ریاستِ مدینہ اور ریاستِ پاکستان

mtahseenpk

MPA (400+ posts)

ریاستِ مدینہ اور ریاستِ پاکستان


تحریر: محمد تحسین

مسلمانوں کے پہلے خلیفہ راشد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ جس دن آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خلافت سنبھالی تواپنا کاروبار بند کردیا۔ ارشاد فرمایا کہ اگر خلیفہ کاروبار کرے گا تو باقی تاجروں کا کاروبار کیسے چلے گا ۔ آپ کی تنخواہ بیت المال سے مقرر ہوئی تو اصحاب نے ارشاد فرمایا کہ اس سے آپ کا گذارہ کیسے ہوگا؟ فرمانے لگے اگر ایک مزدور اس تنخواہ میں گذارہ کرسکتا ہے تو میں کیوں نہیں کرسکتا؟ اگر مجھے لگا کہ اس میں گذارہ نہیں ہوتا تو میں مزدوروں کی اجرت
بھی بڑھا دوں گا۔ جی ہاں یہ ہے ہمارا دین اور ہمارے اسلاف۔

[FONT=&amp]جب قائدِ اعظم اور برضغیر کے مسلمان ایک آزاد اسلامی مملکت کے لیے جدوجہد کررہے تو قائدِ اعظم نے فرمایا تھا کہ ہم یہ جدوجہد صرف زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کررہے بلکہ یہ جدوجہد اس لیے ہے کہ ہم اس سرزمین کو اسلام کے قوانین کی تجربہ گاہ بناسکیں۔ ریاستِ مدینہ کے بعد یہ دوسری ریاست تھی جس کے پیچھے ایک نظریہ تھا۔ ریاستِ مدینہ اور پاکستان میں یہی بات مشترک تھی کہ دونوں کو اسلام کے لیے بنایا گیا تھا۔ ریاستِ مدینہ کے لیے بھی آقا صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب نے ان گنت قربانیاں دیں۔ تحریکِ پاکستان میں بھی چھ لاکھ مسلمانوں کا خون شامل ہے۔

[/FONT]
آج ستر سال بعد دیکھیں تو جس ملک کو اسلام کے قوانین کی تجربہ گاہ بننا تھا وہ دنیا بھر کے عیاش حکمرانوں کی شکارگاہ بناہوا ہے۔ ہمارا ملک جسے ساری دنیا کہ لیے ایک مثال بننا تھا اس کے خارجہ تعلقات آج ایک پرندے تلور کے مرہونِ منت ہیں۔اس کی وجہ کوئی بہت لمبی چوڑی نہیں بلکہ وہی ہے جو میں نے ابتدائی سطروں میں بیان کی۔ ہمارے پہلے خلیفہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حکومت سنبھالنے کے بعد اپنا کاروبار ترک کردیا جبکہ ہمارے حکمرانوں کے کاروبار ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد روشنی کی رفتار سے ترقی کرتے ہیں۔

ہمارے ملک میں بات یہیں نہیں رکی بلکہ ہمارے حکمرانوں کے اثاثے ان کی کاروبار میں دکھائی گئی آمدنی سے ہزاروں گُنا بڑھ گئے جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ انہوں نے خیانت اور چوری بھی کی۔ پانامہ کیس اس کی ایک واضح مثال ہے۔ ریاستِ مدینہ کے ایماندار حاکم کی وجہ سے ریاستِ مدینہ نے اس وقت کی سپر پاورز کو سرنگوں کرلیا تھا جب کہ ریاستِ پاکستان کے خائن حکمرانوں کی بدولت آج ہمارا پاسپورٹ دنیا کے بدترین ممالک
کی فہرست میں ٹاپ پر ہے۔

یہ تو تھا حکمرانوں کے کردار کا فرق۔ اب ذرا ریاستِ مدینہ اور ریاستِ پاکستان کے عوام الناس کے کردار کا جائزہ بھی لیتے ہیں۔ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد سیدنا عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ صرف مسلمانوں ہی نہیں بلکہ انسانی تاریخ کے عظیم ترین حکمرانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے بہت سے قوانین اب بھی تہذیب یافتہ ملکوں میں پڑھائے جاتے ہیں اور لاگو ہیں۔ ان کے دورِ خلافت میں ریاستِ مدینہ لاکھوں مربع میل تک پہنچ چکی تھی اور وہ اس وقت دنیا کے سب سے طاقتور حکمران تھے جیسے اب امریکہ کا صدر ہوتا ہے۔ فتوحات کے دوران مسلمانوں کے ہاتھ مالِ غنیمت آیا جس میں کپڑا بھی تھا جو تمام مسلمانوں میں برابر تقسیم کردیا گیا۔ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دراز قامت تھے اور جس قدر کپڑا ہر مسلمان کے حصے میں آیا تھا اس میں ممکن نہیں تھا کہ ان کا کرتہ بن سکے۔

اگلے دن لوگوں نے دیکھا کہ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے کپڑے کا کُرتہ پہنا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر ایک غریب بدو (پاکستان کا کوئی ریڑھی والا، چھابڑی والا) سیدنا عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے کھڑا ہوگیا اور سوال پوچھا کہ مجھے اس اضافی کپڑے کا جواب دیں۔ سپر پاور کے حکمران سیدنا عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس غریب بدو کے سوال کا جواب دیا اور بتایا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کے حصے کا کپڑا اس سے لے کر یہ کرتہ بنایا ہے۔ اب زرا ریاستِ پاکستان کے عوام کے کردار کو دیکھیں۔ ہمارے حکمران کے اثاثے اس کی بتائی گئی آمدنی سے ہزاروں گُنا زیادہ ہیں اور جو اس نے چھپائے ہوئے تھے۔ ان کا انکشاف ہوا تو پاکستانی قوم اس سے جواب طلب کرنے کی بجائے اس کے دفاع میں لگی ہے۔ اس قوم کا خیال ہے کہ حکمران سے حساب مانگنے سے ترقی رکتی ہے۔

آج ریاستِ مدینہ کے طرز پر بننے والی ریاست دنیا میں سب سے پیچھے اس لیے ہے کہ اس کے حکمرانوں اور عوام نے وہ اصول چھوڑ دیئے جن کو اپنانے کے لیے یہ ریاست قائم کی گئی تھی۔ وہ اصول آج غیر مسلموں نے اپنا لیے اور وہ آج وہاں کھڑے ہیں جہاں کبھی ریاستِ مدینہ تھی یا پر ریاستِ پاکستان کو ہونا چاہیے تھا یعنی کے سپر پاور۔ اس ضمن دنیا کے سب سے طاقتور حکمران ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک ٹویٹ شیئر کروں گا جو انھوں نے نے دو دن پہلے کی۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ قانون کی رو سے یہ ضروری نہیں لیکن میں بیس جنوری کو اقتدار سنبھالنے سے پہلے اپنے سارے کاروبار سے دستبردار ہوجاوٗں گا تاکہ میں بطور صدر اپنی جاب پر فوکس کرسکوں۔ اب زرا ہمارے خلیفہ اول کے خلافت سنبھالتے وقت کے بیان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کو دیکھ لیں تو سمجھ آجائے گا کہ سپر پاور کیسے بنا جاتا ہے۔ تعلیمات وہی ہیں جو اسلام نے دیں۔بس فرق اتنا ہے کہ غیروں نے اپنا لیں اور ہم نے چھوڑ دیں۔

سپرپاورز کے عوام الناس اور ریاستِ پاکستان کے عوام الناس کا تقابل کرنا ہے تو اس کے لیے بھی چند دن پہلے کی مثال حاضر ہے۔ جنوبی کوریا کہ عوام کئی دن تک سڑکوں پر رہے اور اپنی صدر سے استعفٰی لے کر ہی چھوڑا۔ صدر پر الزام تھا کہ اس نے اقتدار کو ذاتی فوائد کے لیے استعمال کیا۔ اگر ریاستِ پاکستان کے عوام چاہتے ہیں کہ دنیا میں ان کی عزت ہو، ان کی سنی جائے، اور وہ مقصد حاصل کیا جاسکے جس کے لیے پاکستان بنایا گیا تھا تو پھر ہمیں اس غریب بدو والا کردار اپنانا ہوگا جس نے سپر پاور کے حاکم کو
کٹہرے میں کھڑا کیا تھا۔ ہم سب کو سوال کرنا ہوگا۔ محمد تحسین

15390900_1423156847714136_5169146069609619851_n.jpg
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
لبرل عوام سیکولر حکمران ویلنٹائن/ہیلوئیں ڈے منانے کا کامیاب تجربہ کر چکے. بلیک فرائیڈے آزمائشی مراحل میں ہے. پس پردہ پرائیڈ ڈے منانے کی حکمت عملی تیار ہو رہی ہو گی
 

Back
Top