Muslimonly
Senator (1k+ posts)

ریاست اور مذھب ، غامدی صاحب 1986 اور 2015
یہی تو خوبی ہے اس حلقہ احباب کی...
جب دل چاہا ایک نقطہ نظر کو اپنا لیا جب دل چاہ منسوخ کر دیا ہے....
دراصل ایسی ہی فکر موجودہ دور کا ساتھ دے سکتی ہے ....
باقی اہل علم تو جمود کا شکار ہیں
-----------------------------------------
غامدی صاحب کی خدمت میں – بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
اپنے 22 جنوری 2015 کے کالم میں غامدی صاحب فرماتے ہیں :
"یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے اور اس کو بھی کسی قرارداد مقاصد کے ذریعے سے مسلمان کرنے اور آئینی طور پر اس کا پابند بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا"
جب دل چاہا ایک نقطہ نظر کو اپنا لیا جب دل چاہ منسوخ کر دیا ہے....
دراصل ایسی ہی فکر موجودہ دور کا ساتھ دے سکتی ہے ....
باقی اہل علم تو جمود کا شکار ہیں
-----------------------------------------
غامدی صاحب کی خدمت میں – بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
اپنے 22 جنوری 2015 کے کالم میں غامدی صاحب فرماتے ہیں :
"یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے اور اس کو بھی کسی قرارداد مقاصد کے ذریعے سے مسلمان کرنے اور آئینی طور پر اس کا پابند بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا"
جب کہ اگست 1986 کے اپنے شمارے میں جناب سے سوال ہوا :
’’اس زمانے میں بعض دانش ور ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر اور اسلام کے لیے نہیں بنا تھا۔یہ سب باتیں یہاں نفاذِ اسلام کی جدوجہد کو نقصان پہنچانے کے لیے کی جاتی ہیں۔ہماری خواہش ہے کہ آپ ان لوگوں کی غلطی واضح کریں۔
‘‘
جواب میں محترم غامدی صاحب نے فرمایا
":
’’ہمارا مقدمہ یہ ہے کہ ہم چونکہ مسلمان ہیں اور ہمیں اس ملک میں اللہ کی عنایت سے سیاسی خود مختاری حاصل ہےاور چونکہ یہ دین کا قطعی حکم ہے کہ مسلمان اگر کسی سرزمین میں سیاسی طور پر خود مختار ہوں تو وہ وہاں اسلامی قانون نافذ کریں اور اپنی حیاتِ اجتماعی کے ہر شعبہ پر احکام دین کو بالا تر رکھیں، اس لیے یہاں اللہ کا دین نافذ ہونا چاہیے۔اس ملک کے اربابِ اقتدار اور سیاسی زعما ء سے ہمارےمطالبے کی بنیاد یہ ہے۔
ہمارے اس مطالبے کے جواب میں ہمارے مخاطبین کے سامنے صرف تین راستے رہ جاتے ہیں۔ایک یہ کہ وہ اپنے مسلمان ہونے کا انکار کر دیں۔‘‘دوسرا یہ کہ وہ قرآن وسنت کے دلائل کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ اسلام ان سے اس بات کا تقاضا نہیں کرتا ۔تیسرا یہ کہ وہ عملا اس تقاضے کو پورا کرنے سے گریز کرتے رہیں۔
پہلی صورت میں ان کی قیادت و سیادت ان شاء اللہ لمحوں میں ختم ہو جائے گی۔دوسری صورت میں ان کی ہزیمت اور بے بسی کا تماشا ،اگر اللہ نے چاہا تو زمین وآسمان دیکھیں گے۔تیسری صورت میں ہم انہیں بتائیں گے وہ اس طرح درحقیقت کفر کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ان کا اسلام قیامت میں قبول نہ کیا جائے گا۔وہ اپنے آپ کو اس آگ سے بچانے کی کوشش کریں جو دلوں تک پہنچے گی اور جس میں مجرم ستونوں کے ساتھ بندھے ہوں گے وہاں ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔وہ اس سے نکلنا چاہیں گے لیکن اس کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔وہ اس دن سے ڈریں جس دن گریز کے سب راستے بند اور فرار کی سب راہیں مسدود ہو جائیں گی اور قرآن اپنی اس حجت کے ساتھ ان کے سامنے آئے گا کہ:
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ ’’اور جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں،وہی کافر ہیں۔ ‘‘
( اشراق، اگست 1986ء ص 6- 8 )
---------------------------------------------
