رونا دھونا بند کریں۔۔کام شروع کریں۔۔ اسحاق ڈار

Kashif Rafiq

Prime Minister (20k+ posts)
210147_9844668_updates.jpg


موجودہ حکومت کی جانب سےقرضوں سےمتعلق بہت کچھ میڈیا میں کہاگیا،غالباًیہ اپنی نااہلی، خراب حکومت اور عوام مخالف پالیسیزجو 70روز کےدوران ہی واضح ہوگئی ہیں، اس سےعوامی توجہ ہٹانےکیلئےہے۔ یہ سمجھنےکی ضرورت ہے کہ کسی بھی حکومت کیلئےعوامی قرضےہوتےہی ہیں جو اس کےدورِ حکومت میں پاکستانی روپےکی قدرمیں کمی کے باعث غیرملکی قرضوں کی مد میں سالانہ بجٹ خسارے میں شامل ہوتےہیں۔ چونکہ مذکورہ بجٹ خسارے کوپارلیمنٹ نےمنظورکیاہےتو سارا عمل شفاف ہے اوریہ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے،اس میں کسی کیلئے بھی کوئی حیرانی کی بات نہیں ہونی چاہیئے۔ جب پی ایم ایل(ن) نے جون 2013میں میاں نواز شریف بطوروزیراعظم کےساتھ اپنی حکومت کا آغاز کیا تو اسے بھی کئی مشکلات ورثےمیں ملیں، جیسا کہ بڑا مالی خسارہ، بڑھتے ہوئے قرضوں کا بوجھ، زرِ مبادلہ کے کم ذخائر، ٹیکس ریوینومیں کمی، کم ہوتےہوئے ٹیکس، بڑھتے ہوئے اخراجات، گردشی قرضوں میں اضافہ جو توانائی کے شبعے کو کمزورکررہے تھے، سرمائے کی منتقلی، کمزورہوتاہوا ایکسچینج ریٹ اور خطرناک حد تک کم ہوتا ہوا سرمایہ کاروں کا اعتماد۔بیرونی محاذپراہم ڈویلپمنٹ پارٹرنزنے کمزورمعاشی اشاروں کے باعث سپورٹ ختم کردی تھی۔

اہم مشکلات میں سے ایک بیرونی سرمائے کی غیرموجودگی تھی جس کےباعث اندرونی ایکسچینج مارکیٹ میں مشکلات کاسامناتھا اور عوامی قرضوں کا حجم اندرونی قرضوں پرمنتقل ہورہاتھا۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کےغیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر جوجون 2013میں 6ارب ڈالر تھے وہ فروری 2014میں 2.8ارب ڈالر رہ گئے، کیونکہ خالصتاً معیشت کو غیرمستحکم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، پی ٹی آئی کے ایم این اے کے غیرذمہ دارانہ بیان کے باعث اسے مزید ہوا ملی جن میں جرات تھی کہ وہ ستمبر2013میں یہ ذمہ داری لیتے کہ ایکسچینج ریٹ ڈالر کے مقابلے میں 127روپے ہوجائےگا۔ معیشت بیرونی اکائونٹس کوچلانے کیلئےیہ بہت خطرناک صورتحال اور تھی۔ 2013کے آغاز میں ایسی پیش گوئیاں کی گئیں تھیں کہ اگر حالات بدلنے کیلئے ضروری اقدامات نہ کیے گئے تو ملک دیوالیہ ہوجائےگا۔

ایسی پیش گوئیاں معاشی ماہرین نے کی تھیں، جنھوں نے میکرواکنامک صورتحال کاتجزیہ کیاتھا اور یہ نتیجہ اخذ کیاتھاکہ ملک کے پاس فروری 2014 کےبعداپنی ضروریات پوری کرنےکیلئےغیرملکی زرِمبادلہ کےضروری ذخائر نہیں ہیں۔ کم ہوتے ہوئے زرِ مبادلہ کےذخائر اورگرتی کوئی کرنسی کی قدر کوروکنےکی اشد ضرورت تھی، یہ نومبر2013میں تقریباً111روپے فی ڈالر ہوچکی تھی کیونکہ افراط زرمیں اضافہ ہو رہا تھااورقرضےبڑھ رہےتھے۔ قرض داری کے اثرکوقابو کرنے کیلئےشرح سودکومستحکم کرتےہوئے اندرونی قرضوں کی میچورٹی پروفائل میں اضافےکی اہمیت ضروری ہوگئی تھی۔ گیلری میں کھلنے اور سابقہ پی پی پی حکومت پرالزامات لگانے کی بجائےجون2013میں حکومت سنبھالنے کے بعد پی ایم ایل(ن) حکومت نے فوراً بحالی کا کام شروع کیا اور دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے ضروری اقدامات کیے،

معاشی نظم وضبط بحال کیا، تباہ ہوتی معیشت کو مستحکم کیا اور تیز رفتارترقی کی بنیاد رکھی۔ پی ایم ایل(ن) کی حکومت نےاپنے پہلے بجٹ 2013-2014میں سٹرکچرل ریفارمز متعارف کرائے۔ پی پی پی حکومت 2008میں آئی ایم ایف کے ساتھ کل 11.5ارب ڈالر کے قرضے کیلئے ہنگامی انتظامات کر چکی تھی لیکن باقی معاشی ریفارمز نافذ کرنے میں اپنی نااہلی کے باعث 745 کروڑ 50لاکھ ڈالر کےبعد پروگرام ختم کردیا۔

پی پی پی کے مذکورہ قرضوں میں سےپی ایم ایل(ن) کواپنی حکومت میں 4.6ارب ڈالر ادا کرنے پڑےلہٰذا ہمیں ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسیلیٹی (ای ایف ایف) میں جانا پرا، اس پر جولائی 2013میں اتفاق ہواتھا۔ لیکن معاشی استحکام کی خاطر پی ایم ایل(ن) کی حکومت نے پورا ریفارم پروگرام مکمل کیا تاکہ پاکستان کی ساکھ بحال ہوسکےاور پاکستان 7سال کی غیرحاضری کے بعد دوبارہ بین الااقوامی کیپٹل مارکیٹ میں داخل ہوسکے۔ اسی دوران دیگر عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایف آئی) پالیسی لون کے ذریعےرعایتی غیرملکی ذرائع حاصل کرنے میں مصروف ہوگئےکیونکہ معاشی عدم استحکام کے باعث انھوں نے پاکستان کے ساتھ کاروبار روک دیاتھا۔ کئی متحرک سیاسی آوازیں پی ایم ایل (ن) کی معاشی ترقی کے بارے میں شکوک بڑھا رہی ہیں اور بالخصوص قوم کی غلط نمائندگی کررہی ہیں، پی ایم ایل(ن)کے دورِحکومت 2013-18کےدوران ملک میں جمع ہونےوالے عوامی قرضوں کے بارے میں ایسا کم علمی کی وجہ سے ہے یا پھر بامقصد ہے۔ ’فسکل رسپونسبلیٹی اور ڈیٹ لمیٹیشن ایکٹ‘ کے مطابق ٹوٹل پبلک ڈیٹ کو حکومت(صوبائی اور وفاقی حکومت) کے قرضے بینکنگ سسٹم میں کم حکومتی سرمایہ اورآئی ایم ایف کےقرضے کے طورپر بیان کیاجاتاہے۔لہٰذا موجودہ حکومت کی جانب سے کہا گیا 30جون2018کو 30ہزار ارب روپے بطور کُل پبلک قرضہ کے اعدادوشمار غلط ہے اور درست 23051ارب روپے ہیں۔ اس کی تفصلات مندرجہ ذیل ہیں۔ قانون کے مطابق ریکارڈ کو سیدھا رکھنا اہم ہے۔ مندرجہ ذیل ٹیبل میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مختلف حکومتوں کےدوران قرضوں کی تفصیلات دکھائی گئی ہیں۔

مندرجہ بالا ٹیبل سےیہ واضح ہے کہ 1999-2008 کی مشرف حکومت کےدوران کُل عوامی قرضوں میں 97فیصد اضافہ ہوا پی پی پی کے دور2008-13 میں یہ 153فیصد بڑھ گئے اور پی ایم ایل کے دورِ حکومت 2013-18 کے دوران یہ 71فیصد تھے، یہ اضافہ بمشکل 46فیصد(6177ارب روپے)تھا اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ پی ایم ایل (ن) حکومت نے سخت معاشی پالیسی متعارف کرائی اور حقیقی معاشی اقدامات کیے ان میں وزیراعظم اور وزراءکے خفیہ فنڈز کا خاتمہ بھی شامل تھا۔ 2017-18 کےدوران قرضوں میں اضافہ 3416ارب روپے تھا جس میں سے 1978ارب روپے بیرونی قرضہ تھا۔ رواں سال جوہوا جس کے باعث قرضوں میں 19635 ارب روپے سے 23051ارب روپے اضافہ ہوا ، یا 46فیصد سے 71فیصد یہ انتہائی بدقسمتی ہے کیونکہ وزیراعظم نواز شریف کو عہدے سے برطرف کردیاگیا اور مصنف نے وزراتِ دفاع کا چارج بھی نومبر2017 میں چھوڑ دیا۔ پی ایم ایل(ن) کے نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کی معاشی ٹیم کوبڑےغیر بجٹی مطالبات کاسامنا کرنا پڑا اور نتیجتاً معاشی استحکام جو گزشتہ چار سالوں میں آیا تھا وہ قائم نہ رہ سکا۔ دنیا بھر میں قرضوں کاذکرکُل ہندسوں میں نہیں کیاجاتا بلکہ جی ڈی پی کے ساتھ فیصد میں کیاجاتاہے یہ معاشی سیاق وسباق میں زیادہ معنی خیزہے۔

عام طورپر جی ڈی پی قرضوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور پاکستان کا جی ڈی پی جون 2013میں 22386ارب روپے سے بڑھ کر جون 2018میں 34397ارب روپے ہوگیا۔ جی ڈی پی کے حساب سے پاکستان کےکُل قرضے جون 2013 میں 60.1فیصد تھے جو جون 2017میں 61.4فیصد بڑھ گئے اور سیکیورٹی سے متعلقہ اخراجات یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ (ضربِ عضب) کے باعث جون 2018میں 67 فیصد بڑھ گئے اور پبلک سیکٹر کے ترقیاتی پراجیکٹس میں بھاری سرمایہ کاری جس میں ملک سے گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ، سڑکوں کی بہتری، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ذرائع مواصلات وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اتفاقیہ طورپر 2018 میں امریکا کے قرضے جی ڈی پی کا106فیصد تھے، جاپان میں 221فیصد، اٹلی 138 فیصد، بیلجیم 115فیصد اور سنگاپور کے105فیصد تھے یہ سب پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ضرور یاد رکھا ہوگا کہ پی ٹی آئی کے سیاسی دھرنوں جو کئی ماہ تک جاری رہے اور جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کیلئے ان کی اراکین کی جانب سے قومی اسمبلی میں استعفے جمع کرانے کےباجود پی ایم ایل(ن) نے اپنے دورِ حکومت میں اللہ کی مہربانی سے وفاقی ٹیکس کلیکشن میں 100فیصد اضافہ کیا، جی ڈی پی میں 3فیصد سے 5.8فیصد (13سال میں سب سے زیادہ) اضافہ ہوا اور افراطِ زرکم ترین ہوگیا، برآمدات ری فنانس یالانگ ٹرم فنانس کی سہولت کی شرح گزشتہ 40 سالہ کے مقابلے میں اضافہ ہوا اور غیرملکی ترسیلاتِ زر 13.9ارب ڈالر سے بڑھ کر 19.4ارب ڈالر ہوگئی،

ایکسچینج ریٹ مستحکم اور قومی فارن ایکسچینج زرمبادلہ فروری 2014میں 7.5ارب ڈالر سے 30جون 2017تک 21.4ارب ڈالر تک بڑھ گئے۔ عالمی ادارےاور ریٹنگ ایجنسیاں بشمول موڈیزسٹینڈرڈ اور پوورز، فوربز، بلومبرگ، اکانومسٹ اورآئی ایف آئی ان سب نےپی ایم ایل(ن) کے دورِ حکومت میں 30جون 2017 تک معاشی استحکام اور پاکستان کی ترقی پر مثبت رپورٹس دیں اور پرائس واٹرہائوس کوپرز کی رپورٹ میں پاکستان کی 2030تک جی 20میں شامل ہونے کی پیش گوئی کی گئی اورپی ایم ایل(ن) کے گزشتہ دورِ حکومت کے دوران پی ٹی آئی کی جانب سے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشیشیں کام نہ آئیں۔

مصنف نے کئی بار پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو ’’چارٹرآف اکانومی‘ پر اتفاق کرنے کی پیشکش کی تاکہ معیشت سیاست سے پاک رہے لیکن بدقسمتی سے تعاون نہیں کیاگیا۔ 1999کےبعد سے مختلف حکومتوں کے دوران قرضوں کا مذکورہ بالا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے بتائے گئے قرضوں کے اعدادوشمار بے بنیاد ہیں اور اس کے سیاسی محرکات ہیں جس کسی بھی معاشی میرٹ پر پورا نہیں اترتے۔ یہ امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت افسوس کرنا بدن کرے گی جیسا انہوں نےگزشتہ پانچ سال کے دوران اپوزیشن میں کیا اور یہ کام شروع کرےکیونکہ پاکستان کے لوگ پہلے ہی 70روز کے دوران روپے کی قدرمیں کمی، پاکستان اسٹاک ایکسچینچ انڈیکس میں کمی اور بنیادی اشیاء جیسے گیس اور بجلی کی قیمتوں میں غیرمثالی اضافے کےباعث کافی مشکلات برداشت کرچکےہیں۔

569276_5500276_Ishaq-Dar_akhbar.jpg

(مصنف سابق وزیرِ خزانہ اور انگلینڈ اور ویلز میں انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکائونٹنٹس کے فیلوممبر ہیں)



https://jang.com.pk/news/569276-stop-mourning-get-down-to-work-ishaq-dar
 

mercedesbenz

Chief Minister (5k+ posts)
ایک ھی مطالبہ ھے کہ یہ کتی کا بچہ چار ٹرڈاکاوُنٹنٹ پاکستان واپس آئے اور اپنا عدالت میں جو حساب کتاب کھلا ھوا ھے اس کو آ کر اکاوُنٹ کرے حکومت جانے اسکا کام جانے۔تم جو حرامزادے پاکستان کو قرضوں کے ڈھیر کے نیچے پاکسان کو دبا کر بھاگ گئے ھو و واپس آ کر اسکا تو حساب دو کسی حرامی کی اولاد۔
 

Will_Bite

Prime Minister (20k+ posts)
Oh my God...his back pain held up long enough for him to type this garbage! Its a miracle.

What a crook. PTI is fixing the mess you and PPP left the country in. PTI didnt fudge the numbers, you did. PTI didnt say that the IMF loan was given with an intrinsic value of Rs. 127. It was IMF. And that was proven correct. When PTI took over, the dollar was at Rs. 128.
 

Dr Adam

President (40k+ posts)
[QUOTE="Kashif Rafiq, post: 5084317, member: 66502"
(مصنف سابق وزیرِ خزانہ اور انگلینڈ اور ویلز میں انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکائونٹنٹس کے فیلوممبر ہیں)
[/QUOTE]



اور الحمد الله دنیا کے سب سے بڑے مفرور ڈاکو ہیں
 

THEMUSLIM

Senator (1k+ posts)
210147_9844668_updates.jpg


موجودہ حکومت کی جانب سےقرضوں سےمتعلق بہت کچھ میڈیا میں کہاگیا،غالباًیہ اپنی نااہلی، خراب حکومت اور عوام مخالف پالیسیزجو 70روز کےدوران ہی واضح ہوگئی ہیں، اس سےعوامی توجہ ہٹانےکیلئےہے۔ یہ سمجھنےکی ضرورت ہے کہ کسی بھی حکومت کیلئےعوامی قرضےہوتےہی ہیں جو اس کےدورِ حکومت میں پاکستانی روپےکی قدرمیں کمی کے باعث غیرملکی قرضوں کی مد میں سالانہ بجٹ خسارے میں شامل ہوتےہیں۔ چونکہ مذکورہ بجٹ خسارے کوپارلیمنٹ نےمنظورکیاہےتو سارا عمل شفاف ہے اوریہ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے،اس میں کسی کیلئے بھی کوئی حیرانی کی بات نہیں ہونی چاہیئے۔ جب پی ایم ایل(ن) نے جون 2013میں میاں نواز شریف بطوروزیراعظم کےساتھ اپنی حکومت کا آغاز کیا تو اسے بھی کئی مشکلات ورثےمیں ملیں، جیسا کہ بڑا مالی خسارہ، بڑھتے ہوئے قرضوں کا بوجھ، زرِ مبادلہ کے کم ذخائر، ٹیکس ریوینومیں کمی، کم ہوتےہوئے ٹیکس، بڑھتے ہوئے اخراجات، گردشی قرضوں میں اضافہ جو توانائی کے شبعے کو کمزورکررہے تھے، سرمائے کی منتقلی، کمزورہوتاہوا ایکسچینج ریٹ اور خطرناک حد تک کم ہوتا ہوا سرمایہ کاروں کا اعتماد۔بیرونی محاذپراہم ڈویلپمنٹ پارٹرنزنے کمزورمعاشی اشاروں کے باعث سپورٹ ختم کردی تھی۔

اہم مشکلات میں سے ایک بیرونی سرمائے کی غیرموجودگی تھی جس کےباعث اندرونی ایکسچینج مارکیٹ میں مشکلات کاسامناتھا اور عوامی قرضوں کا حجم اندرونی قرضوں پرمنتقل ہورہاتھا۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کےغیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر جوجون 2013میں 6ارب ڈالر تھے وہ فروری 2014میں 2.8ارب ڈالر رہ گئے، کیونکہ خالصتاً معیشت کو غیرمستحکم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، پی ٹی آئی کے ایم این اے کے غیرذمہ دارانہ بیان کے باعث اسے مزید ہوا ملی جن میں جرات تھی کہ وہ ستمبر2013میں یہ ذمہ داری لیتے کہ ایکسچینج ریٹ ڈالر کے مقابلے میں 127روپے ہوجائےگا۔ معیشت بیرونی اکائونٹس کوچلانے کیلئےیہ بہت خطرناک صورتحال اور تھی۔ 2013کے آغاز میں ایسی پیش گوئیاں کی گئیں تھیں کہ اگر حالات بدلنے کیلئے ضروری اقدامات نہ کیے گئے تو ملک دیوالیہ ہوجائےگا۔

ایسی پیش گوئیاں معاشی ماہرین نے کی تھیں، جنھوں نے میکرواکنامک صورتحال کاتجزیہ کیاتھا اور یہ نتیجہ اخذ کیاتھاکہ ملک کے پاس فروری 2014 کےبعداپنی ضروریات پوری کرنےکیلئےغیرملکی زرِمبادلہ کےضروری ذخائر نہیں ہیں۔ کم ہوتے ہوئے زرِ مبادلہ کےذخائر اورگرتی کوئی کرنسی کی قدر کوروکنےکی اشد ضرورت تھی، یہ نومبر2013میں تقریباً111روپے فی ڈالر ہوچکی تھی کیونکہ افراط زرمیں اضافہ ہو رہا تھااورقرضےبڑھ رہےتھے۔ قرض داری کے اثرکوقابو کرنے کیلئےشرح سودکومستحکم کرتےہوئے اندرونی قرضوں کی میچورٹی پروفائل میں اضافےکی اہمیت ضروری ہوگئی تھی۔ گیلری میں کھلنے اور سابقہ پی پی پی حکومت پرالزامات لگانے کی بجائےجون2013میں حکومت سنبھالنے کے بعد پی ایم ایل(ن) حکومت نے فوراً بحالی کا کام شروع کیا اور دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے ضروری اقدامات کیے،

معاشی نظم وضبط بحال کیا، تباہ ہوتی معیشت کو مستحکم کیا اور تیز رفتارترقی کی بنیاد رکھی۔ پی ایم ایل(ن) کی حکومت نےاپنے پہلے بجٹ 2013-2014میں سٹرکچرل ریفارمز متعارف کرائے۔ پی پی پی حکومت 2008میں آئی ایم ایف کے ساتھ کل 11.5ارب ڈالر کے قرضے کیلئے ہنگامی انتظامات کر چکی تھی لیکن باقی معاشی ریفارمز نافذ کرنے میں اپنی نااہلی کے باعث 745 کروڑ 50لاکھ ڈالر کےبعد پروگرام ختم کردیا۔

پی پی پی کے مذکورہ قرضوں میں سےپی ایم ایل(ن) کواپنی حکومت میں 4.6ارب ڈالر ادا کرنے پڑےلہٰذا ہمیں ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسیلیٹی (ای ایف ایف) میں جانا پرا، اس پر جولائی 2013میں اتفاق ہواتھا۔ لیکن معاشی استحکام کی خاطر پی ایم ایل(ن) کی حکومت نے پورا ریفارم پروگرام مکمل کیا تاکہ پاکستان کی ساکھ بحال ہوسکےاور پاکستان 7سال کی غیرحاضری کے بعد دوبارہ بین الااقوامی کیپٹل مارکیٹ میں داخل ہوسکے۔ اسی دوران دیگر عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایف آئی) پالیسی لون کے ذریعےرعایتی غیرملکی ذرائع حاصل کرنے میں مصروف ہوگئےکیونکہ معاشی عدم استحکام کے باعث انھوں نے پاکستان کے ساتھ کاروبار روک دیاتھا۔ کئی متحرک سیاسی آوازیں پی ایم ایل (ن) کی معاشی ترقی کے بارے میں شکوک بڑھا رہی ہیں اور بالخصوص قوم کی غلط نمائندگی کررہی ہیں، پی ایم ایل(ن)کے دورِحکومت 2013-18کےدوران ملک میں جمع ہونےوالے عوامی قرضوں کے بارے میں ایسا کم علمی کی وجہ سے ہے یا پھر بامقصد ہے۔ ’فسکل رسپونسبلیٹی اور ڈیٹ لمیٹیشن ایکٹ‘ کے مطابق ٹوٹل پبلک ڈیٹ کو حکومت(صوبائی اور وفاقی حکومت) کے قرضے بینکنگ سسٹم میں کم حکومتی سرمایہ اورآئی ایم ایف کےقرضے کے طورپر بیان کیاجاتاہے۔لہٰذا موجودہ حکومت کی جانب سے کہا گیا 30جون2018کو 30ہزار ارب روپے بطور کُل پبلک قرضہ کے اعدادوشمار غلط ہے اور درست 23051ارب روپے ہیں۔ اس کی تفصلات مندرجہ ذیل ہیں۔ قانون کے مطابق ریکارڈ کو سیدھا رکھنا اہم ہے۔ مندرجہ ذیل ٹیبل میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مختلف حکومتوں کےدوران قرضوں کی تفصیلات دکھائی گئی ہیں۔

مندرجہ بالا ٹیبل سےیہ واضح ہے کہ 1999-2008 کی مشرف حکومت کےدوران کُل عوامی قرضوں میں 97فیصد اضافہ ہوا پی پی پی کے دور2008-13 میں یہ 153فیصد بڑھ گئے اور پی ایم ایل کے دورِ حکومت 2013-18 کے دوران یہ 71فیصد تھے، یہ اضافہ بمشکل 46فیصد(6177ارب روپے)تھا اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ پی ایم ایل (ن) حکومت نے سخت معاشی پالیسی متعارف کرائی اور حقیقی معاشی اقدامات کیے ان میں وزیراعظم اور وزراءکے خفیہ فنڈز کا خاتمہ بھی شامل تھا۔ 2017-18 کےدوران قرضوں میں اضافہ 3416ارب روپے تھا جس میں سے 1978ارب روپے بیرونی قرضہ تھا۔ رواں سال جوہوا جس کے باعث قرضوں میں 19635 ارب روپے سے 23051ارب روپے اضافہ ہوا ، یا 46فیصد سے 71فیصد یہ انتہائی بدقسمتی ہے کیونکہ وزیراعظم نواز شریف کو عہدے سے برطرف کردیاگیا اور مصنف نے وزراتِ دفاع کا چارج بھی نومبر2017 میں چھوڑ دیا۔ پی ایم ایل(ن) کے نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کی معاشی ٹیم کوبڑےغیر بجٹی مطالبات کاسامنا کرنا پڑا اور نتیجتاً معاشی استحکام جو گزشتہ چار سالوں میں آیا تھا وہ قائم نہ رہ سکا۔ دنیا بھر میں قرضوں کاذکرکُل ہندسوں میں نہیں کیاجاتا بلکہ جی ڈی پی کے ساتھ فیصد میں کیاجاتاہے یہ معاشی سیاق وسباق میں زیادہ معنی خیزہے۔

عام طورپر جی ڈی پی قرضوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور پاکستان کا جی ڈی پی جون 2013میں 22386ارب روپے سے بڑھ کر جون 2018میں 34397ارب روپے ہوگیا۔ جی ڈی پی کے حساب سے پاکستان کےکُل قرضے جون 2013 میں 60.1فیصد تھے جو جون 2017میں 61.4فیصد بڑھ گئے اور سیکیورٹی سے متعلقہ اخراجات یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ (ضربِ عضب) کے باعث جون 2018میں 67 فیصد بڑھ گئے اور پبلک سیکٹر کے ترقیاتی پراجیکٹس میں بھاری سرمایہ کاری جس میں ملک سے گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ، سڑکوں کی بہتری، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ذرائع مواصلات وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اتفاقیہ طورپر 2018 میں امریکا کے قرضے جی ڈی پی کا106فیصد تھے، جاپان میں 221فیصد، اٹلی 138 فیصد، بیلجیم 115فیصد اور سنگاپور کے105فیصد تھے یہ سب پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ضرور یاد رکھا ہوگا کہ پی ٹی آئی کے سیاسی دھرنوں جو کئی ماہ تک جاری رہے اور جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کیلئے ان کی اراکین کی جانب سے قومی اسمبلی میں استعفے جمع کرانے کےباجود پی ایم ایل(ن) نے اپنے دورِ حکومت میں اللہ کی مہربانی سے وفاقی ٹیکس کلیکشن میں 100فیصد اضافہ کیا، جی ڈی پی میں 3فیصد سے 5.8فیصد (13سال میں سب سے زیادہ) اضافہ ہوا اور افراطِ زرکم ترین ہوگیا، برآمدات ری فنانس یالانگ ٹرم فنانس کی سہولت کی شرح گزشتہ 40 سالہ کے مقابلے میں اضافہ ہوا اور غیرملکی ترسیلاتِ زر 13.9ارب ڈالر سے بڑھ کر 19.4ارب ڈالر ہوگئی،

ایکسچینج ریٹ مستحکم اور قومی فارن ایکسچینج زرمبادلہ فروری 2014میں 7.5ارب ڈالر سے 30جون 2017تک 21.4ارب ڈالر تک بڑھ گئے۔ عالمی ادارےاور ریٹنگ ایجنسیاں بشمول موڈیزسٹینڈرڈ اور پوورز، فوربز، بلومبرگ، اکانومسٹ اورآئی ایف آئی ان سب نےپی ایم ایل(ن) کے دورِ حکومت میں 30جون 2017 تک معاشی استحکام اور پاکستان کی ترقی پر مثبت رپورٹس دیں اور پرائس واٹرہائوس کوپرز کی رپورٹ میں پاکستان کی 2030تک جی 20میں شامل ہونے کی پیش گوئی کی گئی اورپی ایم ایل(ن) کے گزشتہ دورِ حکومت کے دوران پی ٹی آئی کی جانب سے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشیشیں کام نہ آئیں۔

مصنف نے کئی بار پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو ’’چارٹرآف اکانومی‘ پر اتفاق کرنے کی پیشکش کی تاکہ معیشت سیاست سے پاک رہے لیکن بدقسمتی سے تعاون نہیں کیاگیا۔ 1999کےبعد سے مختلف حکومتوں کے دوران قرضوں کا مذکورہ بالا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے بتائے گئے قرضوں کے اعدادوشمار بے بنیاد ہیں اور اس کے سیاسی محرکات ہیں جس کسی بھی معاشی میرٹ پر پورا نہیں اترتے۔ یہ امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت افسوس کرنا بدن کرے گی جیسا انہوں نےگزشتہ پانچ سال کے دوران اپوزیشن میں کیا اور یہ کام شروع کرےکیونکہ پاکستان کے لوگ پہلے ہی 70روز کے دوران روپے کی قدرمیں کمی، پاکستان اسٹاک ایکسچینچ انڈیکس میں کمی اور بنیادی اشیاء جیسے گیس اور بجلی کی قیمتوں میں غیرمثالی اضافے کےباعث کافی مشکلات برداشت کرچکےہیں۔

569276_5500276_Ishaq-Dar_akhbar.jpg

(مصنف سابق وزیرِ خزانہ اور انگلینڈ اور ویلز میں انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکائونٹنٹس کے فیلوممبر ہیں)



https://jang.com.pk/news/569276-stop-mourning-get-down-to-work-ishaq-dar
yehi baat wapas aa kar adalat main kaho bhagorrey.......... aur apni Dubai ki jaedaadon ka bhi hisaab do ke kitna GDP main danda maar ke ye buildings banai hain.......
 

CANSUK

Chief Minister (5k+ posts)
Sub batain apni Jaga per koi ye bataeyga ke apni hakumat ke hotay huway usi hakumat ka Wazeer e Khazana bhag jaey aur wapis na aye.
 

tahirmajid

Chief Minister (5k+ posts)
No one respond logically and with facts and figure, someone from PTI government should explain it with correct fact and figures. I am a PTI supporter but I can't close my eyes and I am not willing to give open space to PTI government to lie and change facts and figure. We want reality, True reality.
 

swing

Chief Minister (5k+ posts)
پاکستان آ کر یہ حکیمانہ باتیں کرو تو شائد مجھ جیسے لوگ مان بھی جائیں ، مفرور آدمی پر اعتماد کرنا عقل کے منافی سی بات ہے
 

miafridi

Prime Minister (20k+ posts)
Is article main boht say adaad o shumar twist kar k ghalat show kiye gae hai. Jis say baqi adaad o shumar ka andaza bhi bakhubi lagaya ja sakta hai. Article main kaha gaya hai k Federal tax ko 100% barhaya gaya, Lakin agar google kiya jae(ya FBR k active tax filer list ki report deki jae) toh pata chalay ga k 2013 main tax filer 95 million thay, jo 2018 main 1.25 million hogae. Meaning only about 35% increase in tax filers.

Wese bhi agar inhi adaad o shumar ko theek bhi maan liya jae toh os say yahi sabit hota hai k Musharraf k dor main total qarza 6 hazar say kam tah, jo PPP k dor main 13 hazar tak pohancha aur PML-N k dor main 23 hazar(In adaad o shumar k mutabik). Halankay PML-N k kisi official zarae ne bhi kabhi 30 hazar walay figure ko deny nahi kiya. Lakin I can understand k article lik kar emotional supporters ko gumraah aur mazeed emotional karnay k koshish ki gai hai..
 

mhafeez

Chief Minister (5k+ posts)
Is article main boht say adaad o shumar twist kar k ghalat show kiye gae hai. Jis say baqi adaad o shumar ka andaza bhi bakhubi lagaya ja sakta hai. Article main kaha gaya hai k Federal tax ko 100% barhaya gaya, Lakin agar google kiya jae(ya FBR k active tax filer list ki report deki jae) toh pata chalay ga k 2013 main tax filer 95 million thay, jo 2018 main 1.25 million hogae. Meaning only about 35% increase in tax filers.

Wese bhi agar inhi adaad o shumar ko theek bhi maan liya jae toh os say yahi sabit hota hai k Musharraf k dor main total qarza 6 hazar say kam tah, jo PPP k dor main 13 hazar tak pohancha aur PML-N k dor main 23 hazar(In adaad o shumar k mutabik). Halankay PML-N k kisi official zarae ne bhi kabhi 30 hazar walay figure ko deny nahi kiya. Lakin I can understand k article lik kar emotional supporters ko gumraah aur mazeed emotional karnay k koshish ki gai hai..

What was the total tax collection in June 2013 and June 2018??
 

Steyn

Chief Minister (5k+ posts)
Yeah like i am gonna believe a Munafiq.

PMLN don'teven deserve to be listened to, they only deserve one thing. A slow painful death.
 

mhafeez

Chief Minister (5k+ posts)
١٣میںنون لیگ آئی توقرضہ٧٠ارب ڈالر
جواب ٩٢ارب ڈالرہے قرضہ٢٢ارب ڈالرزیادہ
١٣میں خزانےمیں چھ ارب ڈالرتھا یہ سولہ ارب ڈالرچھوڑگئے دس ارب ڈالرزیادہ بائیس میں سےدس نکالیں توباقیبارہ بچتے ہیں
اب پی ٹی آئ نے دوماہ میں چھ ارب ڈالر لےلیے، مزید ٦ارب ڈالر لےرہےہیں ن لیگ نےجتناقرضہ٥ سال میں لیاپی ٹی آئ پہلےسال میں ہی لےرہی ہے
 

Will_Bite

Prime Minister (20k+ posts)
No one respond logically and with facts and figure, someone from PTI government should explain it with correct fact and figures. I am a PTI supporter but I can't close my eyes and I am not willing to give open space to PTI government to lie and change facts and figure. We want reality, True reality.

What facts are figures are you claiming PTI has changed? You are free to question everything, but do keep in mind a few facts.
1. Ishaq Dar paid $5 billion to IPPs within 30 days of assuming power. That money was parked in the financial year ending June 30 2013, so that it would fall in previous PPP govt's lap.
2. PMLN accumulated about $8 billion worth of circular debt with IPPs during its tenure. All of that has been parked in a 'new company' they made, and was spread out over 5 years in order to show a smaller figure per annum.
3. Asad Umar stated in his assembly speech in 2013 that according to IMF loan terms, the intrinsic value that they have use for the dollar at the end of the loan term, is stated at 127 to the dollar. PMLN made fun of it in 2013, and in 2016 when the program ended. But what they didnt mention was that it was because Ishaq Dar had artificially ehld the dollar back. After Miftah came, dollar appreciated, and before PTI took power, dollar stood at 129. A slap in the face of short sighted politicians, and short sighted supporters.
4. When PMLN came in, the current acct deficit was $2.5 billion.....yet they went for a 6.6 bill loan with IMF. Now in 2018, PMLN has left an $18 bill deficit.

Some basic information is available on the net, through SBP website, PBS, and news sites. We dont need PTI to feed us everything to know the facts.
 

sensible

Chief Minister (5k+ posts)
ڈالر کی پارٹی ابھی تک پی پی پی کو رو رہے ہیں انہوں نے کونسی اکانومی چھوڑی تھی
 

asus87

MPA (400+ posts)
ye lun yehi baat pakistan mei aak kar kare, Agar is mei ghairyyat naam ki cheeze hai too warna lele UK ka asylum visa
 

mhafeez

Chief Minister (5k+ posts)
What facts are figures are you claiming PTI has changed? You are free to question everything, but do keep in mind a few facts.
1. Ishaq Dar paid $5 billion to IPPs within 30 days of assuming power. That money was parked in the financial year ending June 30 2013, so that it would fall in previous PPP govt's lap.
2. PMLN accumulated about $8 billion worth of circular debt with IPPs during its tenure. All of that has been parked in a 'new company' they made, and was spread out over 5 years in order to show a smaller figure per annum.
3. Asad Umar stated in his assembly speech in 2013 that according to IMF loan terms, the intrinsic value that they have use for the dollar at the end of the loan term, is stated at 127 to the dollar. PMLN made fun of it in 2013, and in 2016 when the program ended. But what they didnt mention was that it was because Ishaq Dar had artificially ehld the dollar back. After Miftah came, dollar appreciated, and before PTI took power, dollar stood at 129. A slap in the face of short sighted politicians, and short sighted supporters.
4. When PMLN came in, the current acct deficit was $2.5 billion.....yet they went for a 6.6 bill loan with IMF. Now in 2018, PMLN has left an $18 bill deficit.

Some basic information is available on the net, through SBP website, PBS, and news sites. We dont need PTI to feed us everything to know the facts.

Rs. 450b paid as circular debt not USD. Out of which a big portion went to PSO, PPL, OGDCL, SNGPL,SSGPL, HUBCo, KAPCo etc. These are government entities.

This time around the reciveables in energy sector are around Rs. 900 b , while PMLN govwrnment left circular debt of Rs. 1100 billion so basically the government has to arrange Rs.250 b circular debt.
 

Back
Top