سیاسی ڈائری،ایک نہیں پاؤں کی کئی زنجیروں نے پیپلزپارٹی کو جکڑ رکھا تھا

اسلام آباد(محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار)صدر مملکت کاانتخاب دلچسپ سیاسی مشق تھی جس کے نتائج اسی روز ہویدا ہوگئے تھے جب پیپلز پارٹی نےمتحدہ حزب اختلاف کا رکن ہونے کے باوجود اپنا صدارتی امیدوار میدان میں اتاردیا تھا اور ڈھونڈ کر ایسے شخص کو آگے کیا جو حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں کو کسی طور پر قبول ہی نہیں ہوسکتا تھا اسی عرصے میں پیپلز پارٹی کے مدار المہام کو جرائم کی تفتیش اور احتساب پر مامور اداروں نے دھڑا دھڑ طلب کرنا شروع کردیا سندھ کی حکومت اس کے تصرف میں تھی ایک نہیں پاؤں کی کئی زنجیریں تھیں جنہوں نے پیپلزپارٹی کو جکڑ رکھا تھا ایسے میں نقل و حرکت کی اس کے پاس آزادی بہت ہی محدود رہ گئی تھی اسے متن سے ہٹ کر سرمواد ہراد ھر ہونے کی اجازت نہیں تھی پیپلز پارٹی نے پوری سعادت مندی سے ہر ہدایت پرعمل کیا اسے یقیناً اس کا اجر ملے گا۔ پیپلز پارٹی کے نئے ناخداوں نے اپنی سیاست کےلئے جوڑ توڑ کو دستور العمل بنالیا ہے اسے بخوبی اندازہ ہوگیا ہے کہ مقبول عام سیاست ان کے بس کا روگ نہیں
رہی اس مقصد کے لئے ان کا بہترین کارڈ 2018 کے انتخابات میں پٹ گیا ہے یہی وجہ ہے کہ پارٹی میں پرانی سیاست گری بحال ہوگئی ہے۔ صدر مملکت کے انتخاب میں متحدہ حزب اختلاف اپنے اکلوتے امیدوار کے ساتھ میدان میں اترتی تو شاید اسے جیت جانے کا موقع پھر بھی نہ ملتا لیکن اس سے مقابلہ بہت دلچسپ ہوتا قبل ازیں وزیراعظم کے انتخاب میں ارکان قومی اسمبلی جس طور پر اپنی اپنی پارٹی کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا تھا صدارتی انتخاب میں خفیہ رائے شماری کی وجہ سے وہ فضا نہیں بن سکی مسترد ووٹوں کی بڑی تعداد ارکان اسمبلی کی نااہلی یا نالائقی کا پرتو نہیں بلکہ یہ ارکان کا اپنی جماعتوں کے حوالے سے خفگی کااظہار ہے جو جمہوریت کے لئے اچھا شگون نہیں یوں تو گزشتہ ساڑھے چار سال سے جمہوری لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ بھی جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ ہے جس کی آخری کڑی جولائی کےعام انتخابات تھے۔
پیپلز پارٹی کو اس کے حالیہ کردار کی وجہ سے پہلے خرابہ کار (اسپائلر) کہا گیا اب رانا ثناء اللہ خان نے اسے تحریک انصاف کا سہولت کار قرار دے دیا ہے دوسری جانب ڈاکٹر آصف سعید کرمانی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرعارف علوی کی کامیابی کے لئے مبارکباد کی اصل حقدار پیپلز پارٹی ہے جس نے جمہوریت کی بجائے سندھ حکومت بچانے کو ترجیح دی حالانکہ حزب اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد وقت کی اشد ضرورت ہے۔ قومی اسمبلی میں اس کے اولین مہینے کی
کارکردگی سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا ایوان تین حصوں میں بٹ گیا ہے۔
https://jang.com.pk/news/545189