AkramKhangora
Citizen
پاکستان اور افغانستان میں زلزلے سے سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے۔ پاکستان میں زلزلے سے سب سے زیادہ نقصان خیبر پختونخواہ اور فاٹا کے علاقوں میں ہوا ۔
امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق اس زلزلے کی شدت سات عشاریہ پانچ تھی تاہم چند پاکستانی چینلوں نے موسم کا حال بتانے والے پاکستانی ادارے کو حرف آخر سمجھتے ہوئے زلزلے کی شدت آٹھ عشاریہ ایک بتائی کیونکہ اس سے انھیں پاکستانی تاریخ کا سب سے بھیانک زلزلہ کہنے میں شاید آسانی پیش ہورہی تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق زلزلے سے زمین کچھ تین منٹوں تک لرزتی رہی لیکن جن لوگوں نے ٹی وی دیکھا وہ لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ زلزلہ تو تین منٹوں بعد چلا گیا لیکن پاکستانی میڈیا اگلے کئی گھنٹوں تک مسلسل لرزتا رہا۔
پاکستان میں ہر جگہ سب سے پہلے پہنچنے والا اور دیگر چینلوں پر بازی لے جانے والے چینل یہی راگ الاپتا رہا کہ پہلے ہم پہنچے اس کے بعد اسی چینل پر ایک ویڈیو دکھائی گئی جس میں ایک افغانی اینکر زلزلے کے ڈر سے بھاگتا ہوا نظر آیا۔ تو بس ثابت ہوا سما کے اینکرز ہی بہادر ہیں اور عنقریب ان سب کو پاک فوج میں بھرتی کرایا جائیگا۔
باقی ٹی وی چینلز بھی سما سے پیچھے رہنے کو تیار نظر نہ آئے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا چینل(بقول مالکان کے) اے آر وائے کے ایک رپورٹر صاحب زلزلہ زدگان کے پاس پہنچ گئے اور کیا خوب سوالات کرتے ہوئے نظر آئے۔ زلزلے کی شدت کتنی تھی (جیسے زلزلہ زدگان نوکریا امریکی جیولیجیکل سروے میں کرتے ہوں)۔ ایک اور سوال زلزلے کے وقت آپ کو کیا محسوس ہوا؟ (جیسے زلزلے کے وقت لوگ جھولے کا مزا لے رہے ہوں)۔
یہاں سوشل میڈیا کا ذکر نہ کیا جائے تو نہ انصافی ہوگی۔ زلزلے کی خبریں میڈیا پر چلنے کے بعد ہی فوری طور پر لوگوں کو اپنے فالورز بڑھانے کا خیال آیا اور پتہ نہیں کون کون سی تصاویر پاکستان سے منصوب کرکے بس فیس بک اور ٹوئیٹر پر ٹھوک دیں۔
ایک اینکر صاحبہ نے اپنے ٹوئیٹر ہینڈل کا خوب استعمال کیا محترمہ نے لکھا کہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ویڈیو اور تصاویر بنا کر اب تک نیوز کو ارسال کر یں۔ جی ایمرجنسی کی صورت میں اپنی جان بچانے سے پہلے ویڈیو اور تصاویر اب تک کو بھیجنا ہم سب کا قومی فریضہ ہے۔
یہ تمام پاکستانی میڈیا کی خصوصیات جو بندہ ناچیز نے آپ کو گنوائیں اس میں بے چارے صحافیوں کا کوئی قصور نہیں۔ میڈیا مالکان بڑی سیٹوں والے صحافیوں کو ریٹنگز کے لئے تنگ کرتے ہیں اور وہ بے چارے اپنی نوکری بچانے کے لئے برے سے برے اور صحافتی اصولوں کے خلاف ہر کام کو کرنے کی حامی بھر لیتے ہیں۔
ہمارے یہاں بے چارے صحافیوں کو ٹریننگ بھی نہیں دی جاتی، جس کا جو کام ہے اسے کرنے نہیں دیا جاتا۔ حال یہ ہے کہ جو لوگ کام کرنا جانتے ہیں اور کر سکتے ہیں انھیں یہاں دوسرے فضول کاموں میں لگا کر رکھا جاتا ہے۔ اب ان حالات میں صحافت تو ایسے ہی ہوپائے گی چاہے زلزلے آئیں یا آسمان گر پڑے۔
امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق اس زلزلے کی شدت سات عشاریہ پانچ تھی تاہم چند پاکستانی چینلوں نے موسم کا حال بتانے والے پاکستانی ادارے کو حرف آخر سمجھتے ہوئے زلزلے کی شدت آٹھ عشاریہ ایک بتائی کیونکہ اس سے انھیں پاکستانی تاریخ کا سب سے بھیانک زلزلہ کہنے میں شاید آسانی پیش ہورہی تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق زلزلے سے زمین کچھ تین منٹوں تک لرزتی رہی لیکن جن لوگوں نے ٹی وی دیکھا وہ لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ زلزلہ تو تین منٹوں بعد چلا گیا لیکن پاکستانی میڈیا اگلے کئی گھنٹوں تک مسلسل لرزتا رہا۔
پاکستان میں ہر جگہ سب سے پہلے پہنچنے والا اور دیگر چینلوں پر بازی لے جانے والے چینل یہی راگ الاپتا رہا کہ پہلے ہم پہنچے اس کے بعد اسی چینل پر ایک ویڈیو دکھائی گئی جس میں ایک افغانی اینکر زلزلے کے ڈر سے بھاگتا ہوا نظر آیا۔ تو بس ثابت ہوا سما کے اینکرز ہی بہادر ہیں اور عنقریب ان سب کو پاک فوج میں بھرتی کرایا جائیگا۔
باقی ٹی وی چینلز بھی سما سے پیچھے رہنے کو تیار نظر نہ آئے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا چینل(بقول مالکان کے) اے آر وائے کے ایک رپورٹر صاحب زلزلہ زدگان کے پاس پہنچ گئے اور کیا خوب سوالات کرتے ہوئے نظر آئے۔ زلزلے کی شدت کتنی تھی (جیسے زلزلہ زدگان نوکریا امریکی جیولیجیکل سروے میں کرتے ہوں)۔ ایک اور سوال زلزلے کے وقت آپ کو کیا محسوس ہوا؟ (جیسے زلزلے کے وقت لوگ جھولے کا مزا لے رہے ہوں)۔
یہاں سوشل میڈیا کا ذکر نہ کیا جائے تو نہ انصافی ہوگی۔ زلزلے کی خبریں میڈیا پر چلنے کے بعد ہی فوری طور پر لوگوں کو اپنے فالورز بڑھانے کا خیال آیا اور پتہ نہیں کون کون سی تصاویر پاکستان سے منصوب کرکے بس فیس بک اور ٹوئیٹر پر ٹھوک دیں۔
ایک اینکر صاحبہ نے اپنے ٹوئیٹر ہینڈل کا خوب استعمال کیا محترمہ نے لکھا کہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ویڈیو اور تصاویر بنا کر اب تک نیوز کو ارسال کر یں۔ جی ایمرجنسی کی صورت میں اپنی جان بچانے سے پہلے ویڈیو اور تصاویر اب تک کو بھیجنا ہم سب کا قومی فریضہ ہے۔
یہ تمام پاکستانی میڈیا کی خصوصیات جو بندہ ناچیز نے آپ کو گنوائیں اس میں بے چارے صحافیوں کا کوئی قصور نہیں۔ میڈیا مالکان بڑی سیٹوں والے صحافیوں کو ریٹنگز کے لئے تنگ کرتے ہیں اور وہ بے چارے اپنی نوکری بچانے کے لئے برے سے برے اور صحافتی اصولوں کے خلاف ہر کام کو کرنے کی حامی بھر لیتے ہیں۔
ہمارے یہاں بے چارے صحافیوں کو ٹریننگ بھی نہیں دی جاتی، جس کا جو کام ہے اسے کرنے نہیں دیا جاتا۔ حال یہ ہے کہ جو لوگ کام کرنا جانتے ہیں اور کر سکتے ہیں انھیں یہاں دوسرے فضول کاموں میں لگا کر رکھا جاتا ہے۔ اب ان حالات میں صحافت تو ایسے ہی ہوپائے گی چاہے زلزلے آئیں یا آسمان گر پڑے۔
Last edited by a moderator: