! زرداری کے بعد شہباز شریف کا اعلان
''دنیا کامران خان کے ساتھ‘‘ پروگرام میں میاں شہباز شریف نے وہ کچھ کہہ دیا‘ جس کی طرف میں نے ایک ہفتہ قبل اپنے کالم بعنوان'' دونوں مات کھا گئے‘‘ میں اشارہ کیاتھا کہ شریف برادران اور آصف علی زرداری میں باہمی سمجھوتہ طے کروا دیا گیا ہے‘ کیونکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انگریزی اخبار کے صحافی سیرل المیڈا کو میاں نواز شریف کاخصوصی انٹرویو کروانے کیلئے چارٹرڈ طیارے پر ملتان لایا جائے‘
لیکن اس کے ملتان میں قیام کیلئے جس ہوٹل میں کمرہ بُک کروایا کیا گیا تھا‘ وہ میاں نواز شریف یا مسلم لیگ (ن) کسی عہدیدار کے نام پر نہیں‘ بلکہ یوسف رضا گیلانی کے بیٹے موسیٰ گیلانی کے نام پر بُک کروایا گیا تھا۔میاں شہباز شریف نے کامران خان کے پروگرام میں فرمایا ہے کہ نواز لیگ کو اگر مکمل اور واضح اکثریت بھی مل گئی ‘تو پھر بھی ہم قومی حکومت بناتے ہوئے تمام سیا سی جماعتوں کو اس میں شامل کریں گے اور اُن سیا سی جماعتوں میں پی پی پی‘ آفتاب شیر پائو‘ مولانا فضل الرحمان‘ اسفند یار ولی‘ جماعت اسلامی ‘ ایم کیو ایم اور محمود خان اچکزئی اور حاصل بزنجو شامل ہیں ۔
قارئین! ذہن نشین رہے کہ نواز لیگ سمیت ان 9 سیا سی اور مذہبی جماعتوں کا نشانہ صرف ایک شخص بن رہا ہے‘ جس کا نام عمران خان اور اس کی جماعت تحریک انصاف ہے۔ ایم ایم اے کا اصل چہرہ دیکھنا ہو تو سوات چلیں‘ تاکہ آپ کو پتہ چل سکے کہ وہ علماء کرام‘ جو کہتے پھر رہے تھے کہ کسی سے اتحاد نہیں کریں گے اور سپریم کورٹ کی سیڑھیوں پر ہر روز کھڑے ہو کر کہتے رہے کہ میاں نوازشریف کرپٹ ہے ‘اسی جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمان نے بہت بڑا یو ٹرن لیتے ہوئے‘ سوات کی قومی اسمبلی کی نشست سے اپنے امیدوار سے ٹکٹ واپس لے کر نواز لیگ کے موجو دہ صدر میاں شہباز شریف کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے اور ایک اطلاع کے مطا بق‘ ایم ایم اے میں رہتے ہوئے بھی پنجاب اور سندھ کی ایسی نشستوں پر جہاں جمعیت العلمائے اسلام کے ایم ایم اے سے امیدوار نہیں‘
وہاں سے نواز لیگ کو ووٹ دینے کی ہدایات کر دی گئی ہیں ۔اسفند یار ولی کی عوامی نیشنل پارٹی کے پنجاب کے صدر ‘لاہور میں مقیم ایسے پختونوں‘ جن کے خیالات اورہمدردیاں ولی خان کے ساتھ ہیں‘ کو اپنی ساتھ لے کر گزشتہ دنوں سردار ایاز صادق اور خواجہ سلمان رفیق کے گھر کارنر میٹنگ کر چکے ہیں ۔اس سے اندازہ کیجئے کہ نواز لیگ ایسے لوگوں سے بھی اب مدد مانگ رہی ہے‘ جو پاکستان میں پانی اور بجلی کی فراہمی کیلئے بنائے جانے والے کسی بھی ڈیم کو بم سے اڑا نے کی دھمکیاں دے چکے ہیں اور وہ اپنے ان ارادوں کا اظہار مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر چکے ہیں کہ کسی کا باپ بھی کالا باغ ڈیم نہیں بنا سکتا۔سوال یہ ہے کہ آخر نواز لیگ کن کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں؟
جنرل مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں24 جون کو لکھے گئے اپنے کالم بعنوان ''دونوں مات کھا گئے‘‘ میں‘ میں نے آصف علی زرداری کے دسمبر2004 ء کے انگریزی ماہنامے '' ہیرالڈ‘‘ کو دیئے جانے والے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ زرداری صاحب نے 2008 ء میں بے نظیر بھٹو کو مائنس کرتے ہوئے ‘ پی پی پی کی حکومت بننے سے چار سال قبل کس بنیاد پر کہہ دیا تھا کہ وہ پاکستان کے حکمران بنیں گے! اُن کا یہ کہنا کہ وہ اپنی یہ حکومت‘ جس میں وہ خود حکمران ہوں گے‘ اُس میں سب کو شامل کرتے ہوئے‘ ایک قومی حکومت بنائیں گے‘جبکہ اس وقت تک بی بی شہید کی نہ تو جنرل مشرف سے این آر او کی کوئی بات چلی تھی‘ نہ ہی لندن میں رحمان ملک کے گھر میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے تھے‘تو پھر جیل سے رہائی کے فوراً بعد زرداری صاحب کو کیسے الہام ہو گیا تھا
کہ بے نظیر بھٹو نہیں‘ بلکہ وہ خود اس ملک کے حکمران ہوں گے اور سب سیا سی جماعتوں کو ساتھ ملا کر قومی حکومت بنائیں گے اور پھر سب نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا ۔یہاں آکر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ بی بی کی زندگی میں اپنے صدر یا وزیر اعظم بننے کا اشارہ کس بنیاد پر کیا گیا اور اس کیلئے انہوں نے ''ہیرالڈ‘‘ جیسے معتبر انگریزی ماہنامے کو انٹرویو کے لیے شاید ا سی لئے چنا کہ سفارتی حلقوں میں اسے پڑھا جاتا ہے۔
خواجہ آصف اور فاروق نائیک دونوں خیر سے آپس میں سالا بہنوئی بھی ہیں اور دونوں نواز شریف اور زرداری کے انتہائی راز دان اور قابل ِاعتماد ہونے کی وجہ سے‘ ان کاایک دوسرے کے گھر معمول کے مطا بق آنا جا نا کوئی خبر نہیں بنتا‘ ایسی خاندانی ملاقاتوں سے ہونے والی بیک ڈور ڈپلومیسی سے میاں نواز شریف کو آصف علی زرداری نے معاف کر دیا ہے اور اس معافی نامہ کے بدلے میںمیاں نواز شریف نے آصف علی زرداری کو ایک بار پھر صدر ِپاکستان بنانے کیلئے گرین سگنل دے دیا ہے۔ اور میاں شہباز شریف جو اپنے لئے وزارت ِعظمیٰ کے خواب دیکھ رہے ہیں ‘ان کی بجائے ایک بار پھر شاہد خان عبا سی کو زرداری صاحب کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔یہ تو ہے‘ وہ پلان جو برطانیہ اور بھارت نے تیار کر رکھا ہے‘ لیکن دوسری جانب ان سب کے مقابلے میں اس ملک کی عوام ہو گی‘ جو ان کے ارادے کو ناکام بنائے گی۔پاکستان کے ہر با شعور شخص اور ووٹر کو یہ بات ہر وقت سامنے رکھنی ہو گی کہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے جو18 ویں آئینی ترمیم مشترکہ طور پر منظور کروائی ‘یہ پاکستان کے جسم میں گھونپا گیا‘
وہ خنجر ہے‘ جسے جتنی جلدی ہو سکے‘ اس کے جسم سے نکال کر پھینکنا ہوگا۔یہ ترمیم آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو تخت نشین کروانے والوں کے پر ُزور اصرار پر منظور کروائی گئی تھی۔
میری اپنے تمام قارئین سے التماس ہے کہ وہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی ملی بھگت سے اوراُن کے اتحاد سے منظور کروائی جانے والی 18 ویں آئینی ترمیم کا مطا لعہ ضرور کریں‘ تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے کہ یہ کیا گل کھلایا گیا ہے۔ اس ترمیم سے مرکز کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا ہے اور یاد رہے کہ جو لوگ مرکز کو کمزور کرنے کی کوششیں کرتے ہیں‘ ان کے پیچھے کوئی ایسا ہدایت کار ہوتا ہے‘ جو مرکز کے خلاف صوبائیت کے زہر کو ابھارنے کے ایجنڈے کو اپنائے ہوتاہے ۔
27 جون کو لکھے گئے کالم بعنوان '' عمران خان قوم کو اعتماد میں لیں‘‘ میں‘ میں نے بتایا تھا کہ بہت سے ضلعی پولیس اور انتظامی افسران کھلے عام نواز لیگ کی حمایت کرتے ہوئے کسانوںا ور تاجروں پر اثر انداز ہو رہے ہیں اور اس سلسلے میں نارووال‘ شیخو پورہ‘ گوجرانوالہ اور بورے والا میں تو اسسٹنٹ کمشنر سے تحصیلداروں تک کھلم کھلا مداخلت کی جا رہی ہے اور عام کسان پریشان ہے کہ اگر اپنی مرضی سے ووٹ کاسٹ کرتا ہے‘ تو کل کو ان کے ستم کا نشانہ بن سکتا ہے۔ رانا مقبول کھلم کھلا پولیس افسران کو ہدایات جاری کر رہا ہے اور اس سلسلے میں ان کا آئی بی اور سپیشل برانچ پولیس کے کچھ افسران سے اسی طرح رابطہ ہے‘ جیسے1990 ء میں میاں شہباز شریف کا ایس پی ملک وارث اور آئی جی چوہدری سردار محمد مرحوم سے رہتا تھا۔نگران وزیر اعلیٰ پنجاب حسن عسکری‘ جن کی پہچان میڈیا میں ایک با شعور شخص کے طور پر ہے
‘اوراُن کے لکھے ہر لفظ کو پاکستان اور اس سے باہر دلچسپی سے پڑھاجاتا ہے‘ انہیں رانا مقبول اور ذوالفقار چیمہ جیسے سابق پولیس افسران کے سحر سے نکلنا ہو گا‘ جنہیں میاں نواز شریف نے ریٹائر منٹ کے بعد بھی اپنے سائے تلے بنائے گئے حکومتی اداروں کی سربراہی دیتے ہوئے لاکھوں کی تنخواہوں اور مراعات کے ساتھ اپنے قریب رکھا ہوا ہے۔
Source