روح كا غسل اور لباس

w-a-n-t-e-d-

Minister (2k+ posts)


روح کا غســل اور روح کا لبــاس

رمضان المبارک کا مبارک وبابرکت مہینہ گزرگیا ، اورتمام اهل اسلام نے ایمان واحتساب کے ساتهہ مختلف اعمال صالحہ کی صورت میں اپنے لیئے زاد راه تیار کیا اور اپنے رب کا قرب ورضا حاصل کیا ،
الله تعالی نے انسان کو جسم و روح سے مُرکب بنایا هے ، اور یہ بات بهی بالکل بدیہی اور واضح هے کہ روح هی اصل هے اوراسی سے انسان کی زندگی هے
اسی لیئے انسانی جسم سے روح کے نکلنے کے بعد وه ایک بے جان لاش بن جاتا هے ، شریعت مُطہره جہاں هم کو ظاهری جسم کی صفائ وپاکی وآرائش وزیبائش کی تعلیم دیتی هے تو اس سے کہیں زیاده روح کی صفائ وپاکی وتزکیہ کا حکم دیتی هے ، روح کی صفائ وتزکیہ کا مسئلہ بہت زیاده اهم اوربہت زیاده قابل فکرهے ، روح کی بهی صفائ هوتی هے ، روح کا بهی غسل هوتا هے ، روح کی بهی آرائش وزیبائش هوتی هے ، روح کا بهی لباس هوتا هے ،
ارشاد باری تعالی هے
[ يا بني آدم قد أنزلنا عليكم لباسا يواري سوأتكم و ريشا و لباس التقوى ذلك خير].

اس آیت مبارکہ میں جسم کے لباس کا بهی ذکر هے اور اس کے بعد روح کے لباس کا بهی ذکر کیا گیا هے اور اس کو ( لباسُ التقوى ) کہا گیا اور فرمایا گیا کہ یہ جسمانی لباس کے مقابلہ میں بہت اعلی اوربہت بہترهے ،
( وَ لباسُ التقوى ذلكَ خَير) روح کا غسل اور اس کی آرائش وزیبائش کا بہترین اور اهم ترین وقت رمضان المبارک کا پورا مبارک مہینہ تها ، الله تعالی هی جانتا هے کہ هم میں سے کس کس نے اپنے روح کا غسل کیا ؟ یقینا روح کے غسل وآرائش وزیبائش کا خاص الخاص وقت رمضان المبارک کا مہینہ تها ، یقینا وه لوگ خوش قسمت وخوش نصیب هیں اوربہت کامیاب وکامران هیں جنهوں نے رمضان المبارک کے دنوں اور راتوں میں اپنی روح کا بار بار غسل کیا ،
دن کو روزه رکها تمام شرائط وآداب کے ساتهہ ، رات کو بیس رکعت تراویح میں قرآن سنانے یا سننے کا اهتمام کیا ، توبہ واستغفار وذکرواذکار کا اهتمام کیا ، ليلة القدر کی عظیم دولت ونعمت کے حصول کا اهتمام کیا ، تلاوت قرآن کا خاص اهتمام کیا ، اور تنافس کا جذبہ پیدا کیا ، عشره اخیر اعتکاف کیا ، وغیره ذالک

روح کا غسل کیا هے ؟؟ روح کا غسل هے دل کی سچی توبہ اور اپنے حقیقی مالک کی طرف کامل رجوع ، اور روح کا لباس کیا هے ؟؟ روح کا لباس تقوی هے قرآن مجید نے اسی کو فرمایا ( وَ لباسُ التقوى ذلكَ خَير
الله تعالی مجهے اورآپ کو اورجمیع اهل اسلام کو یہ توفیق دے کہ هم روح کوغسل دیں اورالله تعالی همیں توفیق دے کہ روح کے لباس اور روح کو اچها پہنانے کی فکرکریں اور وه کیا هے ؟؟ بس دو چیزیں هیں
توبہ اور تقوی ، اور توبہ کیا هے ؟؟ وه یہ کہ هم سے اِس وقت تک جتنے بهی گناه اور غیرشرع اعمال سرزد هوئے هیں ، توسچے دل سے هم الله تعالی سے معافی مانگیں اوردل سے یہ پختہ اراده کرلیں کہ آئنده ان سے بچنے کی کوشش کریں گے ، اوراگرهم نے صرف معافی مانگی اورآئنده کے لیئے گناهوں سے بچنے اورباز رهنے کا اراده وعزم نہیں کیا تو یہ توبہ نہیں هوئ بلکہ اس کا نام استغفار هے اور یہ گویا آدهی توبہ ضرور هے اور بلاشبہ صرف استغفار و معافی بهی بہت بہترین خصلت اورکام آنے والی چیز هے ، لیکن ابهی یہ کام ادهورا اور ناقص هے پوری توبہ یہ نہیں هے ، کیونکہ کامل توبہ کے لیئے یہ شرط هے کہ مُعافی واستغفار ومغفرت مانگنے کے ساتهہ یہ پختہ اراده وعزم بهی کرے کہ انشاء الله آئنده کسی گناه کا ارتکاب نہیں کروں گا اور همیشہ تمام گناهوں سے بچنے کی کوشش کروں گا ، اوربالفرض کوئ گناه سرزد هوجائے توفورا سچی توبہ کروں گا ، یہ هے حقیقی توبہ اگر هم سب کو یہ نصیب هوا هے تو بس روح کا غسل هوگیا هے ،
لہذا دو کام اهل اسلام کے لیئے هروقت ضروری هیں 1 = سچی توبہ اور 2 = کامل تقوی ، یقینا اس توبہ وتقوی کے بعد بهی هم سے گناه هوسکتے هیں ، هم فرشتے نہیں بن جائیں گے ، بهول چوک هوگی ، غفلت هوگی ، غلطیاں کوتاهیاں هوں گی ، نفس وشیطان کے حملے هوں گے ، لیکن یہ بهول چوک وگناه وغلطی همیں تقوی سے محروم نہیں کرے گی ، جب تقوی نصیب هوگیا تو پهروه همیں جگائے گا سچی توبہ واستغفار پر فورا آماده کرے گا ،
اهل تقوی اور مُتقین کا یہی حال قرآن نے اس طرح بیان کیا
إن الذين اتقوا إذا مسهم طائف من الشيطان تذكروا فإذا هم مبصرون وإخوانهم يمدونهم في الغي ثم لا يقصرون ))
یعنی اهل تقوی کا یہ حال هے کہ جب شیطان ان پرحملہ آور هوتا هے ، اورکوئ غلطی کوئ معصیت ان سے سرزد هوتی هے توفرمایا " تـَذَكـَّروُا " ان کے اندرایک چونک پیدا هوجاتی هے ، ان کی آنکهیں کهل جاتی هیں ، هائے یہ کیا هوگیا ، وه چیختے روتے هیں ، بے چین ومُضطرب هوجاتے هیں ، الله تعالی کے سامنے خوب گڑگڑاتے هیں ، اور پهراسی رونے دهونے اورتوبہ کرنے سے هی ان سکون ملتا هے اورقرب الہی میں مُسلسل ترقی هوتی هے،
الله تعالی مجهے اورآپ کوبهی یہ عظیم دولت وتعلق مع الله نصیب کرے " آمین
ارشاد باری تعالی هے
:[و تزودوا فإن خير الزاد التقوى و اتقون يا أولي الألباب].
اس آیت میں الله تعالی نے جہاں زاد راه اور خرچہ تیار رکهنے کا حکم دیا ساتهہ هی یہ بهی فرما دیا کہ بہترین زاد راه اور خرچہ " تقوی " هے ، پهر تقوی کو کیوں بہترین زاد راه فرمایا ؟؟ اس لیئے کہ زاد اورخرچہ دو قسم پرهوتا هے
مادي اور معنوي ، زاد مادي وه تو کهانا پینا اوردیگرضروریات زندگی هیں جن میں انسانی بدن کی حیات هے،
اور زاد معنوي وه تقوی هے جس میں روح کی حیات هے اور یہی سعادة الدارين هے اوراسی کوالله تعالی نے بہترین زاد راه اور خرچہ قراردیا ،
ارشاد باری تعالی هے
:[ وكذلك أوحينا إليك روحا من أمرنا ما كنت تدري ما الكتاب و لا الإيمان و لكن جعلناه نورا نهدي به من نشاء من عبادنا ]
اس آیت میں الله تعالی نے اس شریعت کا نام " روُح " رکها جو جناب خاتم الانبیاء
صلى الله عليه وسلم قلب مُبارک پرنازل کی گئ ، کیونکہ اسی شریعت پرعمل کرنے میں روُح کی حقیقی وابدی حیات ونجات هے ،
تقوی کی فضیلت واهمیت اوراس کے حصول وترغیب پرقرآن مجید میں آیات کثیره موجود هیں ، اورالله تعالی نے مختلف کلمات سے تقوی کی فضیلت واهمیت کو بیان کیا ، کبهی توامرکے ساتهہ ، کبهی ترغیب وتاکید کے ساتهہ ، کبهی اس کے محاسن وفضائل کے ساتهہ ، کبهی تخويف کے ساتهہ ، کبهی قبولیت کی بشارت کےساتهہ ، اورکبهی اپنی خصوصی تائید ونصرت ومَعِیّت کی بشارت کے ساتهہ " تقوی " کے عظیم الشان مرتبہ کوبیان کیا ،

سلف صالحین کی عادت مبارکہ
سلف صالحین کی یہ عادت تهی کہ جب ایک دوسرے سے جدا هوتے تورخصت هونے والا کسی نصیحت کی فرمائش کیا کرتا تها ، اوراس کوعمومی نصیحت یہ کی جاتی تهی " اوصیکم بتقوی الله " میں تمهیں تقوی کی وصیت کرتا هوں کہ الله تعالی سےڈرتے رهو اوراحتیاط کے ساتهہ اپنا بچاو کرتے رهو ،
یہ اتنی همہ گیراورجامع وکامل نصیحت هے کہ اگرغورکیا جائے تواس میں سارا دین آجاتا هے ، کیونکہ تقوی کا عمومی درجہ تو یہ هے کہ آدمی دین اسلام کو مضبوطی سے تهام کر کفر وشرک سے بچتا رهے ،
اس کے بعد تقوی کا مرتبہ یہ هے کہ آدمی اخلاص کوسنبهال کرنفاق سے اجتناب کرے ، اس کے بعد تقوی کا مرتبہ یہ هے کہ آدمی اسلام واخلاص کے ساتهہ اتباع سنت کوتهام کربدعات ومُحدَثات سے بچتا رهے ، اس کے بعد تقوی کا مقام یہ هے کہ بنده صلاح و رُشد کو سنبهال کرفسق وفجور و معاصی سے اجتناب کرے ، اس کے بعد تقوی کا مقام یہ هے کہ ضروریات دین کے دائره میں ره کر لایعنی اور فضولیات سے بچتا رهے ، جیسے فضول طعام ، فضول کلام ولباس وغیره ، اس کے بعد تقوی کا مقام یہ هے کہ کارآمد ونافع ومفید امور کے دائره میں محدود ره کر لایعنی وعبث وبے فائده امور سے گریزکرے ،
یہاں سے آپ سلف صالحین کی فراست وذکاوت وعلم ودرایت کا بهی اندازه کرلیں کہ ایک مختصر سا لفظ " تقوی " کا اختیارکیا اورسارے دین کی نصیحت فرمادی ، لیکن " تقوی " کی اس کامل وجامع ترین حقیقت کے حصول کا طریقہ صحبت صلحاء اور اهلُ الله کی مَعِیّت هے کہ اس کے بغیر " تقوی " کی حقیقت جوعلمی مقام هے اور" تقوی " پرگامزن رهنا جوعملی مقام هے سامنے نہیں آسکتی اورنہ هی اس کے تمام گوشے واشگاف هوسکتے هیں ،
اسی لیئے قرآن مجید نے ایک مقام پرجہاں اهل ایمان کو" تقوی " کا حکم کیا وهیں صحبت صلحاء کا قطعی حکم بهی دیا اور فرمایا
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ**
اے ایمان والو تقوی اختیارکرو (الله سے ڈرتے رهو) اورصادقین کی مَعِیّت اختیارکرو ، تومعیت وصُحبت سبب هے اورتقوی اس کا نتیجہ وثمره هے ۰
أللهم اجعلنا من المتقين واجعلنا من عبادك الصالحين ٠


توبہ فلاح وکامیابی کا راستہ
الله تعالی نے فرمایا (( وتوبوا الی الله جمیعا لعلکم تفلحون)) یہ مدنی آیت هے الله تعالی اس آیت میں ان کامل الایمان نیک صالح لوگوں کوتوبہ کا حکم دے رهے هیں جو ایمان واعمال صالحہ صبر وشکر وقربانی وهجرت وجهاد وغیره بہت سے اعمال کرچکے تهے ، اور پهر توبہ کو فلاح کے ساتهہ لگایا یعنی فلاح وکامیابی کا راستہ صرف اور صرف توبہ هی هے اور فلاح تائبین کوهی ملے گی ۰
آج پوری امت مسلمہ جن بے شمارمشکلات ومصائب ومسائل کا شکارهے وه کسی سے مخفی نہیں هے ، اوربالخصوص وطن عزیز پاکستان سیلاب کی ایک بہت بڑی آفت وعذاب میں مبتلاهے اورتاحال سیلاب کی تباه کاریوں کا سلسلہ جاری هے ،ان گهمبیر حالات میں ابتلاء اورپهران سے نکلنے کے لیئے لوگ مختلف وجوهات واسباب بتلاتے هیں ، لیکن قرآن مجید همیں بتاتا هے کہ ان مشکلات ومصائب وآفات میں مبتلاء هونے کی اصل سبب لوگوں کے اپنے اعمال هوتے هیں ، اورساتهہ هی قرآن مجید همیں ان مشکلات ومصائب وآفات سے بچنے اورنکلنے کا وظیفہ ونسخہ بهی بتلاتا هے ، اور وه انفرادی واجتماعی طورپر توبہ واستغفار کا راستہ اختیار کرنا هے ، لیکن بدقسمتی سے هم قرآن مجید کے بتائے هوئے اس هدایت سے غافل هیں ،
تمام مسائل ومشاکل کا حل اور ظاهری وباطنی آفات وبلیات اور الله تعالی کے عذاب سے بچنے کا صرف اور صرف ایک هی راستہ هے اور وه رجوع الی الله اور توبہ استغفار هے ، توبہ واستغفارمومن کا ایک دائمی عمل و وظیفہ هے جس کو وه کبهی نہیں چهوڑسکتا اور مومن توبہ واستغفار کے ساتهہ هی دنیا میں رهتا هے اوراسی کے ساتهہ هی دنیا سے رخصت هوتا هے ، توبہ هی مومن کی ابتداء هے اوریہی اس کی انتهاء هے ، توبہ هی حقیقت میں دین اسلام هے اوردین سب کا سب توبہ میں داخل هے ۰
قرآن مجید میں سورت هود میں تدبرکرنے کے بعد یہ بات واضح وظاهرهوجاتی هے کہ اس سورت مبارکہ میں ایک امرکا تذکره بکثرت آیا هے اور وه هے انبیاء علیهم السلام کا اپنی اقوام کو استغفار وتوبہ کا حکم کرنا ، اوراسی طرح سورت هود میں ان اقوام کی تباهی وهلاکت کا تذکره بهی هے جنهوں نے استغفار وتوبہ کا راستہ اختیارنہیں کیا ، تومعلوم هوا کہ الله تعالی کے عذاب وغضب سے بچنے کا ایک هی راستہ هے یعنی سچی توبہ واستغفارکرنا ۰

توبہ واستغفار تمام انبیاء علیهم السلام کا شیوه اورخصلت هے

حضرت آدم وحوا علیهما السلام کا استغفار{قَالا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنْ الْخَاسِرِينَ** [الأعراف: 23]، سیدنا موسی علیہ السلام کا استغفار ، {قاَلَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي ** [القصص: 16]،،سیدنا داود علیہ السلام کا استغفار ،{وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ [ص: 24]، ،سیدنا سلیمان علیہ السلام کا استغفار {قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لا يَنْبَغِي لأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ** [ص: 35]،،سیدنا نوح علیہ السلام کا استغفار ، {رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِي مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ** [نوح: 28].
یہ الله تعالی جلیل القدر انبیاء ورسل عليهم صلوات الله وسلامه، الله تعالی کے مقرب ومعصوم بندے هیں ، رب العالمين سے مغفرت واستغفارکرتے هیں ،
جناب خاتم الانبیاء سیدنا محمد صلی الله علیہ وسلم سيد المستغفرين هیں ، اور الله تعالی نے آپ کو یہ خصوصی بشارت بهی دی {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا** [الفتح: 1، 2]، لیکن اس عطیہ الہیہ اورتفضل رباني کے باوجود آپ هردن میں سو (۱۰۰ ) مرتبہ استغفار وتوبہ کرتے وإني { وإني لأستغفر الله في كل يوم مائة مرة **هذا لفظ أبي داود ولفظ الإمام أحمد ومسلم { إنه ليغان على قلبي حتى أستغفر الله في اليوم مائة مرة ** { : توبوا إلى ربكم فوالله إني لأتوب إلى ربي تبارك وتعالى مائة مرة في اليوم ** . والأحاديث في هذا المعنى كثيرة جدا ٠
 

babadeena

Minister (2k+ posts)
People are not getting enough water for their daily lives, and
some fanatics start writing such non-nonsensical things out of blue.
As per Quran, even our Prophet(PBUH) was given very limited
(Qaleel) knowledge about "Rooh", and the writer came to
teach us about its ghusal and clothing.
Instead of confronting daily and most urgent problems,
people keep insisting to dig out of mountain nothing.
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
Allah bless us deen and Eman and ability for Taqwa....

This article is for ahle rooh only , they could understand it better.
 

samar

Minister (2k+ posts)


روح کا غســل اور روح کا لبــاس

رمضان المبارک کا مبارک وبابرکت مہینہ گزرگیا ، اورتمام اهل اسلام نے ایمان واحتساب کے ساتهہ مختلف اعمال صالحہ کی صورت میں اپنے لیئے زاد راه تیار کیا اور اپنے رب کا قرب ورضا حاصل کیا ،
الله تعالی نے انسان کو جسم و روح سے مُرکب بنایا هے ، اور یہ بات بهی بالکل بدیہی اور واضح هے کہ روح هی اصل هے اوراسی سے انسان کی زندگی هے
اسی لیئے انسانی جسم سے روح کے نکلنے کے بعد وه ایک بے جان لاش بن جاتا هے ، شریعت مُطہره جہاں هم کو ظاهری جسم کی صفائ وپاکی وآرائش وزیبائش کی تعلیم دیتی هے تو اس سے کہیں زیاده روح کی صفائ وپاکی وتزکیہ کا حکم دیتی هے ، روح کی صفائ وتزکیہ کا مسئلہ بہت زیاده اهم اوربہت زیاده قابل فکرهے ، روح کی بهی صفائ هوتی هے ، روح کا بهی غسل هوتا هے ، روح کی بهی آرائش وزیبائش هوتی هے ، روح کا بهی لباس هوتا هے ،
ارشاد باری تعالی هے
[ يا بني آدم قد أنزلنا عليكم لباسا يواري سوأتكم و ريشا و لباس التقوى ذلك خير].

اس آیت مبارکہ میں جسم کے لباس کا بهی ذکر هے اور اس کے بعد روح کے لباس کا بهی ذکر کیا گیا هے اور اس کو ( لباسُ التقوى ) کہا گیا اور فرمایا گیا کہ یہ جسمانی لباس کے مقابلہ میں بہت اعلی اوربہت بہترهے ،
( وَ لباسُ التقوى ذلكَ خَير) روح کا غسل اور اس کی آرائش وزیبائش کا بہترین اور اهم ترین وقت رمضان المبارک کا پورا مبارک مہینہ تها ، الله تعالی هی جانتا هے کہ هم میں سے کس کس نے اپنے روح کا غسل کیا ؟ یقینا روح کے غسل وآرائش وزیبائش کا خاص الخاص وقت رمضان المبارک کا مہینہ تها ، یقینا وه لوگ خوش قسمت وخوش نصیب هیں اوربہت کامیاب وکامران هیں جنهوں نے رمضان المبارک کے دنوں اور راتوں میں اپنی روح کا بار بار غسل کیا ،
دن کو روزه رکها تمام شرائط وآداب کے ساتهہ ، رات کو بیس رکعت تراویح میں قرآن سنانے یا سننے کا اهتمام کیا ، توبہ واستغفار وذکرواذکار کا اهتمام کیا ، ليلة القدر کی عظیم دولت ونعمت کے حصول کا اهتمام کیا ، تلاوت قرآن کا خاص اهتمام کیا ، اور تنافس کا جذبہ پیدا کیا ، عشره اخیر اعتکاف کیا ، وغیره ذالک

روح کا غسل کیا هے ؟؟ روح کا غسل هے دل کی سچی توبہ اور اپنے حقیقی مالک کی طرف کامل رجوع ، اور روح کا لباس کیا هے ؟؟ روح کا لباس تقوی هے قرآن مجید نے اسی کو فرمایا ( وَ لباسُ التقوى ذلكَ خَير
الله تعالی مجهے اورآپ کو اورجمیع اهل اسلام کو یہ توفیق دے کہ هم روح کوغسل دیں اورالله تعالی همیں توفیق دے کہ روح کے لباس اور روح کو اچها پہنانے کی فکرکریں اور وه کیا هے ؟؟ بس دو چیزیں هیں
توبہ اور تقوی ، اور توبہ کیا هے ؟؟ وه یہ کہ هم سے اِس وقت تک جتنے بهی گناه اور غیرشرع اعمال سرزد هوئے هیں ، توسچے دل سے هم الله تعالی سے معافی مانگیں اوردل سے یہ پختہ اراده کرلیں کہ آئنده ان سے بچنے کی کوشش کریں گے ، اوراگرهم نے صرف معافی مانگی اورآئنده کے لیئے گناهوں سے بچنے اورباز رهنے کا اراده وعزم نہیں کیا تو یہ توبہ نہیں هوئ بلکہ اس کا نام استغفار هے اور یہ گویا آدهی توبہ ضرور هے اور بلاشبہ صرف استغفار و معافی بهی بہت بہترین خصلت اورکام آنے والی چیز هے ، لیکن ابهی یہ کام ادهورا اور ناقص هے پوری توبہ یہ نہیں هے ، کیونکہ کامل توبہ کے لیئے یہ شرط هے کہ مُعافی واستغفار ومغفرت مانگنے کے ساتهہ یہ پختہ اراده وعزم بهی کرے کہ انشاء الله آئنده کسی گناه کا ارتکاب نہیں کروں گا اور همیشہ تمام گناهوں سے بچنے کی کوشش کروں گا ، اوربالفرض کوئ گناه سرزد هوجائے توفورا سچی توبہ کروں گا ، یہ هے حقیقی توبہ اگر هم سب کو یہ نصیب هوا هے تو بس روح کا غسل هوگیا هے ،
لہذا دو کام اهل اسلام کے لیئے هروقت ضروری هیں 1 = سچی توبہ اور 2 = کامل تقوی ، یقینا اس توبہ وتقوی کے بعد بهی هم سے گناه هوسکتے هیں ، هم فرشتے نہیں بن جائیں گے ، بهول چوک هوگی ، غفلت هوگی ، غلطیاں کوتاهیاں هوں گی ، نفس وشیطان کے حملے هوں گے ، لیکن یہ بهول چوک وگناه وغلطی همیں تقوی سے محروم نہیں کرے گی ، جب تقوی نصیب هوگیا تو پهروه همیں جگائے گا سچی توبہ واستغفار پر فورا آماده کرے گا ،
اهل تقوی اور مُتقین کا یہی حال قرآن نے اس طرح بیان کیا
إن الذين اتقوا إذا مسهم طائف من الشيطان تذكروا فإذا هم مبصرون وإخوانهم يمدونهم في الغي ثم لا يقصرون ))
یعنی اهل تقوی کا یہ حال هے کہ جب شیطان ان پرحملہ آور هوتا هے ، اورکوئ غلطی کوئ معصیت ان سے سرزد هوتی هے توفرمایا " تـَذَكـَّروُا " ان کے اندرایک چونک پیدا هوجاتی هے ، ان کی آنکهیں کهل جاتی هیں ، هائے یہ کیا هوگیا ، وه چیختے روتے هیں ، بے چین ومُضطرب هوجاتے هیں ، الله تعالی کے سامنے خوب گڑگڑاتے هیں ، اور پهراسی رونے دهونے اورتوبہ کرنے سے هی ان سکون ملتا هے اورقرب الہی میں مُسلسل ترقی هوتی هے،
الله تعالی مجهے اورآپ کوبهی یہ عظیم دولت وتعلق مع الله نصیب کرے " آمین
ارشاد باری تعالی هے
:[و تزودوا فإن خير الزاد التقوى و اتقون يا أولي الألباب].
اس آیت میں الله تعالی نے جہاں زاد راه اور خرچہ تیار رکهنے کا حکم دیا ساتهہ هی یہ بهی فرما دیا کہ بہترین زاد راه اور خرچہ " تقوی " هے ، پهر تقوی کو کیوں بہترین زاد راه فرمایا ؟؟ اس لیئے کہ زاد اورخرچہ دو قسم پرهوتا هے
مادي اور معنوي ، زاد مادي وه تو کهانا پینا اوردیگرضروریات زندگی هیں جن میں انسانی بدن کی حیات هے،
اور زاد معنوي وه تقوی هے جس میں روح کی حیات هے اور یہی سعادة الدارين هے اوراسی کوالله تعالی نے بہترین زاد راه اور خرچہ قراردیا ،
ارشاد باری تعالی هے
:[ وكذلك أوحينا إليك روحا من أمرنا ما كنت تدري ما الكتاب و لا الإيمان و لكن جعلناه نورا نهدي به من نشاء من عبادنا ]
اس آیت میں الله تعالی نے اس شریعت کا نام " روُح " رکها جو جناب خاتم الانبیاء
صلى الله عليه وسلم قلب مُبارک پرنازل کی گئ ، کیونکہ اسی شریعت پرعمل کرنے میں روُح کی حقیقی وابدی حیات ونجات هے ،
تقوی کی فضیلت واهمیت اوراس کے حصول وترغیب پرقرآن مجید میں آیات کثیره موجود هیں ، اورالله تعالی نے مختلف کلمات سے تقوی کی فضیلت واهمیت کو بیان کیا ، کبهی توامرکے ساتهہ ، کبهی ترغیب وتاکید کے ساتهہ ، کبهی اس کے محاسن وفضائل کے ساتهہ ، کبهی تخويف کے ساتهہ ، کبهی قبولیت کی بشارت کےساتهہ ، اورکبهی اپنی خصوصی تائید ونصرت ومَعِیّت کی بشارت کے ساتهہ " تقوی " کے عظیم الشان مرتبہ کوبیان کیا ،

سلف صالحین کی عادت مبارکہ
سلف صالحین کی یہ عادت تهی کہ جب ایک دوسرے سے جدا هوتے تورخصت هونے والا کسی نصیحت کی فرمائش کیا کرتا تها ، اوراس کوعمومی نصیحت یہ کی جاتی تهی " اوصیکم بتقوی الله " میں تمهیں تقوی کی وصیت کرتا هوں کہ الله تعالی سےڈرتے رهو اوراحتیاط کے ساتهہ اپنا بچاو کرتے رهو ،
یہ اتنی همہ گیراورجامع وکامل نصیحت هے کہ اگرغورکیا جائے تواس میں سارا دین آجاتا هے ، کیونکہ تقوی کا عمومی درجہ تو یہ هے کہ آدمی دین اسلام کو مضبوطی سے تهام کر کفر وشرک سے بچتا رهے ،
اس کے بعد تقوی کا مرتبہ یہ هے کہ آدمی اخلاص کوسنبهال کرنفاق سے اجتناب کرے ، اس کے بعد تقوی کا مرتبہ یہ هے کہ آدمی اسلام واخلاص کے ساتهہ اتباع سنت کوتهام کربدعات ومُحدَثات سے بچتا رهے ، اس کے بعد تقوی کا مقام یہ هے کہ بنده صلاح و رُشد کو سنبهال کرفسق وفجور و معاصی سے اجتناب کرے ، اس کے بعد تقوی کا مقام یہ هے کہ ضروریات دین کے دائره میں ره کر لایعنی اور فضولیات سے بچتا رهے ، جیسے فضول طعام ، فضول کلام ولباس وغیره ، اس کے بعد تقوی کا مقام یہ هے کہ کارآمد ونافع ومفید امور کے دائره میں محدود ره کر لایعنی وعبث وبے فائده امور سے گریزکرے ،
یہاں سے آپ سلف صالحین کی فراست وذکاوت وعلم ودرایت کا بهی اندازه کرلیں کہ ایک مختصر سا لفظ " تقوی " کا اختیارکیا اورسارے دین کی نصیحت فرمادی ، لیکن " تقوی " کی اس کامل وجامع ترین حقیقت کے حصول کا طریقہ صحبت صلحاء اور اهلُ الله کی مَعِیّت هے کہ اس کے بغیر " تقوی " کی حقیقت جوعلمی مقام هے اور" تقوی " پرگامزن رهنا جوعملی مقام هے سامنے نہیں آسکتی اورنہ هی اس کے تمام گوشے واشگاف هوسکتے هیں ،
اسی لیئے قرآن مجید نے ایک مقام پرجہاں اهل ایمان کو" تقوی " کا حکم کیا وهیں صحبت صلحاء کا قطعی حکم بهی دیا اور فرمایا
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ**
اے ایمان والو تقوی اختیارکرو (الله سے ڈرتے رهو) اورصادقین کی مَعِیّت اختیارکرو ، تومعیت وصُحبت سبب هے اورتقوی اس کا نتیجہ وثمره هے ۰
أللهم اجعلنا من المتقين واجعلنا من عبادك الصالحين ٠


توبہ فلاح وکامیابی کا راستہ
الله تعالی نے فرمایا (( وتوبوا الی الله جمیعا لعلکم تفلحون)) یہ مدنی آیت هے الله تعالی اس آیت میں ان کامل الایمان نیک صالح لوگوں کوتوبہ کا حکم دے رهے هیں جو ایمان واعمال صالحہ صبر وشکر وقربانی وهجرت وجهاد وغیره بہت سے اعمال کرچکے تهے ، اور پهر توبہ کو فلاح کے ساتهہ لگایا یعنی فلاح وکامیابی کا راستہ صرف اور صرف توبہ هی هے اور فلاح تائبین کوهی ملے گی ۰
آج پوری امت مسلمہ جن بے شمارمشکلات ومصائب ومسائل کا شکارهے وه کسی سے مخفی نہیں هے ، اوربالخصوص وطن عزیز پاکستان سیلاب کی ایک بہت بڑی آفت وعذاب میں مبتلاهے اورتاحال سیلاب کی تباه کاریوں کا سلسلہ جاری هے ،ان گهمبیر حالات میں ابتلاء اورپهران سے نکلنے کے لیئے لوگ مختلف وجوهات واسباب بتلاتے هیں ، لیکن قرآن مجید همیں بتاتا هے کہ ان مشکلات ومصائب وآفات میں مبتلاء هونے کی اصل سبب لوگوں کے اپنے اعمال هوتے هیں ، اورساتهہ هی قرآن مجید همیں ان مشکلات ومصائب وآفات سے بچنے اورنکلنے کا وظیفہ ونسخہ بهی بتلاتا هے ، اور وه انفرادی واجتماعی طورپر توبہ واستغفار کا راستہ اختیار کرنا هے ، لیکن بدقسمتی سے هم قرآن مجید کے بتائے هوئے اس هدایت سے غافل هیں ،
تمام مسائل ومشاکل کا حل اور ظاهری وباطنی آفات وبلیات اور الله تعالی کے عذاب سے بچنے کا صرف اور صرف ایک هی راستہ هے اور وه رجوع الی الله اور توبہ استغفار هے ، توبہ واستغفارمومن کا ایک دائمی عمل و وظیفہ هے جس کو وه کبهی نہیں چهوڑسکتا اور مومن توبہ واستغفار کے ساتهہ هی دنیا میں رهتا هے اوراسی کے ساتهہ هی دنیا سے رخصت هوتا هے ، توبہ هی مومن کی ابتداء هے اوریہی اس کی انتهاء هے ، توبہ هی حقیقت میں دین اسلام هے اوردین سب کا سب توبہ میں داخل هے ۰
قرآن مجید میں سورت هود میں تدبرکرنے کے بعد یہ بات واضح وظاهرهوجاتی هے کہ اس سورت مبارکہ میں ایک امرکا تذکره بکثرت آیا هے اور وه هے انبیاء علیهم السلام کا اپنی اقوام کو استغفار وتوبہ کا حکم کرنا ، اوراسی طرح سورت هود میں ان اقوام کی تباهی وهلاکت کا تذکره بهی هے جنهوں نے استغفار وتوبہ کا راستہ اختیارنہیں کیا ، تومعلوم هوا کہ الله تعالی کے عذاب وغضب سے بچنے کا ایک هی راستہ هے یعنی سچی توبہ واستغفارکرنا ۰

توبہ واستغفار تمام انبیاء علیهم السلام کا شیوه اورخصلت هے

حضرت آدم وحوا علیهما السلام کا استغفار{قَالا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنْ الْخَاسِرِينَ** [الأعراف: 23]، سیدنا موسی علیہ السلام کا استغفار ، {قاَلَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي ** [القصص: 16]،،سیدنا داود علیہ السلام کا استغفار ،{وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ [ص: 24]، ،سیدنا سلیمان علیہ السلام کا استغفار {قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لا يَنْبَغِي لأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ** [ص: 35]،،سیدنا نوح علیہ السلام کا استغفار ، {رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِي مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ** [نوح: 28].
یہ الله تعالی جلیل القدر انبیاء ورسل عليهم صلوات الله وسلامه، الله تعالی کے مقرب ومعصوم بندے هیں ، رب العالمين سے مغفرت واستغفارکرتے هیں ،
جناب خاتم الانبیاء سیدنا محمد صلی الله علیہ وسلم سيد المستغفرين هیں ، اور الله تعالی نے آپ کو یہ خصوصی بشارت بهی دی {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا** [الفتح: 1، 2]، لیکن اس عطیہ الہیہ اورتفضل رباني کے باوجود آپ هردن میں سو (۱۰۰ ) مرتبہ استغفار وتوبہ کرتے وإني { وإني لأستغفر الله في كل يوم مائة مرة **هذا لفظ أبي داود ولفظ الإمام أحمد ومسلم { إنه ليغان على قلبي حتى أستغفر الله في اليوم مائة مرة ** { : توبوا إلى ربكم فوالله إني لأتوب إلى ربي تبارك وتعالى مائة مرة في اليوم ** . والأحاديث في هذا المعنى كثيرة جدا ٠

Bhai sahab Ye SSP kia he iskey barey me btain.
 

Back
Top