل میں بند ہوئے کسی رکن کی قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کو یقینی بناتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے یہ جدوجہد نواز شریف کی پہلی حکومت کے دوران آصف علی زرداری کی خاطر کی تھی۔ شرم ناک حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کے دوسرے دورِ حکومت میں شیخ رشید کو اس حق سے محروم رکھا گیا۔ سید یوسف رضا گیلانی نے بحیثیت سپیکر قومی اسمبلی اس ضمن میں اصولی مؤقف لیا اور اس پر ڈٹ گئے۔
لال حویلی کے شیر کو مگر ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو لکھے چند خطوط کی بدولت بالآخر قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں آنے کی سہولت حاصل ہوگئی۔ جیل سے رہائی کے بعد موصوف قومی اسمبلی کے اجلاس میں محترمہ کی دوسری حکومت کے خاتمے تک متانت بھری خاموشی کے ساتھ تشریف لاتے اور حاضری لگواکر کھسک جاتے۔موصوف کی شہرئہ آفاق بلند آہنگی کچھ عرصے کے لئے رخصت پر چلی گئی۔ 24/7چینلز آجانے کے بعد مگر ان کے ساتھ وہ کہے اور سنا کرے کوئی والا معاملہ ہوچکا ہے۔ افواہیں یہ بھی ہیں کہ شاید بقراطِ لال حویلی اب ایک چینل کے لئے اپنی اینکری کا الگ سے چھابا بھی لگائیں گے۔ خوب رونق رہے گی۔
2002ء کے انتخابات کے ذریعے آئی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ نون کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے لوگوں کی تعداد بہت متاثر کن نہیں تھی۔ چودھری نثار علی خان نے مگر اس تعداد کو بھی جاوید ہاشمی کی قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شمولیت کو یقینی بنانے کے لئے کبھی استعمال نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کے چند دیوانے ہی ان کی عدم موجودگی کا گلہ کرتے رہے اور کبھی کبھار قاضی حسین احمد مرحوم کو بھی جاوید ہاشمی کی یاد آجاتی۔ آشفتہ سر ہاشمی کو نیلسن منڈیلا نہیں بننے دیا گیا۔
جاوید ہاشمی کے ساتھ ان کی قیادت اور ساتھیوں کا برتارویہ عیاں کرتا ہے کہ سیاست کتنا بے رحم کھیل ہے۔ جاوید ہاشمی نے اس رویے کا ذکر مگر جذباتی ہوئے بغیر کیا ہے۔ عملی سیاست میں گزارے کئی برسوں نے شاید انہیں سمجھادیا ہے کہ اقتدار کے کھیل میں کوئی کسی کا سجن نہیں ہوتا۔ اپنی صلیب ہرایک کو اپنے ہی کاندھے پر اٹھانا ہوتی ہے۔ اذیت وتنہائی کے اس سفر کا مگر انہیں ملال بھی نہیں۔ نہایت دیانت داری سے بغیر کسی کی مذمت کئے جو محسوس کیا وہ لکھ ڈالا۔خودترسی کی بیماری سے بچی زندہ تاریخ کا بغور مطالعہ مگر ہمیں یہ سمجھادیتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں ابھی تک اداروں کی صورت منظم کیوں نہیں ہوپائیں۔ ہرجگہ دربار کا ماحول ہے۔ پارٹی کی قیادت،بادشاہت ہے۔ ہر بادشاہ کے مصاحب ہیں۔ دربان اور فرستادے۔ہر وقت یہ خوف بھی کہ اورنگ زیب کا کوئی داراشکوہ پیدا نہ ہوجائے۔
اپنی قیادت کوداراشکوہ سے بچاتے مصاحبین بالآخر وہ ماحول بناتے ہیں کہ جنرل مشرف سے مک مکا کئے بغیر شہباز شریف اور بعدازاں نواز شریف جلاوطنی ختم کرکے وطن لوٹنا چاہتے ہیں تو ہمہ وقت قدم بڑھائوکی رجز پڑھنے والے تاریخی استقبال کو پہنچ نہیں پاتے۔
دوتہائی اکثریت رکھنے والا وزیر اعظم بھی میرے عزیز ہم وطنو کے خوف میں مبتلا رہتا ہے۔وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھا ہوا اپنے چہرے کی فطری بشاشت کھودیتا ہے۔ ان سے غلط فہمیاں دور کرنے والے پیغامبروں کا محتاج رہتا ہے۔ مجھے شاید وہ نام لکھنے کی ضرورت نہیں جو نواز شریف کے لئے ان کے ساتھ پل بنائے رکھنے کے کئی دہائیوں سے دعوے دار ہیں۔ جاوید ہاشمی نے اس نام کا ذکر مگر غیر جذباتی انداز میں کردیا ہے۔ زندہ تاریخ کو پڑھ کر خود معلوم کرلیجئے۔
زندہ تاریخ کا ایک پہلو مگر میرے کئی محترم کالم نگار اجاگر نہیں کر پائے۔ مخدوم رشید کے روایت پرست معاشرے میں پیدا ہوکر لاہور کی یونیورسٹیوں میں ایک بہادرآدمی مشہور ہوا جاوید ہاشمی اصل میں متعصب اور جاگیردارانہ ماحول،روایات اور رسوم کا قیدی بھی ہے۔ اس ماحول کے اسیر خود کو مضبوط بنانے کے لئے بیٹوں کی خواہش پالتے ہیں۔ جاوید ہاشمی کوبیٹیاں نصیب ہوئیں۔ ایک لمحے کو بھی لیکن ہاشمی نے انہیں اپنی کمزوری نہ سمجھا۔ ان کے لاڈ اٹھائے۔ بے پناہ شفقت فراہم کی اور جاوید ہاشمی کی بیٹیوںنے بھی اپنے باپ کا مان رکھا۔سخت ترین مشکل کے دورمیں بھی ان کے ساتھ پہاڑ بن کر کھڑی رہیں۔ فرسودہ روایات میں جکڑے ہمارے معاشرے میں جاوید ہاشمی اور ان کی بیٹیوں کا تعلق خوش گوار حیرتوں کے کئی باب کھول دیتا ہے۔کاش یہ حیرت بھی اب ٹھوس روایت بن ہی جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭
http://www.nawaiwaqt.com.pk/columns/20-Dec-2016/544475