زندہ بھٹو ، مردہ بھٹو
(حصہ اول)
(حصہ اول)
یہ ، یہ میری گھڑی (پھانسی کے بعد) سنتری کو دے دینا ، ڈپٹی سپرٹنڈنٹ نے کہا ٹھیک ہے جناب ، چند دن ہی نا ہوے تھے ، بحث چل نکلی ، آئ جی صاحب کہنے لگے ، یہ گھڑی تو ہزاروں کی تو ہو گی ؟ جیل سپرنٹڈنٹ نے اپنا حق جتلایا ، یہ گھڑی قانونی طور پر ان کی ملکیت ہے ، پھانسی کے بعد ، (بقول کرنل رفیع الدین) ، یاد آیا بھٹو صاحب کی گھڑی اور انگلی سے انگشتری اتار لینی چاہیے ، میں نے اسسٹنٹ سپرنٹڈنٹ کو کہا ، جا کر لاش سے انگوٹھی اور انگشتری اتار لاؤ ، گھڑی تو اتار لاے ، مگر انگشتری نا تھی ، تلاشی لینے پر تارا مسیح کی جیب سے وہ انگشتری ملی ، بعد از ، باقی سامان سمیت انگشتری و گھڑی نصرت بھٹو کے حوالے کر دی گئیں ، بھٹو کی لاش رات اندھیرے قبر تک پہنچا دی گئی
_________________________________________________
بھٹو کو مکمل انتظام و بندوبست تحت ، مار دیا گیا تھا ، جنرل ضیاء کی کوشش اور ہنری کسنجر کی خواہش (میں تمہیں عبرت ناک مثال بنا دوں گا) پوری ہوئی ، متحدہ اپوزیشن کی پریشانی ختم ہوئی ، جو لاکھوں لوگوں کے سامنے دھاڑتا تھا ، وہ نقاہت و اذیت سے نڈھال ، تختہ دار تک لے جایا گیا ، آخری چاروناچار جھول گیا ، ڈاکٹر نے تصدیق کر دی ، مر گیا ہے ، ملٹری آفیسرز نے اوپر پیغام بھیج دیا ، جی سانس چھین لی گئی ، بھٹو مر گیا ہے ، دھڑکن رک چکی ہے ، جسم اب لاشہ ہے ، تارا مسیح نے آخری جھٹکا دے دیا ، مردہ ہے بھٹو اب مردہ ہے ، سب نے خوف و وحشت سے تمام عمل پورا کیا ، بھٹو مر چکا تھا ، ضیاء الحق خوش ہو چکا تھا
_________________________________________________
جنرل ضیاء الحق کا دور شروع ہوا ، نظام مصطفیٰ چنگھاڑنے والے سب مذہبی و سیکولر سیاستدان تتر بتر ہو چکے تھے ، ایسے مطمئن ہو چکے تھے جیسے خلافت راشدہ کا احیا ہو چکا ہے ، عمر بن عبدلعزیز سے تسلسل جڑ چکا ہے ، کسی نے سوال نا کیا ؟ بس سوالی بن کر آمر نما امیر کے گرد جمع ہو گیے ، مارشل لا سے اپنا حصہ وصول کرنے والے نئی صف بندیاں کر چکے تھے ، ضیاء تھا حواری تھے ، نیا نظام نیا قانون تھا ، آمر کو امیر المومنین نا کہا گیا ، البتہ مرد مومن مرد حق کا تاج پہنا دیا گیا ، نوے دن کا وعدہ ، ٹوٹ گیا ، گیارہ سال تک نفاز اسلام ہوتا رہا ، پیپلز پارٹی کو مسلسل اذیت دی جاتی رہی ، ہر وہ ایذا جو ایک آمر کی سوچ میں آتی ، اسی وقت کال کوٹھریوں میں من و عن پہنچا دی جاتی ، بھٹو خاندان جلا وطن ہو چکا تھا ، ملک پاکستان پاک ہو چکا تھا ، نماز قائم کرو ، زکوتہ دیا کرو ، روز یہ سب بتانے کا بندوبست کیا جاتا تھا ، پوری قوم سر جھکاے اطاعت پر پابند رہی ، پھر ؟ پھر ؟ ادھر جنرل ضیاء کو ہلاک کیا گیا ، اودھر بھٹو پھر سے زندہ ہو گیا ، بینظیر پھر سے اکثریت لے کر اقتدار حاصل کر چکی تھی ، جنرل بیگ ہاتھ ملتا رہ گیا ، یہی سمجھتا رہا ، ضیاء کی تپسیا کا حاصل اچھا ہی نکلے گا ، لیکن اچھا اسٹبلشمنٹ سے نکلا ہی کب ہے ؟ ، بہتر تھا ، قوم کے انگوٹھے کاٹ دئیے جاتے ، دماغ چٹ کر دئیے جاتے ، مگر ایسا ہو نا سکا ، آخر بھٹو زندہ تھا ، بھلا چنگا تھا ، بھٹو آج بھی زندہ ہے ، ضیاء آج بھی مردہ ہے ، اک طرف گڑھی خدا بخش کا مزار ہے ، دوسری طرف فیصل مسجد کے ساے میں ضیاء کا مدفن ہے ، بھٹو کی آل سیاست میں مکمل موجود ہے ، مگر ضیاء کی اولاد? ، چشم و چراغ میدان سیاست میں بھٹک رہا ہے ، کبھی کوئی گود لیتا ہے کبھی کوئی چھوڑ دیتا ہے
:)مزید :- مضمون کا مقصد ، پیپلز پارٹی کی مظلومیت کا ذکر نہیں ، حمایت مقصد نہیں ، سیاست کے چلن و نفسیات کی خبر ہے ، مزید ؟ جاری ہے